تحریک انصاف کی عالمی سطح پر کوئی ساکھ نہیں ہے، چین سے کئے گئے معاہدوں کی تفصیل سامنے آنی چاہئے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عمران خان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، لوڈشیڈنگ میں کمی نہ آئی مہنگائی بہت بڑھی ہے، 100 دنوں میں روپے کی قدر 38.16 فیصد گرائی گئی، گڈگورننس کی بہترین مثال اعظم سواتی کیس ہے، کابینہ میں بیٹھے وزراء اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں
سید زین العابدین
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے 100 دنوں کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن جب حکومت ملی تو پتہ چلا کہ یہ کانٹوں بھرا تخت ہے پھولوں کی سیج نہیں، سب سے پہلے دعویٰ تھا پاکستان سے لوٹ کر لے جائے گئے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے لیکن تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ اعدادوشمار درست نہیں ہیں، یہ بھی ڈیٹا نہیں ہے کہ سوئٹزرلینڈ، عرب امارات، لندن اور دیگر ملکوں میں کتنی رقم پاکستان سے لوٹ کر رکھی گئی ہے۔ اگر اس کا درست فیگر معلوم بھی ہوجائے تو قانونی تقاضے پورے کرنا جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ کوئی بھی ملک سرمایہ آسانی سے اپنے ملک سے جانے نہیں دے گا، اگر ایسا ہوسکتا تو یہ ممالک بدعنوانی کے پیسوں کا اکاؤنٹ ہی کیوں کھولنے دیتے، حکومت کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر کو مستحکم کریں گے جب عمران خان برسراقتدار آئے تو ڈالر کی قیمت 107 سے 108 پاکستانی روپے تھی، زرداری حکومت نے 2013ء میں نواز حکومت کو 88 سے 90 روپے تک دیا تھا جبکہ زرداری حکومت کو پرویز مشرف حکومت نے 60 سے 61 روپے دیا تھا یعنی گزشتہ دونوں حکومتوں نے اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں روپے کی قدر جتنی گرائی عمران خان حکومت نے اس سے زیادہ 100 دنوں میں گرا دی، موجودہ دور کے ابتدائی 100 دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 38.16 فیصد گراوٹ کا شکار رہا، یہ تو ابتدائے عشق ہے ابھی تو 4 سال 265 دنوں کا اقتدار باقی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کے اشارے پر ہورہی ہے، پیٹرول عالمی مارکیٹ میں کم ہورہا ہے، تبدیلی سرکار اضافہ کرتی جارہی ہے، یہ بھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہورہا ہے، بجلی کی قیمتیں پھر بڑھیں گی کیونکہ آئی ایم ایف کا حکم ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا اگر بشریٰ بی بی (حکومت کی رہنما) مہینے کا سودا منگواتی ہیں تو مہنگائی کی تصدیق وہ خود کردیں گی، اس کے لئے کسی سروے کی ضرورت نہیں پڑے گی، عمران خان نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور دیگر دوست ممالک عمران خان کی حکومت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کٹھ پتلی سرکار ہے، پس پردہ قوتیں ہی اصل مالک ہیں، لہٰذا ڈیل انہی سے ہورہی ہے۔ چین کے پانچ روزہ دورے کے معاہدات کی تفصیل نہ پارلیمنٹ میں بتائی گئی نہ ہی پریس کانفرنس یا ٹیلی ویژن کے خطاب کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا گیا، حالانکہ گزشتہ حکومتوں پر عمران خان اس پر بھی تنقید کرتے تھے کہ وہ عوام کو دیگر ملکوں سے ہونے والے معاہدوں سے لاعلم رکھتے ہیں۔ عمران خان نے ابتدائی تین ماہ بیرون ملک کے دورے پر پابندی کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا، دوروں کے لئے خصوصی طیاروں کے استعمال پر پابندی کرنے کا کہا گیا تھا لیکن سارے دورے خصوصی طیاروں پر ہی کئے جارہے ہیں۔ گڈگورننس کی بات کی گئی تھی، ڈی پی او پاکپتن، آئی جی اسلام آباد اور اعظم سواتی کیس اس حوالے سے بہترین مثال ہے، دراصل جب اتحادی حکومت بنتی ہے تو ایسے ایسے مطالبے سامنے آتے ہیں جس کا تصور بھی محال ہوتا ہے لیکن حکومتیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے سب کچھ مانتی ہیں۔
عمران خان مغربی ممالک کے جمہوری نظام اور روایات کی بہت بات کرتے تھے، اعظم سواتی والا معاملہ برطانیہ میں ہوتا اور عمران خان وزیراعظم ہوتے تو اگلے گھنٹے میں استعفیٰ دینا پڑ جاتا۔ انکروچمنٹ کے نام پر عدلیہ کے کاندھے پر بندوق چلائی جارہی ہے جس کا نشانہ غریبوں کا روزگار اور آشیانہ ہے، 88 ہزار ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے چھڑانے کا دعویٰ تو صرف پنجاب میں کیا گیا جو سفید سے بھی زیادہ جھوٹ ہے، لاہور میں انکروچمنٹ علیم خان، چوہدری محمد سرور اور چوہدری برادران کی فرمائش پر روک دیا گیا لیکن کراچی میں بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ غلط بات یا اقدام کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا لیکن اگر غریبوں نے غیرقانونی جگہ ٹھیلہ یا اسٹال لگایا ہوا ہے تو انہیں اس کا متبادل دیا جائے پھر ہٹایا جاتا، ریاستِ مدینہ کی بات کی جاتی ہے، ریاستِ مدینہ کے امیر کا مشاہراہ (تنخواہ) ایک مزدور کی اجرت کے برابر تھی، کیا وزیراعظم عمران خان 14 ہزار روپے میں گزارا کرتے ہیں؟ مدینہ کی ریاست میں نااہل کو عہدہ نہیں دیا جاتا تھا اس حکومت میں تو نااہل لوگوں کی بھرمار ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی نہ آسکی، کراچی کے جن علاقوں میں ایک سے ڈھائی گھنٹے کے لئے بجلی جاتی تھی وہی شیڈول اب بھی جاری ہے حالانکہ پی پی دور کے آخری سال میں سردی کے موسم میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ نصف ہوگیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کے یہی انداز رہے تو آئندہ چھ ماہ میں سیاسی بساط سمیٹی بھی جاسکتی ہے کیونکہ جو اس حکومت کو لے کر آئے ہیں وہ اب تک کی کارکردگی سے مایوس ہیں، اپوزیشن کا تو یہ حال ہے کہ شہاز شریف جیسا غیرسیاسی ذہن رکھنے والا لیڈر ہے، زرداری صاحب جیسا شاطر دماغ والا بندہ، انور مجید پر چلنے والے کیسز اور نیب کی انکوائری سے پریشان ہے، نواز شریف اور روک سکو تو روک لو کا نعرہ لگانے والی شہزادی صاحبہ بھی سکوت میں ہیں کیونکہ مستقبل ان کا روشن ہے۔ یہ یقین دہانی کروائی جا چکی ہے یا تسلی دے دی گئی ہے۔ رہ گئے مولانا فضل الرحمن تو وہ کرنا بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن کچھ اداروں نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو کسی سے خطرہ نہیں ہے، اسے اندیشہ صرف اپنے ماضی کے وعدوں سے ہے حکومت جتنے بھی سروے کروا لے حالات اس کے حق میں نہیں ہیں اس حکومت کے اصل مخالف اس کی کابینہ میں بیٹھے ہیں وہی لے ڈوبیں گے۔