Friday, July 18, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

جوہری توانائی کے حصول میں بڑی کامیابی

ڈاکٹر مدثر اقبال
اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس وقت دُنیا کو سب سے زیادہ ضرورت توانائی کی ہے تو یہ بالکل بھی مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ روزمرہ کی ضروریات ہوں یا موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ سب ہی کو توانائی کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات یا پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو دُنیا بھر میں ہونے والی جنگوں میں بھی کہیں نہ کہیں توانائی کے حصول کا مقصد سامنے آتا ہے۔ امریکا کا وسطی ایشیا کی جانب متوجہ ہونا ہو یا روس اور یوکرین کے درمیان جنگ پر، لڑائی میں توانائی کا حصول ایک اہم پہلو رہا ہے۔ اس لئے مستقبل میں بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہوگا۔ اس وقت دُنیا میں کئی ذرائع سے توانائی حاصل کی جارہی ہے، جس میں کوئلہ، تیل، پانی، گیس، ونڈ پاور اور سولر انرجی شامل ہیں لیکن ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی لامحدود نہیں ہے۔ قدرتی ذخائر تیزی سے کمی کا شکار ہورہے ہیں، جوہری توانائی کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس سے لامحدود توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ توانائی کا حصول اس وقت ہی منافع بخش ثابت ہوتا ہے جب اس کی پیداوار میں استعمال ہونے والی توانائی سے زیادہ مقدار میں توانائی حاصل کی جاسکے۔ مثلاً کسی توانائی کے استعمال میں اگر ایک یونٹ استعمال ہوا ہے تو یہ تبھی فائدہ مند ہوگی جب اس سے 1.5 یونٹ حاصل ہوں گے۔ امریکا کے ادارہ برائے توانائی کی سان فرانسسکو میں قائم ”لارنس لورمور نیشنل لیبارٹری“ منافع بخش لامحدود توانائی کا حصول نیوکلیئر فیوژن میں تلاش کرلیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دُنیا بھر میں استعمال ہونے والی جوہری توانائی ”نیوکلیئر فژن“ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ نیوکلیئر فیوژن میں ایٹم کو توڑا جاتا ہے جس سے توانائی پیدا ہوتی ہے لیکن اس میں بہت سی پیچیدگیاں اور خطرات موجود رہتے ہیں جبکہ نیوکلیئر فیوژن میں ایٹم کو یکجان کیا جاتا ہے جس سے حاصل ہونے والی توانائی صاف اور لامحدود ہوتی ہے اور اس کا ویسٹ میٹریل بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ سورج میں بھی مسلسل فیوژن ری ایکشنز ہوتے رہتے ہیں، اس لئے سورج کو توانائی کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سان فرانسسکو لیبارٹری میں کئے گئے تجربے کو اس لئے بھی بہت بڑی کامیابی تصور کیا جارہا ہے کیونکہ اس نیوکلیئر فیوژن کے جتنی توانائی کا استعمال کیا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ توانائی حاصل کی گئی ہے۔
فیوژن ری ایکشن پر تجربات کا آغاز 1950ء سے ہی ہوگیا تھا لیکن اس ری ایکشن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل کام تھا۔ سورج کی کور (Core) جیسے ری ایکشن کو دُنیا کی کسی لیبارٹری میں کنٹرول کرنا کس قدر مشکل ہوسکتا ہے لیکن فیوژن ری ایکشن سے حاصل ہونے والی توانائی فژن کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ فیوژن ری ایکشن کے ذریعے ہائیڈروجن کے آئیسوٹاپ ، ٹرائی ٹیئم سے فیژن کے مقابلے میں چار گنا زیادہ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ نیوکلیئر فیوژن سے حاصل ہونے والی توانائی صاف ہونے کے ساتھ محفوظ بھی ہے کیونکہ اس میں ریڈی ایشن کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔
امریکا کی لیبارٹری میں ہونے والا حالیہ تجربہ اس لئے زیادہ زیربحث ہے کیونکہ اس سے حاصل ہونے والی توانائی اس ری ایکشن کے لئے استعمال ہونے والی توانائی سے زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کامیاب تجربے میں ہائیڈروجن کے آئیسوٹاپس ڈیوٹیریم اور ٹرائی ٹیئم کو یکجاں کرنے کے لئے طاقتور لیزرز کا استعمال کیا گیا۔ لیزرز کے استعمال سے فیوژن ری ایکشن کے ذریعے نیوٹرون حاصل کیا گیا ہے جس سے توانائی کا حصول ممکن بن پایا ہے۔ اس تجربے میں لیزرز کے ذریعے استعمال ہونے والی توانائی 2.1 میگاجولز تھی جبکہ حاصل شدہ توانائی 2.5 میگاجولز تھی۔ اسی لئے اس تجربے کو انقلابی اور بہت بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ اس سے لامحدود منافع بخش توانائی کا دروازہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دُنیا کے دیگر ممالک جن میں چائنا اور فرانس بھی شامل ہیں۔ اس طرز کی توانائی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں، فرانس میں بھی ”توکاماک“ کے نام سے ایک تجربہ کیا جارہا ہے جس میں فیوژن ری ایکشن کے لئے میگنیٹک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکا نے اس تجربے میں لیزر کے استعمال سے کامیابی حاصل کرکے فیوژن ری ایکشن میں برتری حاصل کرلی ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف ایک کلو فیوژن فیول، 55 ہزار بیرل آئل، 60 لاکھ کلو گرام گیس یا 11 ہزار 23 ٹن کوئلے کے برابر توانائی پیدا کرسکتا ہے۔ نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن میں کامیابی تو حاصل کرلی گئی ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس کو کمرشل سطح تک قابل استعمال بنانے میں ابھی 20 سے 25 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے کیونکہ موجودہ جوہری نظام جو کئی دہائیوں سے زیراستعمال ہے کے تحت دُنیا کی کُل توانائی کا صرف 10 فیصد حصہ ہی حاصل کیا جارہا ہے۔ اس لئے نیوکلیئر فیوژن کو کمرشل سطح تک پہنچنے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔

مطلقہ خبریں