پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ۔۔آئی ایم ایف کی شرط ماننے کا عملی اظہار ہے۔۔آئی ایم ایف پاکستان کی ضروریات کے مطابق معاملات کو لے کر آگے چلے گا، حکومت کے بڑے فیصلے کا ایک مثبت اور پاکستانی معیشت کی بہتری کیلئے درکار نتیجہ یعنی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو کر رہے گا، آئی ایم ایف سے ہمیں درکار قرض بھی مل جائے گا اور آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے ساتھ ہی دیگر عالمی اداروں اور ممالک سے بھی امداد ملنا شروع ہو جائے گی
مصطفی کمال پاشا
اتحادی حکومت نے بڑے فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں بظاہر وہ بہت زیادہ خوشگوار نظر نہیں آرہے ہیں، پسندیدہ نہیں ہیں لیکن وہ ضروری ہیں، انتہائی ضروری ہیں، ان کے نتائج اچھے نکلنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ حکومت اپنے ایسے فیصلوں کا دفاع بھی کر رہی ہے، ظاہراً انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ ایسے فیصلے ناگوار مگر ضروری نظر آرہے ہیں۔ دیکھتے ہیں ایسے فیصلے ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دھڑلے دار اضافے کا اعلان کیا۔ پیٹرول 30 روپے اضافے کے ساتھ 179.88 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 30 روپے اضافے کے بعد 174.15 روپے لیٹر ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ہی دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ فی الحقیقت اسے پیٹرول بم کہا جا سکتا ہے جو حکومت نے عوام پر گرا دیا ہے۔
دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات مکمل ہوئے انہوں نے ہماری ساری باتیں ماننے کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی اعانت یعنی سبسڈی واپس لئے بغیر معاملات آگے بڑھانے سے قطعاً انکار کردیا، اس سے ظاہر ہوا کہ شاید مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور پاکستانی معیشت بند گلی میں چلی گئی ہے لیکن اصل بات جو طے ہوئی کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور پاکستانی وفد وزیراعظم سے ہدایات لے کر آئی ایم ایف کو آگاہ کرے گا۔ گزشتہ ماہ ہونے والا پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط ماننے کا عملی اظہار ہے، گویا معاملات آگے بڑھیں گے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی ضروریات کے مطابق معاملات کو لے کر آگے چلے گا۔ حکومت کے بڑے فیصلے کا ایک مثبت اور پاکستانی معیشت کی بہتری کے لئے درکار نتیجہ یعنی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو کر رہے گا۔ آئی ایم ایف سے ہمیں درکار قرض بھی مل جائے گا اور آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے ساتھ ہی دیگر عالمی اداروں اور ممالک سے بھی امداد ملنا شروع ہوجائے گی۔ ہماری جاں بلب معیشت کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ پاکستان کا سری لنکا بن جانے کا خدشہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اُمید کی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت قومی معیشت کو بحران سے نکال لے گی۔
دوسری طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے یعنی پیٹرول بم کے گرائے جانے کے بعد مہنگائی کی ایک بڑی لہر آئے گی۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ہیٹ ویو نے تباہی مچا رکھی ہے۔ ہماری زراعت اور نظام آب پاشی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ ”بندر وائرس“ کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ”ٹنکی وائرس“ ویو نے پاکستان میں 100 سے زیادہ افراد کو متاثر کردیا ہے، گویا کرونا وائرس کی طرح بندر وائرس بھی یہاں پہنچ چکا ہے اور اس نے پنجے گاڑنا بھی شروع کر دیئے ہیں، ابھی اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی ہے لیکن ”بندر وائرس“ کے وبا بننے کا خطرہ حقیقت بھی بن سکتا ہے، ہمیں اس کی دیکھ بھال کے لئے اسے روکنے کے لئے اس کا تدارک کرنے کے لئے بھی ہماری حکومت کو بڑا فیصلہ کرنا پڑے گا وگرنہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
اس بارے میں تو دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ حالیہ پیٹرول بم گرائے جانے کے بعد جو نتائج نکلیں گے وہ عوام کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ ڈالر کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے جو روپے کو بے قدر کر رہی ہے۔ مہنگائی کا طوفان اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ معیشت پر حملہ آور ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ بھرپور اور شدید ہے اور اس کے ہمار ی انفرادی معیشت یعنی عوام پر ناقابل بیان منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک عام آدمی کی معیشت کا پہلے بھی بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ قدر زر میں گراوٹ اور ذرائع آمدنی میں جمود کے باعث فرد کی قوت خرید گھٹتی چلی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ یقیناً ناقابل برداشت اور جان لیوا ہے۔ اس اضافے کے دور رس اثرات تو سردست پتہ نہیں کیا ہوں گے لیکن عوامی معیشت پر فوری اثرات یقیناً تباہ کن ہوں گے۔
دوسرابڑا فیصلہ جو حکومت نے کیا وہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کا تھا۔ عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار کے اعلان کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ کسی کو جتھہ لے کر اسلام آباد آنے اور اپنا مطالبہ منوانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی۔ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا کیونکہ عمران خان سرکاری و ریاستی معاملات میں مداخلت کرنے اور دھونس دھاندلی و دشنام طرازی کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے لئے مشہور ہیں، وہ بڑھکیں بھی لگاتے رہتے ہیں کہ شیخ رشید تو عمران خان کے اعلان کردہ حالیہ لانگ مارچ کو خونی بھی قرار دے چکے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد آئیں گے اور اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت نے ان کے کسی بھی مطالبے کے سامنے سرنگوں نہ ہونے کا اعلان کردیا تھا اور فیصلہ ہوا کہ انہیں اس طرح ریاست کو مفلوج ہرگز نہیں کرنے دیا جائے گا۔ بطور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے لانگ مارچ کو فی الاصل شارٹ مارچ بنا کر دکھایا۔ بڑے بڑے جغادری بڑھک مار لیڈر اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل نہ پائے، حد تو یہ ہے کہ شیخ رشید جیسے بڑھک باز لیڈر بھی اپنی حویلی سے باہر نہ نکلنے پائے۔ رانا ثناء اللہ نے اپنی حکومت کے بڑے فیصلے پر عملدرآمد کر کے ریاستی رٹ قائم کر دکھائی۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے بارے میں معاملات کے حوالے سے سابقہ حکومت کی ترامیم کو یکسر ختم کرنے کے طریقہ کار اور قومی احتساب آرڈیننس میں مزید ترمیم کرنے کے بل منظور کر لئے ہیں جس کے مطابق صوبائی اور وفاقی ٹیکس معاملات کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت میں شامل کئی سیاسی رہنما، اس حوالے سے اپنے تجربات کی بنیاد پر اس بات پر متفق پائے گئے ہیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنانے کی بجائے حقیقی احتساب کا ایک ایسا ادارہ بنایا جانا چاہئے جو سیاسی اور وقتی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق احتساب کے عمل کو جاری رکھے اور اس طرح معاملات میں بہتری پیدا ہو۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ احتساب کو ایک سیاسی نہیں بلکہ قومی ادارہ ہونا چاہئے جس کا سربراہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت کے بغیر احتساب کے عمل کو آئینی و قانونی انداز میں چلائے، احتساب صرف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔
جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا تعلق ہے تو سابقہ حکومت نے اس ایشو اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی تجویز کو انتہائی غیرسنجیدگی سے لیا تھا۔ انہوں نے ایسی تجاویز کے ذریعے سستی شہرت اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے خیال میں تمام اوورسیز پاکستانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ہی ووٹر ہیں، ان کا یہ خیال ایسے ہی ہے جیسے ڈیفنس کے سارے رہائشی پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں، حالانکہ پی ٹی آئی اسی علاقے سے خواجہ سعد رفیق کے ہاتھوں ضمنی الیکشن میں شکست کھا گئی۔ پی ٹی آئی کے ”دانشور“ یہ بھی سمجھتے رہے ہیں کہ کینٹ کے عسکری ووٹرز بھی انہی کے حمایتی ہیں، حالانکہ گزشتہ دنوں پنجاب کے کینٹ بورڈز کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے نمائندے جیت نہیں سکے بلکہ پی ٹی آئی کا کینٹ بورڈز کے انتخابات میں صفایا ہی ہوگیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کئی باتیں اب کھل کر سامنے آرہی ہیں جیسا کہ 25 مئی کے لانگ مارچ اور عوامی سمندر لانے کی دھمکی، نقش برآب ثابت ہوئی۔ وہ سمندر تو کیا ندی نالہ بھی نہ لا سکے اور بُری طرح ناکام ہوئے۔ دوسری جانب اتحادی حکومت بڑے فیصلے کررہی ہے جو ضروری نہیں کہ عوامی مقبولیت حاصل کرسکیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایسے فیصلے قومی معیشت اور سیاست کے لئے ضروری ہیں اور ان کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے، بہتری کی صورت میں، استحکام کی صورت میں، انشاء اللہ۔