Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دوہزاربائیسء کا میدانِ جنگ

دُنیا بھر کے عسکری ماہرین اس سال یعنی دو سو بائیسء میں ایک میدانِ جنگ بہت زیادہ گرم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تو جنگ کی تیاریاں بالکل مکمل ہوچکی ہیں اور کسی بھی وقت توپوں کی گھن گرج، جہازوں کی پرواز اور فوجیوں کے مارچ کی صدائیں سنائی دینے لگ جائیں، یہ میدانِ جنگ دو ایسی سرحدی لکیروں کے آس پاس ہوگا جنہیں اپنے تنازعات اور مخصوص حالات کی وجہ سے عالمی باؤنڈری کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی، ان میں سے ایک کشمیر کی مشہور ایل او سی ہے جبکہ دوسری چین اور بھارت کے درمیان ایل اے سی ہے
اوریا مقبول جان

پاکستان اور بھارت دونوں طرف میدانِ سیاست گرم ہے۔ بھارت میں نریندر مودی بی جے پی کی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش میں پورے ملک کو ایک ایسے مقام پر لے آیا ہے کہ آج دُنیا بھر کے سیاسی مبصرین، بھارت میں مسلمان اقلیت کے ایک بہت بڑے قتلِ عام اور ان کی نسل کشی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ ہردوار کا میلہ جسے عرفِ عام میں ”کنبھ“ کا میلہ کہا جاتا ہے، یہ ہر 12 سال کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس میلے میں عموماً تقریباً 20 کروڑ لوگ جمع ہوتے ہیں اور تہوار کے مخصوص اور مقدس دن تو 5 کروڑ ہندوؤں کا ہجوم اکثر ہوتا ہے۔ ایسے ہجوم سے مسلمانوں کے قتلِ عام پر قسم لینا، بالکل ایسے ہی ہے جیسے حج کے موقع پر مسلمان کسی دوسری قوم کے قتل کی قسم اُٹھائیں یا ویٹکن سٹی میں پوپ کی رونمائی کے لمحے، وہاں موجود لاکھوں کیتھولک عیسائی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کریں۔ یہ ایک خوفناک منظرنامہ ہے جو ان 22 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں سے وابستہ ہوچکا ہے جو بھارت میں رہتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ایک سیاسی دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے جو عمران خان کے دھرنے کے اختتام کے بعد سے پاناما پیپر اسکینڈل کی بھول بھلیوں سے ہوتی ہوئی اب ایک ایسے مقام تک آ پہنچی ہے کہ اس ملک کا معاشی مسئلہ ہو یا سیاسی، عسکری صورتِ حال ہو یا سرحدی تنازعات، کسی معاملے میں بھی سنجیدہ گفتگو کرنا تقریباً ناممکن سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر کوئی ایک لٹھ مار ہے اور دوسرے کا نشانہ لئے بیٹھا ہے۔ طالبان کی افغانستان میں آمد اور بھارت کی وہاں سے رُخصتی نے کسی حد تک پاکستان کو سکون کا سانس تو لینے دیا تھا، لیکن ملکی معیشت کی زبوں حالی اور سیاسی عدمِ برداشت نے مل کر ایک ایسی فضا بنا دی ہے کہ ایک طویل عرصے سے ہمارے سنجیدہ لکھنے والوں نے بھی ایسے خطرات پر لکھنا تقریباً ترک کردیا ہے جو خطے میں اردگرد منڈلا رہے ہیں، لیکن پاکستان کے بالکل برعکس دُنیا بھر کے عسکری ماہرین اس سال یعنی 2022ء میں ایک میدانِ جنگ بہت زیادہ گرم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، بلکہ ان کے نزدیک تو جنگ کی تیاریاں بالکل مکمل ہوچکی ہیں اور کسی بھی وقت توپوں کی گھن گرج، جہازوں کی پرواز اور فوجیوں کے مارچ کی صدائیں سنائی دینے لگ جائیں۔ یہ میدانِ جنگ دو ایسی سرحدی لکیروں کے آس پاس ہوگا جنہیں اپنے تنازعات اور مخصوص حالات کی وجہ سے عالمی باؤنڈری کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی۔ ان میں سے ایک کشمیر کی مشہور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) ہے جبکہ دوسری چین اور بھارت کے درمیان “ایل اے سی” ہے جسے ”لائن آف ایکچول کنٹرول“ کہتے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی تو گزشتہ سو سال سے لوگوں کی نظروں میں ہے اور کسی نہ کسی عالمی اور علاقائی فورم پر اس پر گفتگو ہوتی رہتی ہے جبکہ چین اور بھارت سرحد پر منی پور ریاست اور اروناچل پردیش کے علاقوں میں جو آزادی کی تحریکیں ایک زمانے پروان چڑھی تھیں اور پھر سرد ہوگئی تھیں، لگتا ہے ان میں گزشتہ چند سالوں سے جیسے جان پڑ گئی ہو۔ ان میں سے سب سے اہم منی پور کی پیپلزلبریشن آرمی ہے، جسے عرفِ عام میں پی ایل اے (پی ایل اے) کہا جاتا ہے۔ اسے 25 ستمبر 1978ء کو بیشوار سنگھ نے قائم کیا تھا، جو اپنے خطے کی آزادی کے بعد وہاں ایک سوشلسٹ ریاست قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس تنظیم نے شروع دن سے لے کر آج تک گوریلا سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، مگر انہیں کسی قسم کی بیرونی امداد حاصل نہیں تھی، اس لئے جب بھارتی افواج نے ان کے اہم رہنماؤں کو قتل کیا اور بیشوار سنگھ کو گرفتار کیا تو پھر ان کی سرگرمیاں نرم پڑ گئیں۔ یہاں کے لوگوں میں آزادی اور خودمختاری کا جذبہ اس قدر پرانا ہے کہ ”موریہ“ اور ”گپتا“ کے قدیم ہندو بادشاہتوں کے زمانے میں بھی یہ خطہ ایک آزاد ریاست کے طور پر ہی قائم رہا۔ انگریزوں نے 1891ء میں ایک چھوٹی سی جنگ کے بعد اسے اپنی حفاظتی تحویل والا علاقہ قرار دے دیا، لیکن اس کی خودمختاری قائم رہی۔ بھارت نے 21 اکتوبر 1949ء کو اسے اپنا حصہ قرار دیا تو شدید خونی ہنگامے پھوٹ پڑے اور 1972ء میں اسے ایک آزاد ریاست کا درجہ دینا پڑا، لیکن عوام اس حیثیت پر بھی راضی نہ ہوئے اور وہاں آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑ لیا۔ منی پور کے بالکل پڑوس میں ناگالینڈ کی قوم پرست تحریک نے بھارتی افواج پر حملے شروع کئے تو دونوں ریاستوں میں بھارت نے 1958ء کے آرمڈ فورسز (اسپیشل پاور) ایکٹ کے ذریعے فوج کو وسیع اختیارات دے دیئے اور یوں یہ پورا خطہ مسلسل تخریب کاری اور حکومتی تنصیبات پر حملوں کے علاوہ فوج کے جوان کو قتل کرنے کے واقعات سے عبارت ہوگیا۔ ان دونوں ریاستوں کے شمال میں ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے، جسے اروناچل پردیش کہتے ہیں۔ گھنے جنگلوں، دریاؤں، ندی نالوں اور خوبصورت وادیوں والا یہ خطہ چین کے بارڈر پر واقعہ ہے اور اس کے ساتھ ہی ناگالینڈ کی سرحد ہے، جس کی اپنی سرحد منی پور سے جڑی ہوئی ہے اور یوں یہ ایک مسلسل خطہ بن جاتا ہے جو چین سے ملحق ہے۔ برطانوی حکومت نے 1912ء میں یہاں کے رہنے والے قبائل کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ ان کی شمالی سرحد کی حفاظت کریں گے اور برطانوی حکومت انہیں مراعات دے گی۔ جس طرح ہمارے ہاں ”شمالی مغربی سرحدی“ صوبہ بنایا گیا تھا، اسی طرح وہاں بھی ”شمالی مشرقی سرحدی“ صوبہ بنایا گیا، جس کا بھارتی حکومت نے نام بدل کر اروناچل پردیش رکھ دیا۔ اس ریاست اور چین کے درمیان 885 کلومیٹر لمبی سرحد ہے جسے سر ہنری میک موہن کے نام پر ”میک موہن لائن“ کہتے ہیں۔ جیسے ہی بھارت کو آزادی ملی تو اس وقت چیانک کائی شیک کی چینی حکومت نے مطالبہ کیا کہ اروناچل پردیش سے آسام تک کا سارے کا سارا علاقہ، چین کا ہے اور اس نے کبھی بھی میک موہن کی لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ جواہر لال نہرو اور سوشلسٹ انقلاب کے بعد کے چینی وزیراعظم چواین لائی کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی، اس میں ایک خط کے ساتھ چواین لائن نے 1929ء کےکا ایک نقشہ بھی لگایا جس میں اس علاقے کو متنازع بتایا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کے سروے آف انڈیا نے 1883ء میں جو نقشہ شائع کیا اس میں اس علاقے کو تبت کا حصہ قرار دیا۔ 26 اگست 1959ء کو چین کی افواج نے میک موہن لائن عبور کی، بھارت کی چوکیوں پر قبضہ کیا، دو سال بعد واپس چلے گئے لیکن 1962ء میں پھر آئے لیکن اس دفعہ ذرا زیادہ علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1963ء میں انہوں نے قید ہونے والے بھارتی فوجی تو چھوڑ دیئے لیکن علاقے پر قبضہ برقرار رکھا۔ جب سے چین کے خلاف بھارت، امریکا، آسٹریلیا اور جاپان کا چار ملکی اتحاد بنا ہے، منی پور کی سوشلسٹ آزادی پرست تحریک پی ایل اے میں جیسے جان پڑ گئی ہے اور انہوں نے گوریلا کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ گزشتہ ماہ انہوں نے وہاں تعینات یونٹ کے انچارج کرنل بپلاپ تری پاتھی اور اس کی بیوی کو ایک حملے میں قتل کردیا۔ اس حملے میں تین بم نصب کئے گئے تھے اور پھر تقریباً پندرہ کے قریب گوریلوں نے دھماکوں کے بعد بھی فائرنگ کی تاکہ زندہ بچنے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔
برطانوی ہندوستان کے مشرقی اور مغربی سمت کھینچی گئی دونوں لائنیں، جنہیں برطانیہ نے اپنے عروجِ اقتدار میں عالمی سرحدیں قرار دیا تھا، اس کے جانے کے بعد متنازع ترین سرحدی لکیریں بن گئیں۔ مغرب میں ”ڈیورنڈ لائن“ اور مشرق میں ”میک موہن لائن“۔ ڈیورنڈ لائن کا عالمی تحفظ اس وقت شروع ہوا، جب 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور یہ خطرہ بڑھ گیا کہ اگر یہ اس سرحد کو عبور کر گیا تو پھر گرم پانیوں تک پہنچنے کا اس کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا، لیکن 15 اگست 2021ء کو طالبان کی امریکا کو شکست کے بعد اب یہ محاذ سرد ہے اور شاید مدتوں سرد ہی رہے لیکن مشرقی لکیر جسے سر ونسٹ آرتھر ہنری میک موہن نے 25 مارچ 1914ء کو دلّی میں تبتّ کے نمائندوں کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد کھینچا تھا اور پھر اسے مشہور عام ”شملہ معاہدے“ کا بھی حصہ بنا دیا تھا، اب ایک متنازع سرحد کے طور پر ازسرِنو زندہ ہوچکی ہے۔ 22 جنوری 2022ء کو پیپلزلبریشن آرمی (پی ایل اے) نے ایک ویڈیو جاری کی ہےجس میں دکھایا گیا ہے انہوں نے اس آبشار کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے جسے ہندی میں ”چومی گیا تسر“ اور چینی میں ”ڈونگ زانگ“ کہتے ہیں۔ 14 نومبر 2021ء کو 46 آسام رائفلز کے کرنل اور اس کی بیوی کے قتل کے بعد یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ پی ایل اے جو کہ ایک نظریاتی سوشلسٹ عسکری تنظیم ہے، وہ یہ منصوبہ رکھتی ہے کہ سب سے پہلے شمالی مشرقی بھارت کی ان سات ریاستوں کو علیحدہ کیا جائے جو اس لئے آسان ہے کہ اس خطے کوبھارت سے جوڑنے کے لئے صرف ایک 22 کلومیٹر چوڑا راستہ ہی ہے جسے سلگری کاریڈور کہتے ہیں۔ یہ 170 کلومیٹر لمبا ہے اور اس کے ایک جانب چین اور دوسری جانب بنگلہ دیش ہے۔ تھوڑے سے فاصلے پر نصب توپیں اس راستے کو آسانی سے بند کرسکتی ہیں اور ان سات ریاستوں میں تعینات بھارتی فوج کی بھی وہی حالت ہوجائے گی جیسی 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی ہوئی تھی۔ جب سے پی ایل اے اس پورے خطے میں ایک بار پھر پوری قوت سے ابھری ہے، بھارت اور مغربی میڈیا یہ الزام لگا رہا ہے کہ اسے چین کی لبریشن آرمی کی مدد اور ٹریننگ حاصل ہے۔ بھارت نے ایک گوریلے ”سرگنیت رونی“ کے بیان کو بھی خوب اچھالا ہے، جس نے اپنی گرفتاری کے بعد بتایا کہ علاقے میں ہماری 16 گوریلا پلاٹون چین سے ٹریننگ لے کر آچکی ہیں۔ ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز آف یورپی فاؤنڈیشن نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ برما میں چھپے ہوئے جنگجو گوریلوں کو چین اسلحہ اور ٹریننگ فراہم کررہا ہے، جس سے بھارت کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل نے بھی ایک سلسلہ وار ترتیب (ٹرایل) بتائی ہے جس کے مطابق منی پور کی پی ایل اے نے برما میں ناگا لینڈ کی جنگجو تنظیم ”نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ“ (این ایس سی این) کے گوریلوں سے تربیت حاصل کی اور اس کے چین کی لبریشن آرمی سے گہرے عسکری تعلقات ہیں۔ بھارت میں ان تنظیموں کی کارروائیاں تو کافی عرصے سے جاری تھیں لیکن سوویت یونین کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور چین کی عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے یہ اپنی جنگ اپنے طور پر جاری رکھے ہوئے تھیں۔ انہی کی گوریلا کارروائیوں کی وجہ سے بھارت کو فوج کی ایک خاصی تعداد وہاں رکھنا پڑتی ہے اور فوج کو اسپیشل پاورز کے تحت یہاں وسیع اختیارات بھی دیئے ہوئے ہیں۔ ایک ماہ پہلے بھارتی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے 14 شہریوں کو ہلاک کیا تھا، جس پر ناگالینڈ کی اسمبلی نے قرارداد پاس کی کہ چونکہ فوج کو خصوصی اختیارات 1942ء میں انگریز نے دوسری جنگِ عظیم میں سبھاش چندر بھوس کی آزاد ہند فوج کے خلاف دیئے تھے، اس لئے انہیں ختم کیا جائے، لیکن اس کے بعد بھارت نے وہاں مزید فوج کا اضافہ کردیا۔ یہ پورے کا پورا خطہ سات آزاد خودمختار ریاستوں اور آسام کے صوبہ پر مشتمل ہے جسے بھارت میں ضم کیا گیا۔ یہ بھارت سے معاشرتی اور علاقائی طور پر بالکل علیحدہ ہے۔ منی پور، میگھالا، میزو رام، ناگالینڈ، تری پورہ، سکم، اورناچل پردیش کے ساتھ ساتھ آسام سب کے سب ایسے قبائل اور نسلوں کا مسکن ہیں جو چین، برما اور بنگال کی آبادیوں سے ملتی جلتی ہیں اور جنہیں انگریز نے اپنی دفاعی ضروریات اور سلطنت کی وسعت کے لئے ساتھ ملایا تھا۔ اسی لئے وہاں کے بیشتر دانشور اور سیاستدان بھارت سے الحاق کو ایک ناپاک اتحادکہتے ہیں۔ 2022ء اسی ناپاک اتحاد کے حوالے سے بھارت پر حملے کا سال ہے اور لاتعداد عسکری ماہرین کے مطابق اس کی منصوبہ بندی مکمل ہوچکی ہے۔ گزشتہ دنوں بی بی سی نے دس منٹ لمبی ایک ڈاکومنٹری نشر کی، جس میں بھارت اور چین کی آخری سرحدوں کا سفر دکھایا گیا اور بھارت کی بڑی چھاؤنی ہولیانگ بھی گئے، جہاں 1962ء کی بھارت چین جنگ میں ہزاروں مارے جانے والے فوجیوں کے کتبے بھی لگے ہیں۔ کاؤ گاؤں جو چین بھارت سرحد پر ہے وہاں اس وقت دونوں ملکوں کی افواج ایسے مستعد کھڑی ہیں جیسے جنگ ہونے والی ہے۔ پروان سواہنی جو بھارتی عسکری جرنل فورس (فورس) کا ایڈیٹر ہے، اس نے جنوری کے آغاز میں اپنے مضامین اور ویڈیوز کے ذریعے، ایسی منصوبہ بندی کی بات کی ہے، جس کے تحت 2022ء میں بھارت چین کے درمیان پراکسی یا اصل جنگ ہوسکتی ہے۔ اس کے نزدیک اس سال چین کی ایل اے سی اور پاکستان کی ایل او سی دونوں پر معرکوں کی تیاری مکمل ہے۔ اس کے نزدیک 1947ء سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارت کے مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر خطرناک حد تک جنگ زدہ ہوں۔ اس کا آغاز اپریل 2021ء میں ہوا تھا جب چین کی افواج نے بھارت کے ایک ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ چینی فوجیوں نے ایک بھی گولی فائر نہ کی اور پتھروں اور لاٹھیوں وغیرہ کے استعمال سے 20 بھارت فوجیوں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد ستمبر 2020ء کو ماسکو میں چین اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت بھارت نے ایک ہزار مربع کلومیٹر کا چینی قبضہ عملاً تسلیم کرلیا اور بارڈر کو متنازع بھی مان لیا، ساتھ تبت ہی کو بھی ایسا آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا جس پر صرف چین کا اختیار ہوگا۔ یہ وہی علاقہ ہے کہ جہاں گوریلا جنگجوؤں کو ٹریننگ دی جاتی ہے، لیکن یکم جنوری 2020ء کو چین نے ”باؤنڈری لاء“ کے نام سے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت ”ایل اے سی“ اب ایک متنازع سرحد نہیں ہے بلکہ یہ چین کے اقتدارِ اعلیٰ کی علامت ہے۔ اس قانون کے بعد چین نے اس سرحد پر ایسی مشین گنیں نصب کردی ہیں جو روبوٹ سے چلتی ہیں اور ایسے ٹینک کھڑے کر دیئے جو کمپیوٹر کنٹرول سے چلتے ہیں۔ یعنی چند لوگ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر حملہ آور ہوں گے۔ دوسری جانب کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے بارے میں عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت نے سب سے بڑی غلطی 5 اگست 2019ء کو اس وقت کی جب اس نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا اور یوں اب اگر چین اور پاکستان سے بھارت کی جنگ چھڑتی ہے تو پھر چین کشمیر کو بھی بھارت سمجھتے ہوئے حملہ کرسکتا ہے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا چین اور پاکستان کو 2011ء سے انتظار تھا، جب کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحد پر پہلی دفعہ ایک لاکھ چینی فوجی تعینات ہوئے تھے۔ اب کشمیر میں بھارت کے خلاف جو بھی آپریشن ہوگا وہ چین اور پاکستان کا مشترکہ ہوگا، کیونکہ دونوں کی جنگ مشترک ہوچکی ہے۔ پرون سواہنی نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ چین میں پاکستانی سفارتحانے میں 12 پاکستانی فوجی اسلحہ کی خرید کے نام پر تعینات ہوئے ہیں۔ یہ دراصل ایک مشترکہ ہیڈ کوارٹر بنانے کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ سواہنی کے مطابق پاکستان کے یہ افسران چین کے جوائنٹ آپریشن ہیڈکوارٹر میں بیٹھتے ہیں۔ پاکستان کی ایئرفورس کے تحت “کوگنیٹو الیکٹرونک” جنگ کا مرکز قائم کیا گیا ہے اور وہ جے-20 روبوٹ جہاز حاصل کررہی ہے جو اس وقت سب سے جدید ہیں۔ یہ فیصلہ بالاکوٹ میں پاکستانی ایئرفورس کی کارکردگی کے بعد کیا گیا اور چین نے اسے اپنے سیٹلائٹ ”بیڈو“ تک کا اختیار دے دیا ہے۔ یعنی اب جب بھی جنگ شروع ہوگی مشترکہ ہی ہوگی۔ اگر اروناچل پردیش میں جنگ ہوئی تو لداخ اور کشمیر کا محاذ بھی گرم اور اگر کشمیر میں شروع ہوئی تو اروناچل پردیش محاذ بھی گرم ہوجائے گا اور ماہرین کہتے ہیں ایسا 2022ء میں ممکن ہے۔

مطلقہ خبریں