استعماری طاقتیں کسی بھی وقت اچانک غزہ کی طرح ایک اور جنگ پیدا کرسکتی ہیں، جو تیسری عالم جنگ بن سکتی ہے
عطا اسلام آبادی
مغربی یورپی اقوام دو تین صدیوں سے بساطِ عالم پر چھائی ہوئی ہیں، بحری فوجی قوت نے ان لوگوں کو جلا بخشی اور وہ عرب امیرالبحر کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر، یورپ سے باہر نکلے اور دو براعظموں یعنی آسٹریلیا اور امریکا کے قدیم باشندوں کو ہلاک کرکے، ان کے مالک بن بیٹھے اور وہاں آباد ہوگئے۔ ان کی نوآبادیوں نے بڑی سرعت سے علمی و فنی ترقی کی۔ انیسویں صدی میں بلاشرکت غیرے وہ ساری دُنیا کے حکمراں ہوگئے مگر بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں نے ان کی کمر توڑ دی اور وہ پسپا ہونے پر مجبور ہوگئے تاہم یورپ، آسٹریلیا اور امریکا پر ان کی حکمرانی برقرار رہی۔ ایشیا اور افریقہ سے ان کی براہ راست حکمرانی کا سیاہ دور ختم تو ہوگیا مگر اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کرکے اور ویٹو کے اختیار کے استعمال سے وہ بلاواسطہ دُنیا پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے علمِ نفسیات اور اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال کرکے مسلمانوں کو مسلمانوں کے ذریعے ہلاک کرتے رہے ہیں۔
دو عالمی جنگوں کی تباہ کاری کے خوف کے زیراثر دُنیا تیسری عالمی جنگ سے بچتی رہی، کیوں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی بستی پر امریکا نے ایٹم بم برسا کر جو دہشت کی فضا قائم کی تھی وہ ہنوز برقرار ہے۔ ہرچند کہ دُنیا پچھلی تین چوتھائی صدی کے دوران، متعدد مواقع پر عالمی جنگ کے قریب پہنچ کر واپس ہوتی رہی ہے مگر موجودہ حالات صبر آزما ہوتے جارہے ہیں۔ 1945ء کے بعد سے آج تک دُنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ کی آگ بھڑکتی اور بجھتی رہی مگر سرد کبھی نہیں ہوئی، البتہ سرد جنگ کی صورتِ حال ہمیشہ موجود رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دُنیا دو نظریاتی حلقے میں بٹ گئی تھی۔ ایک سرمایہ داری نظریہ، جس کی قیادت امریکا کے پاس ہے اور دوسری اشتراکیت، جس کی قیادت روس کے پاس تھی۔ دونوں نظریات کے درمیان رسہ کشی جاری ہے مگر بڑی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ 1992ء میں روس کے بکھر جانے کے بعد دُنیا کے کھلے میدان میں صرف ایک کھلاڑی رہ گیا، وہ امریکا ہے۔ اشتراکیت نے مذہب کو خارج کردیا تھا مگر روس کے بکھرنے کے بعد روسی ریاستوں میں مذہب دوبارہ عود کر آیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن عیسائی ہیں اور کئی ریاستوں میں عیسائیت غالب اکثریت میں ہے، مسلم اکثریت کی ریاستوں میں دین اسلام غالب ہے۔ چین میں اشتراکیت زندہ ہے مگر وہ چینی طرز کی ہے اور اس میں مذہب کے خلاف وہ رویہ نہیں ہے جو سوویت یونین کے زمانے میں تھا۔
بیسویں صدی میں بساطِ عالم پر دو نظریات غالب تھے یعنی سرمایہ داری اور اشتراکیت۔ تاہم مسلمان مغلوبیت اور محکومیت کے باوجود اسلام کو تیسرا نظریہ سمجھتے رہے۔ دورِ حاضر کی عقلی اور علمی ترقی کے سامنے تمام مذاہب سرنگوں ہوگئے مگر دین اسلام نہایت ناتوانی کے عالم میں بھی اپنے پاؤں پر کھڑا رہا۔ اسلام کے جید علمائے کرام نے اسے دورِ حاضر کے حکیمانہ دور میں ایک قابلِ عمل نظریہ ثابت کر دکھایا، خصوصاً علامہ محمد اقبالؒ نے تواتر سے یہ نظریہ پیش کیا کہ مستقبل کا غالب نظریہ اسلام ہوگا۔ انہوں نے اپنے کلام، خطبات اور تحریروں میں بڑے واضح انداز میں یہ کہا کہ سرمایہ داری کو اشتراکیت سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اسلام سے ہے، کیونکہ سرمایہ داری سود پر انحصار کرتی ہے، جو استحصال کی بدترین صورت ہے اور اسلام اس کے سخت خلاف ہے۔
افغانستان سے اشتراکی تصادم نے ثابت کردیا کہ اسلام ناتواں ہوتے ہوئے بھی جان دار ہے۔ سرمایہ داروں نے اگرچہ افغانی مسلمانوں کی بھرپور مدد کی مگر اشتراکیت کی پسپائی کے بعد، استعماری قوتوں نے بھی محسوس کیا کہ اب اسلام توانا قوت کی صورت میں نمودار ہوگا۔ روس کے بکھرنے کے بعد امریکا واحد قوت (یونی پاور) کے طور پر بساطِ عالم پر چھا گیا۔ اس نے اپنے زخم میں آ کر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف دہشت، خوف اور اپنی برتری کا ظاہری اور خفیہ، دونوں مظاہرے کئے۔ دُنیا ان کے مظالم سے چیخ پڑی مگر اس یونی پاور کی ستم انگیز کارروائیوں کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ مغرب نواز مسلمان دانشواروں کے ذہن سے اس افیون کا نشہ اتر گیا جو مغرب نے انہیں پلا رکھا تھا۔
اسلام دشمن قوتوں نے بڑے جابرانہ انداز سے، اپنی تمام عقلی، ذہنی اور مادی قوتوں کو بروئے کار لا کر مسلمانوں کو جبر اور دہشت کے شکنجے میں جکڑنے کی پوری کوشش کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، نتائج ان کے عزائم کے خلاف برآمد ہوتے رہے۔
پاکستان پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور آج بھی یہ مملکت اس نظریے پر قائم ہے، علامہ اقبال کے کلام نے مسلمانوں کے مردہ دلوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا کیا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسپانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اس کے بعد فکرِ اقبال سے متاثر ہو کر ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی اسلام ایک نظریہئ حیات کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ترکی میں اسلام ایک غالب نظریہ ہے۔ الغرض پورا عالمِ اسلام دین اسلام کی حقانیت کی طرف بڑھ رہا ہے، البتہ اس راہ میں رکاوٹیں بے شمار ہیں، اسلام کی راہ میں مسلمان خود ایک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، پچھلی صدی میں برناڈ شاہ نے کہا تھا کہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے مگر مسلمان بدترین قوم ہیں۔ بہرحال اسلام دورِ حاضر میں ایک توانا نظریہ کے طور پر ابھر رہا ہے، آنے والا دور اسلام کا ہے
عظمتِ اسلام پھر جلوہ نما ہونے کو ہے
یہ جہاں توحید کا نغمہ سرا ہونے کو ہے
اس وقت دُنیا یک قطبی نہیں رہی بلکہ چار عالمی قوتیں منظرعام پر ہیں
امریکا (نیٹو سمیت)
روس (روسی ریاستوں سمیت)
چین (اپنے حلیف ملکوں کے ساتھ)
عالمِ اسلام (اتحاد اور قوت کی طرف بڑھ رہا ہے)
موجودہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ چین اور روس دونوں مسلمانوں کو متحد اور ایک مرکز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے حریف کو مسلمانوں کی قوت سے ٹکرا دیں، جس طرح امریکا نے مسلمانوں کی قوت سے روس کو پاش پاش کردیا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ غزہ میں جو بربریت کی جارہی ہے اور بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کو جس انداز سے ہلاک کیا جارہا ہے، اس سے نہ صرف دُنیا بلکہ عالم اسلام کے عوام میں بے حد بے چینی بڑھ رہی ہے، جو عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس جنگ میں روس اور چین (بشمول حلیف ممالک) مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے۔
یوکرین کی جنگ بھڑک کر کچھ سرد ہوگئی ہے، مغربی ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ روس نے یوکرین سے توجہ ہٹانے کے لئے غزہ میں جنگ کو ہوا دی ہے، بہرحال غزہ کی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کے لئے مغربی قوتیں بھی کوئی اور جنگ پیدا کرسکتی ہیں۔
اس وقت تائیوان اور کشمیر دو ایسے تنازعے ہیں جو کسی بھی وقت جنگ کی حالت میں آسکتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ روس اور نیٹو ممالک کے درمیان ہوتے ہوئے بھی اس خوف سے آگے نہیں بڑھ سکی کہ روس جوہری ہتھیاروں کے لحاظ سے فوقی حیثیت رکھتا ہے اور اس نے واشگاف الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ اگر اس کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو وہ جوہری اسلحہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ غزہ میں یہودیوں اور مسلمان کے درمیان ایک جنگ جاری ہے مگر اسے یہودی فلسطینی جنگ سمجھا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یکجہتی نہیں ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ مقامی جنگ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔
تائیوان اور کشمیر میں اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ کسی بھی صورت مقامی نہیں ہوگی، یہ جنگ عالمی جنگ کی صورت اختیار کر لے گی۔ استعماری طاقتیں کسی بھی وقت اچانک غزہ کی طرح ایک اور جنگ پیدا کرسکتی ہیں، جو تیسری عالم جنگ بن سکتی ہے۔
چین کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جارحانہ کارروائیوں سے گریز کرتا رہا ہے، تائیوان چین کے لئے ایک لمقمہ تر ہے مگر وہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہتے ہوئے بھی جارحانہ کارروائی کرکے اس پر بزور طاقت قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔ مخالف قوتیں اسے اشتعال ضرور دلاتی رہتی ہیں مگر چین اپنی فوجی قوتوں کا صرف مظاہرہ کرکے انہیں خاموش کر دیتا ہے۔ تاہم کشمیر کا مسئلہ نازک اور پیچیدہ ہے، سی پیک کی وجہ سے یہ مسئلہ ایک خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے اصولوں سے انحراف کرکے جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے، وہ صورتِ حال کو سنگین تر بنا سکتا ہے۔ اگر بھارت مسلمہ عالمی اصولوں کو پامال کرکے کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جس سے جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تو اس سے تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ مسئلہ صرف پاک و ہند کا نہیں، چین بھی اس کا تیسرا فریق ہے۔ اس کے علاوہ یہ عالم اسلام کا مسئلہ بھی ہے۔ اس سے یہ جنگ ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ واللہ عالم باالصواب