پاکستان دہشت گردی کی جنگ کی ہولناکی دیکھ چکا ہے کہ جنگ خواہ کسی بھی مقصد کے لئے لڑی جائے اِس کی کوکھ سے امن اور خوشحالی کبھی پیدا نہیں ہوسکتی، جنگ کا ایک لمحہ برسوں کی پُرخار مسافت پر ڈال دیتا ہے
ضمیر آفاقی
بات خوف یا بزدلی کی نہیں، بات انسانیت کے بچاؤ کی ہے، جس کا راستہ پاکستان نے چنا اور خطے کے امن کے لئے انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے، بھارت کو امن کی پیشکش کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اِس عمل سے دُنیا کو پاکستان کی نیت اور اخلاص کی قدر کرتے ہوئے بھارت کے جنگی جنون کی نہ صرف مذمت کرنی چاہئے بلکہ اِسے اِس جنون سے باز رکھنے کے لئے سفارتی کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی بہترین افواج، اسلحہ، جنگی صلاحیتوں اور مہارتوں کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں چاہتا ہے؟ اِس سوال کا جواب بڑا سادہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ کی ہولناکی دیکھ چکا ہے کہ جنگ خواہ کسی بھی مقصد کے لئے لڑی جائے اِس کی کوکھ سے امن اور خوشحالی کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جنگ کا ایک لمحہ برسوں کی پُرخار مسافت پر ڈال دیتا ہے۔ جس کا ادراک بھارت کو اگر ہے تو اِس کے جنون نے اِس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کر رکھا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ بُری حالت وہاں کے میڈیا کی ہے جو انتہاپسند گروہوں کی بلیک میلنگ سے بے بس ہو کر وہی کچھ کہہ رہا ہے جو وہ چاہتے ہیں یعنی جنون اور نفرت کا بڑھاوا۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی قوم سے اپنے خطاب میں کہا بلکہ وہ بار بار اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ ”میں آپ سے ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں عقل و دانائی سے کام لینا چاہئے اور ہمیں مل بیٹھ کر مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئے، میرا بھارتی حکومت سے سوال ہے کہ کیا ہم غلطی کے متحمل ہوسکتے ہیں یا جس طرح کے ہتھیار ہمارے پاس ہیں کیا ہم اِن ہتھیاروں کے ساتھ جنگ شروع کرسکتے ہیں۔“ انہوں نے اِس موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو خبردار کیا کہ جنگ شروع کرنے کی حوالے سے اگر کوئی غلطی ہوگئی تو صورتِ حال کیا ہوگی؟۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اِن دنوں اپنی بہترین حکمت اور فراست کا مظاہرہ کیا، جس کی تعریف بین الاقوامی میڈیا اور رہنما بھی کررہے ہیں م قریباً ڈھائی ارب کی آبادی کے اِس خطے میں جنگ کے خطرے کو ٹالنے اور پوری دُنیا کو اِس جنگ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لئے اِس کارنامے کے طور پر اِنہیں نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔ بھارتی جنگی جنون سے بچانے کے لئے انہوں نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لئے بات چیت کا راستہ اپنائے۔ پاکستان کی جانب سے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جانے کے دعوے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تناؤ انتہائی شدید ہوگیا تھا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب مسائل پورے خطے کو غربت میں دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان اپنے جارح پڑوسی سے سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا۔ آرمی چیف نے کہا تھا کہ سیکیورٹی اخراجات بڑھانے کے لئے انسانی ترقی کی قربانی دینا پڑتی ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی باتیں سو فیصد درست ہیں کیونکہ پاکستان اور بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ آج کل دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ اب کشیدگی بڑھنے سے جنگ کے سائے دونوں ممالک کی ایک ارب پچاس کروڑ کی آبادی کے سر پر منڈلا تے رہتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس ایک سو تیس کے قریب جوہری ہتھیار ہیں جب کہ پاکستان قریباً ایک سو پچاس تباہ کن ہتھیار رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس طویل فاصلے کے میزائل بھی ہیں، جس کی بدولت بھارت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت کئی پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جب کہ پاکستانی میزائل نئی دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو خدشہ ہے کہ یہ جوہری تصادم کی شکل اختیار کر جائے گی، جس کے نہ صرف خطے بلکہ دُنیا بھر میں بھی اثرات ہوں گے۔
امریکی محققین کی 2007ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اِس میں کم تباہی پھیلانے والے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں، تو اِن کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اِن دھماکوں کے اثرات سے ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہوسکتی ہے، جس سے دو ارب کے قریب انسان فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اِس صورتِ حال پر امن پسند بہت پریشان ہیں۔ جو جنگی جنون پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ جنگ اور تباہی کا مطالبہ کررہے ہیں، سب سے پہلے اِنہیں جنگ میں بھیجا جائے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گھسیٹ رہے ہیں، چالیس فیصد بچوں کی مکمل طور پر ذہنی نشوونما نہیں ہو پارہی ہے جب کہ اڑتیس فیصد کے قریب غذا کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ بھارت میں سرکاری طور پر 243 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں (غیرسرکاری طور پر یہ تعداد چھ سو ملین ہے)، پینتیس فیصد سے زائد افراد مناسب غذا سے محروم ہیں جب کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر بیٹھ کر جنگ کے نعرے لگانا آسان ہے لیکن ایک عام آدمی کوئی جنگ نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے، اپنی روزی روٹی کمائے۔ آپ پر اگر جنگ مسلط کی جائے تو وہ ایک مختلف بات ہے اور آپ کو اِس وقت اپنا دفاع کرنا چاہئے اور اِس وقت تو ہر ایک لڑتا ہے لیکن اِس طرح اپنے دشمن کو للکارنا کہ وہ آئے اور آپ پر حملہ کرکے دکھائے، یہ مناسب نہیں ہے۔ کئی مبصرین جنگ کو ہتھیاروں کی صنعت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِن کا خیال ہے کہ جنگ اِس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک یہ ہتھیار بنتے رہیں گے۔ جنگ کی ایک سیدھی سے وجہ تو یہ ہے کہ کچھ سرمایہ دار قیمتی انسانی وسائل ہتھیاروں پر لگا رہے ہیں لیکن دُنیا میں اصل مسائل تو بھوک، غربت، بے روزگاری اور مناسب رہائش کی عدم دستیابی ہے۔ جنگ سے اصل فائدہ شاید اِن سرمایہ داروں کو ہو لیکن عام آدمی کو اِس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی تباہی نسلوں کی ہڈیوں کے گودوں تک چلی جاتی ہے۔
جنگ کی تباہ کاریوں کے حوالے سے لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پولینڈ کے لوگوں سے پوچھیں وہ بتائیں گے جنگ کیا ہوتی ہے۔ یا کسی یورپی خاندان سے پوچھ لیں جنگ کیا ہے؟ آپ اِس کی آنکھوں میں آنسو دیکھیں گے، جرمن فوج نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کیا اور پولینڈ میں ایک لاکھ 99 ہزار 700 لاشیں بچھا دیں، 75 سال بعد بھی اِس شہر کی دیواروں پر جنگ کے زخم ہیں، یورپ نے 1939ء سے 1945ء تک مسلسل 6 برس تک جنگ بھگتی، یورپ، امریکا اور جاپان کے چھ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، امریکا نے آخر میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر 2 ایٹم بم داغے، 2 منٹ میں ایک لاکھ 40 ہزار لوگ جبکہ ناگاساکی میں 75 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور جو زندہ بچے وہ عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ جنگ کے بعد صرف تلخ اور خون کے آنسو رُلا دینے والی کہانیاں رہ جاتی ہیں۔