پاکستان کا بہترین مفاد اس میں ہے کہ اس منصوبے میں شمولیت کے خواہشمند ہر ملک کو سرمایہ کاری کی پیشکش کرے
کشور منیر
پاک چین اقتصادی راہداری 65 ارب ڈالر لاگت کا ایک ایسا منصوبہ ہے جوکہ معاشی اور اسٹرٹیجک ماحول پیدا کرکے جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور افریقہ کو باہم مربوط کرسکتا ہے۔ اس راہداری سے خطے میں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی کے علاوہ علاقائی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ معاشی راہداری کے ماڈل کا ماخذ ٹرانسپورٹ راہداری ہے، یعنی زمینی راستوں کے ذریعے مختلف معاشی مراکز کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانا۔ یہ ٹرانسپورٹ راہداریاں مختلف خطوں کی معیشتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرسکتی ہیں، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ توانائی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری لا کر انہیں معاشی راہداری کے طور پر ترقی دی جائے۔
چینی صدر کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کا مرکزی حصہ ہونے کی وجہ سے سی پیک جنوبی مشرقی ایشیا کے ساحلی راستے کو یوروایشیا کے زمین راستہ سے جوڑتا ہے، جوکہ جنوبی ایشیا کے اہم ترین جیو اسٹرٹیجک محل وقوع سے گزرتا ہے۔ سی پیک خطے کے لاکھوں افراد کے لئے نئے مواقع کا راستہ بھی ہے کہ اس سے تجارتی روابط میں اضافے کے علاوہ لوگوں کے مابین سماجی ثقافتی اور سماجی معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ چین اور پاکستان کے مابین دوطرفہ منصوبہ ہے، مگر دیگر ریاستیں بھی اس کا حصہ بن سکتی ہیں۔ دیگر ریاستوں کی اس منصوبے میں شمولیت علاقائی اور عالمی خدشات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کو چاہئے کہ یہ راہداری خطے کو جوڑنے کے لئے استعمال کرے، تاکہ تمام علاقائی ممالک اس سے مستفید ہوسکیں۔ اگر پاکستان اپنے علاقائی محل وقوع کا بھرپور فائدہ اٹھائے تو اس سے سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے کا خواہاں ہر ملک مستفید ہوگا۔
ایران، افغانستان اور بھارت کا اس منصوبے سے مستفید ہونا ایک قدرتی امر ہے جبکہ سعودی عرب، ترکی، وسط ایشیائی ریاستیں اور روس بھی اس منصوبے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سی پیک کو مکمل طور پر فعال اور آپریشنل بنانے کے لئے پاکستان کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جوکہ چین اور سعودی عرب کی جانب سے کئے جانے کا امکان ہے کیونکہ دونوں سے پاکستان کے قریبی اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ پاکستان کا بہترین مفاد اس میں ہے کہ اس منصوبے میں شمولیت کے خواہشمند ہر ملک کو سرمایہ کاری کی پیشکش کرے۔ ریاستیں جوکہ سی پیک کا حصہ بن سکتی ہیں، ان میں افغانستان، ایران، سنگاپور اور جاپان شامل ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ریاض کو سی پیک میں شمولیت کی باضابطہ پیشکش کی تھی۔ یہ وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا جس میں انہوں نے دوطرفہ انفرااسٹرکچر اور صنعتی شعبوں میں دوست ملک کو سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ عمران خان کے اس دورے کے کئی دیگر پہلو بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ انہی دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چین کے دورے پر تھے۔ اقتصادی بحران میں الجھا پاکستان غیرملکی سرمایہ کاری کی تلاش میں ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اس حد تک اضافہ ہو کہ اسے آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنا پڑے۔ ماضی میں سعودی عرب کئی مرتبہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکال چکا ہے۔ 2014ء میں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کے بعد پاکستانی روپے کو مستحکم کرنے کے لئے سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب قرض دیئے تھے۔
سعودی عرب کے سی پیک میں شامل ہونے سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی صورت میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ متوقع ہے۔ اس ایف ڈی آئی کے علاوہ پاکستان ادھار تیل بھی حاصل کرسکتا ہے جس سے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ سعودی عرب اسپیشل اکنامک زونز میں بھی سرمایہ کاری کرسکتا ہے جس سے مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ ڈیوٹی فری اسٹرکچر سے سرمایہ کار مستفید ہوں گے۔ سعودی عرب سے پاکستان مختصر مدت کی سرمایہ کاری بھی حاصل کرسکتا ہے۔ سعودی عرب، چین اور عالمی ڈیولپمنٹ بینکوں سے دوطرفہ اور کثیر جہتی مالی تعاون حاصل کرکے پاکستان اپنے انفرااسٹرکچر کو بہتر اور خطے کو مزید باہم جوڑ سکتا ہے۔
سی پیک کے فعال ہونے سے دیگر ملکوں کے لئے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ ایران کو امریکہ کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے، جس کے باعث وہ مجبور ہو کر گیس اور تیل کے نئے روٹس کے لئے چین کے دائرہ اثر میں جاسکتا ہے۔ ترکی خطے میں دوسری اہم معاشی اکائی ہے، جوکہ یورپ و ایشیا کے مرکز اور ایران و شام کا ہمسایہ ہے۔ زمینی رابطے ایران، پاکستان اور ترکی کے مابین تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں، ایران پاکستان اور ترکی کے درمیان ایک قدرتی راہداری ہے۔ سی پیک تینوں ملکوں کے مابین سماجی و معاشی ترقی کو مستحکم بنانے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے، ماضی میں علاقائی تعاون کا معاہدہ نتائج دینے میں ناکام رہا، جس پر 1964ء میں دستخط ہوئے۔ اس حوالے سے چند رکاوٹوں سے ایک شام میں ترکی اور ایران کے مفادات کا ایک دوسرے کی ضد ہونا ہے۔
گوادر میں سعودی سرمایہ کاری سے اس کی ایرانی بندرگاہ چابہار کے مقابلے میں اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ ایسا کرنے سے سعودی عرب کی بحرہند میں رسائی بڑھے گی، بحیرہ عرب وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنے میں اس کے لئے معاون ثابت ہوگا۔ سعودی عرب وسط ایشیا میں مفادات کی وجہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی خواہش کرسکتا ہے۔ سی پیک میں سعودی شمولیت کے مضمرات پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اوّل، سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی پیشکش مشرق وسطیٰ میں پاکستان کی غیرجانبداری اور ایران سے تعلقات کی نوعیت پر سوالات اٹھا سکتی ہے۔ گوادر اور انفرااسٹرکچر کے مختلف شعبوں میں ریاض اور متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری پاکستان میں ان کے مفادات بڑھا دے گی۔ دوم، ایران سی پیک میں شامل یا بلوچستان کے گیس سیکٹر میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو پاکستان میں اس کے بھی مفادات بڑھ جائیں گے۔ سعودی عرب اور ایران کی سی پیک میں شمولیت سے دونوں ملکوں کے مفادات ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں گے، جس سے پاکستان کو موقع ملے گا کہ مشرق وسطیٰ کے دونوں حریفوں کے مابین ثالثی کراسکے۔
پاکستان کی سعودی عرب کو یقین دہانی کہ ضرورت پڑنے پر ریاض کو سیکورٹی اور اسٹرٹیجک سپورٹ فراہم کرے گا، کے کئی ردعمل سامنے آ سکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف آل سعود کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود یمن میں پاک فوج تعینات کرنے کے سعودی عرب کے مطالبہ کی مزاحمت کرتے رہے۔ نئی حکومت گوادر میں سرمایہ کاری اور دیگر ترغیبات کی صورت میں سعودی مطالبہ مان سکتی ہے۔ عمران خان بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ مشکل وقت میں پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دے گا اور کسی کو سعودیہ پر حملہ نہیں کرنے دے گا۔ تاہم دوسری جانب عمران خان مسلم دنیا کے تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت پر زور دے چکے ہیں۔ سعودی گزٹ کو انٹرویو میں حوثی باغیوں کے سعودیہ حملوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کھل کر اپنے موقف کی وضاحت کی۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر تنازعات پر اسلام آباد کی پالیسی کا امتحان ثابت ہوگی۔
پاکستان ایران کے راستے ترکی تک برصغیر کے ساتھ تجارت کی قدیم ترین زمینی گزرگاہ ہے۔ روڈ بیلٹ پروگرام کے اہم منصوبہ سے بھارت بھی مستفید ہوسکتا ہے، اس پروجیکٹ کی تکمیل سے کھلنے والے نئے راستوں کے ذریعے ترکی، ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک بھارت کو رسائی مل سکتی ہے۔ پاکستان سے مخاصمت کے باعث شاید بھارت مکمل طور پر منصوبے کے معاشی ثمرات سے مستفید نہ ہوسکے۔ دونوں ریاستوں کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے، جن میں کروڑوں غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دونوں ریاستوں کو ڈائیلاگ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بھارت تک سی پیک کو توسیع دینے کے لئے پنجاب اور سندھ میں نئی رابطہ سڑکیں تعمیر کرنا ہوں گی، اس سے باہمی شک و شبہات دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کو سی پیک کا حصہ بنا کر بھارت اپنی توانائی کی ضرورت بھی پوری کرسکتا ہے۔
افغانستان چین اور پاکستان دونوں کے لئے انتہائی جغرافیائی اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے، وسط ایشیائی ریاستوں تک براہ راست، وہاں سے روس تک رسائی کے لئے افغانستان اہم ملک ہے تاہم سی پیک سے پیدا ہونے والے معاشی مواقع افغانستان کے امن و استحکام سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ غیرمستحکم افغانستان سے پاکستان کے علاوہ ایران، روس اور چین بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اسلام آباد اور کابل کے حکام نے حالیہ ملاقات میں سرحد پار دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا۔ سی پیک ایک دوطرفہ پروجیکٹ ہے جس میں کسی بھی تیسرے ملک کی شمولیت کے لئے دونوں میں اتفاق رائے ضروری ہے۔ سی پیک میں سعودی شمولیت سے مواقع کے علاوہ کچھ خدشات بھی جڑے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں چین کے لئے نئے راستے کھلیں گے اور گرینڈ اسٹرٹیجک پلان کے مطابق توانائی کے حصول کے نئے ذرائع تک اس کی رسائی بہتر ہوجائے گی۔
پاکستان اگر سی پیک سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اسٹیٹس کو سے باہر نکلنا ہوگا تاکہ خطے کے تمام فریقین کو سی پیک میں شامل کرکے اس پروجیکٹ سے بہتر انداز میں مستفید ہوسکے۔ (بشکریہ پاکستان پولیٹکو)