Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دانشوروں نے پاکستان کو این ایس جی کی ممبر شپ کا حقدار قرار دیدیا

پاکستان کو این ایس جی میں شامل کرنا چاہئے، نجم الدین شیخ
ایسے ممالک این ایس جی کے رکن ہیں جنہیں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا علم نہیں ہے، وقار مرتضیٰ بٹ
نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمال میں پاکستان دیگر ملکوں سے بہت بہتر ہے، ڈاکٹر طلعت اے وزارت
نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونا پاکستان کا حق ہے، نصرت مرزا
بھارت کی این ایس جی میں شمولیت پر حمایت اور پاکستان کی مخالفت عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار ظاہر کرتا ہے، ڈاکٹر تنویر اے خالد
این ایس جی میں شمولیت این پی ٹی پر دستخط سے مشروط ہے، اگر پاکستان نے دستخط نہیں کئے تو بھارت نے بھی نہیں کئے، ڈاکٹر شائستہ تبسم

کراچی۔۔۔۔ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے۔رابطہ فورم انٹرنیشنل کے سیمینار میں سابق سفیر، پروفیسرز اور سائنسدانوں کا اظہار خیال۔ این ایس جی تنظیم بھارت کے ایٹمی دھماکے کے خلاف بنی تھی، ہدف پاکستان کو بنایا گیا، نجم الدین شیخ نے کہا کہ اس تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں نئی معلومات اور تحقیقات کو دیگر ممالک سے شیئر کیا جائے۔ این ایس جی میں شمولیت کے لئے این پی ٹی  پر دستخط لازمی ہے، اگر پاکستان نے دستخط نہیں کئے تو بھارت نے بھی نہیں کئے پھر اس کی حمایت کیوں کی جارہی ہے، ہم پُرامن ایٹمی ملک ہیں ہمارے ماہرین آئی اےای اے کے معیار کے مطابق اپنے پاور پلانٹس کو چلا رہے ہیں، اس کی حفاظت کا کام بھی فول پروف ہے اس لئے ہمیں این ایس جی میں شامل کرنا چاہئے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق ممبر وقار مرتضیٰ بٹ نے کہا کہ 1945ء سے دنیا ایٹمی ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہوئی، امریکہ اور روس ابتدائی ممالک تھے، این ایس جی کی تنظیم میں 45 ممالک شامل ہیں، کچھ بڑے ممالک ہیں جو جدید ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس رکھتے ہیں لیکن کچھ ممالک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، اس کے باوجود وہ اس کے ممبر ہیں جبکہ پاکستان این ایس جی میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، ہمارے ماہرین انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اصولوں کے مطابق اپنے نیوکلیئر پاور پلانٹس کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، ترقی پذیر ملکوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، اس میں بھی دوہرا معیار ہے، بھارت سے عالمی طاقتیں سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرتی ہیں اسے این ایس جی میں شامل کرنا چاہتی ہیں جبکہ پاکستان کی مخالفت کی جاتی ہے حالانکہ ہمارے نیوکلیئر سائنسدان کسی ترقی یافتہ ملک کے ماہرین سے کم قابلیت نہیں رکھتے ہم گزشتہ 45 سال سے کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر پاور پلانٹ چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر تنویر خالد نے اپنے مقالے میں کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے ہم بین الاقوامی ادارے کے اصولوں کے مطابق ایٹمی پاور پلانٹس چلا رہے ہیں۔ کینپ اور چشمہ پاور پلانٹس کا معائنہ غیرملکی ماہرین نے کیا اور ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین کے کام سے متاثر ہوئے، این ایس جی میں شمولیت ہمارا حق ہے جسے زیادہ دیر تک دبایا نہیں جاسکتا۔ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ این ایس جی میں شمولیت این پی ٹی پر دستخط سے مشروط ہے لیکن اسرائیل نے اس پر دستخط نہیں کئے، بھارت بھی نہیں کررہا لیکن بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی حمایت کی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، ہمارے ماہرین نیوکلیئر پاور پلانٹس کو گزشتہ 45 سال سے کامیابی سے چلا رہے ہیں، این ایس جی کے ممبر ملکوں کو پاکستان کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے رکن بنانا چاہئے۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا نے کہا کہ پاکستان این ایس جی میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، آئی اےای اے کے ماہرین ہمارے سائنسدانوں کی مہارت و قابلیت کا اعتراف کر چکے ہیں، ہمارا سیکورٹی سسٹم اتنا فول پروف ہے کہ اس کی مثال دی جاتی ہے، اس کے باوجود ہمیں این ایس جی میں شامل نہ کرنا ناانصافی ہے۔ نصرت مرزا نے سیمینار کے شرکا اور طلبا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد یہ تھا کہ اپنے طلبا کو این ایس جی کی افادیت سے آگاہ کیا جائے اور اس میں پاکستان کی شمولیت پر حائل رکاوٹوں کے بارے میں بتایا جائے۔
سیکریٹری اطلاعات رابطہ فورم انٹرنیشنل

مطلقہ خبریں