Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

داعش نئی افغان حکومت کیلئے بڑا خطرہ؟

داعش کی تنظیم متحد ہے، وہ طالبان سے تعداد میں کم ہیں مگر زیادہ منظم، زیادہ تجربہ کار ہیں، ان میں انجینئرز، ڈاکٹرز اور بعض مختلف تجربے کرنے والے لوگ شامل ہیں، یورپی ممالک، جنوبی ایشیا، عرب، افریقی ممالک جہاں مرد اور کسی حد تک خواتین بھی شامل ہیں، یورپی لوگ مہم جوئی کے شوق میں داعش میں شامل ہیں
ظفر محی الدین
حال ہی میں نیویارک ٹائمز سمیت دیگر اخبارات نے یہ خبر بریک کی ہے کہ داعش، افغانستان کی نئی حکومت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ میڈیا کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں داعش نے افغانستان کے تین اہم شہروں پر بڑے حملے کئے۔ کابل ایئرپورٹ پر اگست کے آخری ہفتے میں داعش نے نہایت خوفناک حملہ کیا تھا، اس میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس حملے کے بعد امریکا نے بڑا ڈرون حملہ کیا اور امریکی لڑاکا طیاروں نے بھی حملہ کیا، مگر اس سے داعش کو کوئی نقصان نہیں ہوا، البتہ بے گناہ شہری ہلاک ہوئے تھے۔ مغربی میڈیا اور خفیہ اداروں کی خبریں اور جائزوں کے مطابق داعش جدید انداز کے طریقہ کار اپناتے ہیں، اس کے حملے نپے تلے ہوتے ہیں، داعش اپنے حملے میں دشمن کو زبردست نقصان پہنچاتا اور اپنا مقصد پورا کرلیتا ہے۔ اس کا کوئی حملہ ناکام نہیں ہوا، مگر افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا دعویٰ ہے کہ داعش افغانستان میں طالبان یا ان کی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے، ماضی میں داعش کو بہت نقصان پہنچایا ہے، افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان محض اسٹریو ٹائپ ہے جبکہ داعش افغانستان میں متواتر حملے کرتی رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ داعش اور القاعدہ کے رابطے ہیں اور دونوں دہشت گرد تنظیمیں طالبان پر حملے کرکے نئی حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی خبریں عام ہیں۔ دونوں دہشت گرد تنظیموں کا مقصد دہشت گردی پھیلانا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ القاعدہ اور داعش کے خفیہ رابطے ہیں اور اشتراک عمل کے سلسلے میں درپردہ بات چیت جاری ہے مگر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں تنظیموں کے الٹی سیٹ گولز مختلف ہیں اور دونوں ہی بالادستی چاہتی ہیں۔ اس میں القاعدہ کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں داعش کو مقابلے میں بہت زیادہ واقف ہے، تاہم اقتدار کے حصول کے لئے تاریخ گواہ ہے کہ انقلابی جماعتوں تنظیموں اور دھڑوں نے اپنے موقف، اپنے اصولوں اور اپنی تحریک سے منہ موڑ کر سودے کئے ہیں۔
دہشت گرد تنظیموں میں لچک نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، یہی ان کی کمزوری ہے۔ افغانستان میں طالبان، القاعدہ اور داعش، دست وگریباں ہوجاتے ہیں جیسا کہ نظر آرہا ہے۔ یہ طے ہے کہ ان تینوں کو بہت نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔ یوں بھی افغانستان کی صورتِ حال بہت مخدوش ہے، بعض ذرائع یہاں تک کہتے ہیں کہ افغانستان بہت بڑے انسانی المیہ کے دہانے پر کھڑا ہے، کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے طالبان عالمی برادری سے مدد بھی مانگ رہے ہیں اور دھمکی آمیز اشارے بھی دے رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان کہ ”طالبان داعش کا بھی مقابلہ کرسکتے ہیں، داعش کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے“۔ اس بیان میں جوش ہے، وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی قریب میں ہم نے داعش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کو حاوی نہیں ہونے دیا مگر بہت سے مبصرین کہتے ہیں کہ ہرچند کہ طالبان 70 ہزار سے زائد ہیں مگر یہ آٹھ دس مختلف گروہوں کا اتحاد ہے جو خودمختار ہے۔ طالبان کی یہی بڑی کمزوری ہے جبکہ داعش کی تنظیم متحد ہے وہ طالبان سے تعداد میں کم ہیں مگر زیادہ منظم، زیادہ تجربہ کار ہیں، ان میں انجینئرز، ڈاکٹرز اور بعض مختلف تجربے کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ یورپی ممالک، جنوبی ایشیا، عرب، افریقی ممالک جہاں مرد اور کسی حد تک خواتین بھی شامل ہیں۔ یورپی لوگ مہم جوئی کے شوق میں داعش میں شامل ہیں۔
داعش کا جنم عراق کی جنگ سے شروع ہوا، جب امریکا کی بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے میں قید افراد سے ہوئی جو امریکیوں کے شدید تشدد اور بربریت کے جواب میں ان سے انتقام لینے کے لئے جیل کے قیدیوں کے گروہ نے داعش کی بنیاد رکھی۔ ان کا منشور ہے کہ یہ بحیرہ روم کے ساحل پر اسلامی ریاستوں کی بنیاد رکھیں گے، جس کا سربراہ خلیفہ ہوگا، جہاں شرعی نظام نافذ ہوگا، پھر یہ اسلامی انقلاب کے فروغ کی جدوجہد کریں گے اور اسلام کی روشنی پھیلائیں گے وغیرہ۔
داعش نے عراق اور شام میں دہشت گرد کارروائیوں کو فروغ دیا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، داعش کی کارروائیوں کی وجہ سے امریکا اور روس کو مشرق وسطیٰ میں اپنی اپنی عسکری قوت جمع کرنے، فوجی اڈے بنانے اور خطے میں اپنی اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا موقع میسر آیا۔ ایسے میں ایران نے بھی اس خطے میں حزب اللہ کو مزید منظم اور مسلح کیا اور اس تنظیم نے بھی دہشت گرد وارداتوں کوخوب فروغ دیا۔ اب لبنان ان کے نشانے پر ہے، طالبان نے کابل میں اپنی حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ بار بار یہ کہا کہ ہم خواتین کو شرعی حقوق دیں گے، تمام فیصلے شرعی ہوں گے، ان کے ساتھ جبر زیادتی ہرگز نہیں ہوگی۔ طالبان کی ان یقین دہانیوں کی گونج ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہائی اسکول کالج کی طالبات پر پابندیاں عائد کردی گئیں، خواتین کو تنہا گھر سے نکلنے پر کوڑوں کی سزائیں دیں، حالانکہ وہ مکمل برقعے میں تھیں، مگر خواتین کا تنہا گھر سے نکلنا جرم قرار دیا گیا، اس طرح تشدد آمیز سزائیں جاری کردی گئیں۔ طالبان کی اس دو رُخی پر مغربی میڈیا نے سخت نکتہ چینی کی اور مغرب نے طالبان کی امداد روک دی۔ بعض مغربی حلقے کہتے ہیں ہم افغان عوام کی ہر طرح مدد کرنے اور امداد دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں مگر طالبان کو نہیں دیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض ممالک کے مخیر ادارے اور شخصیات نے امداد دی تھی مگر وہ عوام تک نہیں پہنچی، کیونکہ بدعنوانی، کرپشن گلے گلے تک ہے۔ اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ افغان مجاہدین کے تذکرے سنتے تھے مگر یہ طالبان کون ہیں؟ درحقیقت طالبان شمالی علاقہ جات کے مدرسوں میں زیرتعلیم طلبہ ہیں جو افغانستان میں روسی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان کارزار میں کود پڑے، ان کے ساتھ عرب ممالک کے نوجوان بھی افغان جہاد میں شریک تھے، یہاں طالبان کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اس جہاد میں طالبان جہادیوں کے علاوہ عرب، ترک، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے نوجوان بھی شریک تھے جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے بھی بہت سے نوجوان آکر جہاد میں شریک ہوئے تھے۔
افغانستان میں ایک انتہاہی خطرناک مسئلے نے سر اٹھا لیا ہے، یہ مسلک کا مسئلہ ہے، افغانستان میں شیعہ مسلک کی آبادی کم ہے مگر طالبان کا کہنا ہے کہ ان کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بھی خوف وہراس اور خون خرابے کا زبردست خدشہ ہے، چونکہ افغانستان میں سنی مسلک کے پختون افراد اکثریت میں ہیں، قندھار اور جنوب مغربی تمام علاقے سنی مسلک کے باشندوں کا ہے جو پشتو بولتے ہیں۔ طالبان کی نئی حکومت میں صرف ایک تاجک شامل ہے باقی پختون سنی ہیں۔ ان کی تعداد قطعی اکثریت میں ہے۔ طالبان رہنماؤں کا انتظامی ڈھانچہ کچھ یوں ہے: امیرالمومینن مولوی حبیب اللہ اخوانزادہ، سینئر جج مولوی عبدالحکیم، ڈپٹی سراج الدین حقانی، ڈپٹی ملا محمد یقعوب اور سیاسی ڈپٹی ملا عبدالغنی برادر ہیں۔

یہ انتظامی ڈھانچہ بااختیار اور فعال ہے، اس میں دیگر اراکین شامل ہیں، یہ انتظامی ڈھانچہ شریعت کے مطابق کاروبار حکومت چلا رہا ہے۔ اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان میں خوراک کی کمی کا ہے جبکہ 65 فیصد آبادی فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق غریب افغان اپنی بیٹیوں کو بہت کم داموں پر فروخت کررہے ہیں۔ اس افسوس ناک صورتِ حال کا مغربی میڈیا میں بھی چرچا ہے، تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔ بعض باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جاری صورتِ حال اس قدر افسوس ناک اور خوفناک ہے کہ دوسروں کو بتلاتے ہوئے ہم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان کی طرف سے اپیلیں بھی آرہی ہیں اور ساتھ ہی دھمکی آمیز بیانات بھی آرہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوا تو دنیا اس کی ذمہ دار ہوگی، طالبان پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ کہا جارہا ہے کہ دنیا ہمیں نائن الیون جیسے واقعات دہرانے پر مجبور نہ کرے، مغربی رہنماؤں نے جیسے کان بند کر لئے ہیں اور اپنے ہونٹ سی لئے ہیں، دنیا واقعی پریشان ہے کہ کیا ہوگا۔ افغانستان میں داعش اپنے ٹھکانے بنانے اور وہاں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے چھ آٹھ سال سے کوششیں کررہی ہے۔ وہ افغانستان کو اپنا محفوظ ٹھکانہ بنانا چاہتی ہے، سال 2015ء میں داعش نے افغانستان کے شہر جلال آباد کے عین بیچ شہر میں بہت بڑا بم دھماکہ کیا تھا، جس نے سب کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ یہ دھماکہ اس وقت کیا گیا جب افغان آرمی کے چیف ایبٹ آباد میں پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کررہے تھے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ دھماکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش تھی، کیونکہ وہ ان دونوں ممالک کے رابطوں کو اپنی کارروائیوں کے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ داعش کی بنیاد کس نے رکھی یا داعش ازخود وجود میں آئی اس سوال پر ہر جانب سے تبصرے سامنے آئے، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ امریکا نے القاعدہ کا توڑ کرنے کے لئے داعش قائم کی۔ بعض کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اس تنظیم کا خالق ہے، کچھ تجزیہ کاروں نے لکھا کہ یہ دہشت گرد تنظیم یہودی نسل پرستوں کی قائم کردہ ہے، مگر امریکا کے معروف دانشور نوم چومسکی نے کہا کہ یہ تنظیم امریکا نے نہیں بنائی بلکہ عراق میں امریکی فوجی اور سی آئی اے جو اندھادھند کارروائیاں کررہی تھی اس کے انتقام میں وجود میں آئی۔ یہ بالکل درست ہے ابوغریب جیل جو عراق کی سب سے بدنام جیل رہی ہے، وہاں قید جنگجو جو امریکی افواج کے ہاتھوں شدید زک اٹھا کر آئے تھے بدلے کی آگ میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ نوم چومسکی کا کہنا بالکل درست ہے۔ ابوغریب جیل اور گوانتاموبے جیل کے قیدیوں کی سب سے خطرناک اور زیرک دہشت گرد تنظیم ہے، جو سفاکیت اور بربریت میں یکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کو سب سے پہلے ویتنام کی جنگ میں اس نوعیت کی تنظیموں سے لڑنے کا موقع ملا تھا، ویت نام کی جنگ میں ویت نام گوریلوں کے ہمراہ بعض شدت پسند دھڑے بھی اس میں شریک تھے اور امریکا کو بہت ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ پھر مشرقی وسطیٰ میں ایسی تنظیموں سے امریکا نبردآزما رہا۔ میکسیکو نکارا گوا اور جنوبی امریکا کے بعض ممالک میں امریکا کو شدت پسند تنظیموں اور گروہوں سے لڑنے کا موقع ملا، اس طرح پھر بیس برس قبل القاعدہ سے سامنا ہوگیا اور اب داعش میدان میں آ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک جتنی دہشت گرد تنظیمیں میدان میں آئی تھیں ان میں داعش سب سے زیادہ خطرناک تنظیم ہے۔ عراق میں داعش نے عراقی تیل کے مرکز موصل میں قبضہ کر کے وہاں سے لاکھوں ڈالر کا تیل اطراف کے ممالک کو کم داموں میں فروخت کر کے کمائے۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان اس کا ذریعہ آمدن ہے۔ داعش کے خیال میں افغانستان اس کے لئے محفوظ جنت سے کم نہیں ہے، کیونکہ وہاں کے عوام دبے ہوئے اور بے آسرا ہیں۔ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہے، پھر افغانستان کا جغرافیائی محل و قوع اطراف کے پہاڑی سلسلے، محفوظ درے یہ سب داعش کے لئے مددگار ہوسکتے ہیں، اس لئے یہ تنظیم ایک عرصے سے اس ملک پر نظریں رکھے ہوئے ہے۔ اب وہ زیادہ شدت سے حملے کر رہی ہے، ہرچند کہ طالبان کے ترجمان داعش کے خطرے کو کم اہمیت دے رہے ہیں اور تیار ہیں کہ وہ اس تنظیم سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں اور یہ کابل حکومت کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ ان کے سیاسی بیانات ہیں اور ہر حکومت ایسے موقعوں پر ایسے ہی بیانات دیتی ہے مگر درپردہ حقائق کی بُو سونگھنے والے عناصر کچھ اور کہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ داعش تر نوالہ ہرگز نہیں ہے۔ بعض مبصرین یہ کہتے ہیں کہ افغانستان سمیت جنوبی اور وسطی ایشیائی علاقے داعش کے مقاصد کے لئے بہت سودمند ہیں۔ زمینی حقائق سے یہ دہشت گرد تنظیم پورے فائدے حاصل کرنا چاہتی ہے اس لئے اب رفتہ رفتہ وہ اس جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جب عراق کے ایک کیمپ سے جو سب جیل تھی جہاں سے کچھ قیدی فرار ہوگئے تھے، ان میں ایک ابوبکر بغدادی بھی شامل تھا، جو تعلیم یافتہ جدید دنیا کے تقاضوں سے واقف تھا، اس نے تنظیم دولت اسلامیہ عراق اور شام رکھا جس کو بعدازاں داعش کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ابوبکر بغدادی کی وجہ سے چھوٹے گروہ اس نئی تنظیم سے آ ملے اور یہ تنظیم مستحکم ہوگئی۔ سات برس بعد اب داعش کا رُخ جنوبی وسطی ایشیا کی طرف ہے جس میں افغانستان سب سے زرخیز ملک ثابت ہوا اور اس کے حالات داعش کو بہت موافق تھے، اس لئے یہ تنظیم افغانستان کو اپنا پہلا ہدف تصور کرتی ہے۔ داعش کا اندازہ ہے کہ اگر افغانستان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر وسطی ایشیائی ریاستیں اس کے لئے ترنوالہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً تاجکستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان وغیرہ۔ اس حوالے سے روس نے اس خطے میں اپنی تین لاکھ فوج پہلے ہی سے تعینات کردی ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور جنوبی ایشیا میں داعش کو یقین ہے کہ معاونت حاصل ہوگی، پیش رفت ہوئی۔ اس خطے کے مسلم عوام کی اکثریت داعش کے منشور کی حمایت کرے گی اور اپنے ملکوں میں خالص شرعی حکومتوں کے قیام کی جدوجہد کو کامیاب بنائیں گی، تاہم اس طرح کے نظریات اس سے قبل بھی نمایاں ہوئے پھر معدوم ہوگئے۔ نظریہ ہے شرعی ریاست کے قیام کا تصور بہت خوبصورت ہے اور ہر مسلمان کی دلی خواہش بھی ہے مگر اڑچن وہاں آتی ہے کہ کس ملک کی شریعت، اب دیکھیں طالبان کی شریعت اور ہے اور داعش کی شریعت اور حالانکہ شریعت تو ایک ہے، مگر اس میں طریقہ کار کی کچھ نہ کچھ تفریق ڈال دی جاتی ہے۔ اسلامی دنیا اب تک اس مسئلے کو حل نہیں کر پائی ہے۔ داعش نے چند برس قبل یورپی ممالک میں بھی حملے شروع کئے تھے۔ روس میں ایک پولیس چوکی پر حملہ کر کے دو پولیس اہلکار ہلاک اور سات اہلکاروں کو زخمی کردیا تھا۔ اس کے بعد ترکی میں بھی پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے گزشتہ سات برسوں میں داعش نے ایک سو بتیس حملے کئے، ان میں عراق اور شام کے حملوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ قصہ یوں ہے کہ ترقی پذیر معاشرے میں بے روزگاری، مہنگائی، ناانصافی اور بدعنوانی عروج پر ہے۔ عوام مسائل اور مصائب سے نڈھال ہیں، ایسی مایوس کن صورتِ حال میں وہ کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ آ کر انہیں ریلیف دلائے، انصاف دلائے۔ داعش جیسی تنظیمیں غریب عوام کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں، داعش نے بھی اسلامی شریعت کا نعرہ لگایا مگر دھماکوں اور خون خرابہ کے سوا دیا کچھ نہیں۔ پھر بھی عوام محو انتظار رہتے ہیں۔ یہ عوامی نفسیات ہے جس کا عیار لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مایوسی اور افراتفری میں گھر سے معاشروں کے نوجوانوں کو داعش بندوق اٹھانے کا مشورہ دیتی ہے اور ان معصوم نوجوانوں کو باور کراتی ہے کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں، مسیحا ہیں، آؤ ہمارے ساتھ لڑو اور اپنے دشمنوں سے بدلہ لو، اگر شہید ہوگئے تو جنت مل جائے گی اور غازی بن گئے تو دنیا میں بہت کچھ مل جائے گا، لڑنا شرط ہے، جہاد شرط ہے، داعش ایسے نعرے دے کر عوام کے جذبات سے کھیلتی ہے۔

بی بی سی کو حال ہی میں دیئے گئے انٹرویو میں طالبان حکومت کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ ہمیں دولت اسلامیہ عراق شام یا داعش سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ہم اس تنظیم کا مقابلہ کرتے رہے ہیں جبکہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خبردار کیا ہے کہ بعض گروہ افغانستان میں درپردہ طور پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور سازشیں کررہے ہیں، ہم ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے۔ سپریم کمانڈر کا یہ بیان فوری طور پر پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔ ایک خبر یہ آئی ہے کہ آسٹریلیا نے مجوزہ کرکٹ ٹیسٹ میچ ملتوی کردیا ہے۔ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ جلد آسٹریلیا کی سرزمین پر کھیلا جائے گا، اس اچانک فیصلہ کی وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی، افغان ٹیم کے ذرائع بھی چپ ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گیٹرس نے طالبان حکومت پر شدید نکتہ چینی کی کہ انہوں نے عالمی برادری سے کیا ہوا وعدہ یکسر توڑ کر اپنی ساکھ متاثر کی ہے جبکہ طالبان رہنماؤں نے یقین دلایا تھا کہ خواتین کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے اور یہ کہ لڑکیوں کو اسکول جانے سے نہیں روکا جائے گا مگر خواتین پر پابندیاں ہیں اور لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا گیا اور اسکولوں پر تالے لگا دیئے ہیں۔ اس ضمن میں بی بی سی کے نامہ نگار نے ایک طالبہ سے اس مسئلے پر بات کی تو اس نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کے وعدہ کے بعد بتایا کہ طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا اور اس حوالے سے دھمکیاں بھی دی گئی ہیں، میں نویں جماعت کی طالبہ ہوں، میرا سال ضائع ہورہا ہے، اس کی وجہ سے لڑکیوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں، لڑکیاں اعصابی دباؤ کا شکار ہورہی ہیں، انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغاستان میں 12 لاکھ سے زائد طالبات، ہائی اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں مگر اب اسکول بند ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جبکہ طالبان رہنماؤں نے یقین دلایا تھا کہ کسی سے جبر یا زیادتی نہیں ہوگی مگر انہوں نے اپنے وعدے توڑ دیئے، طالبان کی اس دو رُخی پر عالمی برادری کو شدید تشویش ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بڑی غیرسرکاری تنظیموں نے بھی طالبان کی نئی حکومت کے حوالے سے مذہبی بیانات جاری کئے ہیں کہ افغانستان میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو ان کے شیعہ مسلک کی وجہ سے چن چن کر ہلاک کیا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں مجموعی طور پر شیعہ آبادی صرف گیارہ فیصد کے لگ بھگ ہے، اس حوالے سے طالبان رہنماؤں کا دوٹوک موقف سامنے آیا ہے کہ ہم اپنی زمین پر شیعہ مسلک کو برداشت نہیں کریں گے۔ حالیہ ایک خبر جو انتہائی افسوسناک ہے اور عالمی میڈیا میں اس پر بہت دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مزار شریف کے ایک گھر میں چار خواتین مردہ پائی گئی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں ایک خاتون کا نام فرزان صفی ہے، وہ انسانی حقوق کی فعال علمبردار تھیں اور ایک عرصے سے کام کر رہی تھیں، اس کے علاوہ یونیورسٹی میں لیکچرار تھیں۔ اس افسوناک واقعہ کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ میڈیا میں ان کی علامتی تصاویر جاری کی گئی ہیں، وہ برقعہ میں ملبوس ہیں۔ افسوس صدافسوس افغانستان کا فوری مسئلہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی، خوراک کی کمی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ گولی سے مریں نہ مریں مگر بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ صورتِ حال بہت نازک ہو چلی ہے، خوراک کی رسد بند ہے۔ افغان حکومت رقم نہ ہونے کی وجہ سے اناج خریدنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا فوری افغان فنڈ سے کچھ رقم ریلیز کردے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکا افغان فنڈ قائم کرنے کے لئے دیگر ممالک سے بات کررہا ہے کہ یہ افغان فنڈ سے صرف اناج اور دوائیں خریدنے کے لئے فنڈز جاری کئے جائیں، اگر یہ کام جلد نہ ہوسکا تو پھر صورتِ حال مزید خطرناک ہوسکتی ہے، ڈیڑھ کروڑ کے قریب مرد، عورتیں اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ان بے گناہ افراد کو کچھ مہم جو افراد کی وجہ سے یہ مصائب جھیلنے پڑ رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کے لانے پڑے ہیں۔ افغانستان میں خوراک کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔ اگر حالات مزید بگڑتے ہیں جیسا کہ آثار دکھائی دے رہے ہیں تو پھر انسانی المیہ کو کوئی نہیں روک سکتا ہے، ہٹ دھرمی، غیرمنطقی اور غیرلچکدار رویے لاکھوں انسانی جانوں پر حاوی ہوں گئے ہیں، اس المیہ کو کیا نام دیا جائے۔ اس سے ملتی جلتی صورتِ حال افریقی سب صحارا ممالک کی ہے جہاں لاکھوں افراد خشک سالی، قحط سالی اور خوراک کی شدید کمی کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہیں، جہاں ہر روز ہزاروں بچے مر رہے ہیں، کچھ پیدائش سے قبل اور کچھ پیدائش کے بعد مگر افغانستان کی موجودہ مخدوش صورتِ حال قدرتی نہیں بلکہ انسانی کرتوتوں اور غیرلچکدار رویوں کی ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں صوبائی انتظامیہ نے تمام ٹیکسی ڈرائیوروں کو یہ نوٹس جاری کردیا ہے کہ ٹیکسی میں کسی بھی ہتھیار بند فرد کو سوار نہیں ہونے دیا جائے، صرف طالبان ہتھیار لے کر ٹیکسی میں سفر کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ ایک خبر یہ آئی ہے کہ طالبان حکومت افغانستان کی ایئرفورس تیار کرنے پر غور کررہی ہے، خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کے لئے رقم کہاں سے آئے گی اور رقم کون فراہم کرے گا۔ ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ فوری طور پر افغانستان میں چار روزہ پولیو کے قطرے گھر گھر جا کر پلاؤ مہم شروع کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بعض حلقوں کے خدشات ہیں کہ طالبان میں کوئی دھڑا اس کی مخالفت نہ کرے مگر ابھی تک مخالفت کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے مگر بڑا مسئلہ جو فوری درپیش ہے وہ خوراک کی کمی کا ہے، بھوکے بچوں کو فوری طور پر خشک دودھ اور خوراک کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ پولیو کے قطرے بھی بہت ضروری ہیں مگر بچوں کی جان بچانے کے لئے پولیو کے قطروں سے زیادہ دودھ اور خوراک ملک کی ضرورت ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہرحال تشویشناک ہے، تشویشناک کا لفظ شاید جاری صورتِ حال کی نسبت سے چھوٹا اور کم اثر ہے۔

مطلقہ خبریں