احمد صابر
وزیر خارجہ خواجہ آصف جن کی حبِ وطنی امریکہ میں خطاب کے بعد سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ان کے بیان کے بموجب ان کی ہمدردی ان ملکوں سے ہے جو پاکستان آرمی کے خلاف ہیں۔اب کی بار انھوں نے پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔امریکہ میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے سارا ملبہ اپنے ہی ملک پر ڈال دیا۔ جو زبان کل تک امریکہ،ہندوستان اور افغانستان بول رہے تھے اس کی تائید کرکے خواجہ صاحب نے پاکستان کو رسوا کر دیا ۔حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کو بوجھ قرار دے دیابلکہ امریکہ کی محبت میں یہاں تک کہہ گئے کہ شدت پسند پاکستان میں موجود ہیں۔جبکہ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ یہی بیان آتا رہا ہے کہ پاکستان کی زمین کسی بھی پڑوسی ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوتی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے امریکہ کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی بیان کی تھی جس میں اپنی ناکامی کو چھپاتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کردیا تھا۔ جس کے جواب میں ہماری سولین گورنمنٹ ہمیشہ کی طرح خواب خرگوش میں پڑی رہی جب ہی آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ پاکستان نے جتنا کرنا تھا کرلیا اب ہمارا جواب ہے نومور لیکن کیاکہنا ہمارے وزیر خارجہ کو جن کو کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ امریکہ کو کرارا جواب دیتے۔ چار سال تک خارجہ امور کی وزارت کے معاملات نوازشریف نے سنبھال رکھے تھے ۔ ان کے پاس اس وزارت کیلئے کبھی وقت ہی نہیں رہاجبکہ دنیا بھر میں وزارت خارجہ ایک اہم عہدہ ہوتا ہے۔خواجہ آصف امریکہ جاتے ہی اپنے محسن کی زبان بولنے لگے کسی لمحہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں یا امریکہ کے؟کیونکہ ان کی ہربات امریکہ اور بھارت سے محبت کی گواہی دے رہی ہے۔ہندوستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ فرماتے ہیں ہم تو ہندوستان سے دوستی چاہتے ہیں جس کا ثبوت نواز شریف کے مودی سے اچھے تعلقات ہیں۔ اسی محبت کے نتیجے میں نواز شریف نااہل ہوئے ہیں۔اگر آسان زبان مین سمجھا جائے تو وہ دوسرے لفظوں میں فوج پر انگلی اٹھارہے ہیں کہ اس نے سازش کرکے نوازشریف کو عدالت کے زریعے نااہل کروایا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ خواجہ آصف اپنے دل میں فوج کے خلاف بہت نفرت رکھتے ہیں۔ جسکا بین ثبوت کچھ عرصہ پہلے پارلیمنٹ میں ان کی تقریر ہے۔ بات حقانی نیٹ ورک کی ہو یا حافظ سعید کی تو ایک بات پوری دینا کو بتادیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجوداب پاکستان میں نہیں ہے۔پاکستان آرمی کے بھرپور آپریشن کے باعث پورا نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوگیا ہے۔ یہ امریکہ اور نیٹوکی ناکامی ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے لیڈر کو پکڑنہیں پائے اور ساراملبہ پاکستان پر گراتے رہتے ہیں یہ وہی حقانی نیٹ ورک ہے۔ جس سے کبھی وائٹ ہاوس میں امریکی ملاقات کرتے تھے آج وہی ان کے دشمن ہوگئے ہیںآج امریکہ یا اشرف غنی کی حکومت بس کابل تک رہ گئی ہے اور جہاں تک بات حافظ سعید کی ہے تو ہندوستان ان کو اپنے وہاں ہونے والی ہر دہشت گردی میں ملوث کرتا رہتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر ہندوستان کے پاس کوئی ثبوت ہو تو وہ ہمیں دے تاکہ وہ عدالتوں میں پیشں کیا جاسکے مگر ہندوستان کبھی بھی کوئی ثبوت نہیں دے سکااور دیتا بھی کیسے کیونکہ ہر حملہ ان کی را نے انجام دیا ہوتا ہے تاکہ ہندوستان کے مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کیا جائے۔ جس کی سب ایک مثال 2008 میں بمبئی میں دشت گردی کی واردات ہے جس میں دشت گردوں کے زریعے را نے ان پولیس والوں کو مروایاتھا جو انڈین آرمی کے حاضر سروس آفیسر کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہے تھے۔ حکومتِ وقت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ امریکہ کا ہدف افغانستان نہیں ہے بلکہ پاکستان ہے جس کیلئے وہ ہندوستان کے ساتھ ملکر پاکستان کو نقصان پہچانا چاہتاہے۔ہندوستان کے ساتھ ہتھیار وں کے معاہدے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور امریکہ ہندوستان کو جنوبی ایشیا کا چودھری بنانا چاہتا ہے۔تاکہ پاکستان کے ساتھ وہ چین کو کاوئنٹر کرسکے۔ اسیے حالات میں وزیرِخارجہ کا بیان پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں اوریہ بیان پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔