Tuesday, July 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے2۔۔ پاکستانی خواتین کے قدموں میں ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا

محمد اخلاق اسلم
کوہ پیمائی ایک نہایت مشکل اور جانبازی کا کھیل ہے جسے باحوصلہ افراد ہی انجام دے سکتے ہیں۔ پہاڑوں کو سر کرنے کی چاہ نے انسان کو شعور پانے سے ہی دیوانہ بنا رکھا ہے اور یہ کام دیوانہ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ رواں برس پاکستان میں 8 ہزار میٹر سے بلند 5 چوٹیوں اور دیگر پہاڑوں کو سر کرنے کے لئے دُنیا بھر سے 1400 کوہ پیما اور ٹریکرز گلگت بلتستان پہنچ چکے جو تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کے خواہشمند ہیں۔ امسال ریکارڈ 370 کوہ پیماؤں نے کے2 سر کرنے پر نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ اسی عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو خواتین کوہ پیما نائلہ کیانی اور ثمینہ بیگ نے دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے2 سر کرکے پہلی پاکستانی خاتون کا اعزاز حاصل کیا جبکہ نائلہ کیانی نے یہ چوٹی سر کرنے والی دوسری پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ثمینہ بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے علاقے شمشال سے ہے، جہاں کئی لوگوں کا پیشہ کوہ پیمائی ہے۔ ثمینہ بیگ کو بچپن ہی سے مہم جوئی کا شوق تھا مگر یہ وہ دور تھا جس میں پاکستان میں کوہ پیمائی پر مکمل طور پر مردوں کی اجارہ داری تھی لیکن ثمینہ بیگ خوش قسمت ثابت ہوئیں کہ ان کے خاندان والے ان کے اس شوق میں حائل نہیں ہوئے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ثمینہ بیگ نے 2013ء میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا تھا۔ اس موقع پر ان کے بھائی اور معروف کوہ پیما مرزا علی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس کے علاوہ ثمینہ بیگ نے 2014-15ء میں دُنیا کے سات براعظموں کی بلند چوٹیوں کو فتح کیا تھا۔ ثمینہ بیگ کو دو مرتبہ اقوام متحدہ کی جانب سے خیرسگالی کا سفیر مقرر کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔ ثمینہ بیگ نے گزشتہ سال K2 کی مہم کو موسم کی خرابی اور انتہائی نامناسب حالات میں ادھورا چھوڑا تھا۔ ان کی ٹیم کے ممبران برفانی تودے کی زد میں آ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کو واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا مگر اس سال انہوں نے دوبارہ اپنی اس ادھوری مہم کو شروع کیا جس میں کامیاب ہوئیں۔
نائلہ کیانی کی بات کی جائے تو ان کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کے علاقے گوجر خان سے ہے۔ انہوں نے ایرواسپیس انجینئرنگ کی تعلیم برطانیہ سے حاصل کرکے کچھ عرصے اس شعبے میں بھی کام کیا تھا تاہم اب وہ اپنے خاوند کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں جہاں اس وقت وہ ہیکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے 17 جولائی 2022ء کو کے2 بیس کیمپ سے سمٹ کے لئے سفر شروع کیا تھا۔ واضح رہے کہ نائلہ اس سے قبل گیشر برم پیک بھی سر کر چکی ہیں اور وہ پاکستان کے اندر کسی بھی آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹی کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔
یاد رہے کہ کے2 دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ اسے ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے2 پر 246 جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2238 افراد چڑھ چکے ہیں۔ کے2 قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی وہ بلند ترین چوٹی ہے جو پاکستان اور چین کی سرحد کے قریب گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ کے2 کو مقامی بلتی زبان میں چھوغوری بھی کہتے ہیں جو 8 ہزار 611 میٹر یعنی سطح سمندر سے 28 ہزار 251 فٹ کی بلندی پر اپنی تمام تر قاتلانہ رعونیت کے ساتھ کوہ پیماؤں کو پکارتی رہتی ہے۔1856ء میں اس پہاڑ کا پہلی بار گڈون آسٹن نے سروے کیا۔ تھامس ماؤنٹ گمری بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اس کا نام کے2 رکھا کیونکہ سلسلہ کوہ قراقرم میں یہ چوٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ کے2 پر چڑھنے کی پہلی مہم 1902ء میں ہوئی جو ناکامی پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد 1909ء، 1934ء، 1938ء، 1939ء، اور 1953ء میں ہونے والی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ 31 جولائی 1954ء کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔ لیساڈلی اور کمپانونی کے2 پر چڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ 23 سال بعد اگست 1977ء میں ایک جاپانی کوہ پیما اچیرویوشیزاوا اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ اشرف امان کے2 کو تسخیر کرنے والے پہلے پاکستانی بنے۔ 1978ء میں ایک امریکی ٹیم اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد سے بہت سے کوہ پیما قراقرم کے اس اونچے ترین مقام پر پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کے2 کو سر کرنے کے لئے جون تا اگست بہترین مہینے ہیں، باقی سال یہاں کا موسم کوہ پیمائی کے لئے انتہائی نامناسب ہے۔ اسے سر کرنے کے لئے زیادہ تر ابروزی روٹ اختیار کیا جاتا ہے جو کٹھن اور خطرناک ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر استعمال کیا جانے والا راستہ ہے۔ نذیر صابر پاکستان کا وہ سرمایہ افتخار ہیں جنہوں نے کے2 کو مغربی چڑھائی کی طرف سے سر کرکے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ 1981ء میں کی جانے والی اس کوہ پیمائی میں نذیر صابر کے ساتھ جاپانی کوہ پیما شامل تھے۔ مہربان شاہ، رجب شاہ اور حسن سدپارہ بھی کے2 کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ 2014ء میں پہلی بار پاکستانی بار برداروں اور گائیڈز پر مشتمل ٹیم نے اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ کے2 کی چوٹی پر قدم رکھ کر اسے سر کرنے کے 60 سال پورے ہونے کا جشن منایا۔ کے2 کی عکس بندی ڈرون کے ذریعے 2016ء میں پہلی دفعہ کی گئی لیکن یہ چھ ہزار میٹر تک ہی ممکن ہوسکا، اس کے بعد کے2 کے نگہبان موسم نے ڈرون کو پرواز کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

مطلقہ خبریں