Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

جنگ کی نئی جہت۔۔انفارمیشن جنگ

ہم اس وقت الیکٹرونک جنگوں کے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں انفارمیشن جنگ ایک اصطلاح اور جہت سامنے آئی ہے جوکہ اب استعمال ہورہی ہے، یہ ایک نیا طریقہ جنگ ہے جس میں سائبر سے لے کر آرٹیفیشل جنگ کے معاملات بھی شامل ہوگئے ہیں
نصرت مرزا
دُنیا میں زمانہء قدیم سے جنگ کا ماہر اور سربراہ مملکت، جو بادشاہ ہو یا سلطان اپنے دشمن کی طاقت، اُس کی جنگی حکمت عملی اور اُس کے عزائم کے بارے میں باخبر رہنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور ایک زیرک حکمراں دشمن کی پوزیشن کے مطابق اپنی جنگی حکمت عملی وضع کرتا رہا ہے۔ پھر دشمن کو صفوں میں انتشار پھیلانے کا عمل بھی جاری رکھتا ہے۔ پہلے فوج کو منتشر کرنے اور پھر اُس کی عوام میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے ہندوستان کے مغل حکمرانوں کو شکست دے کر مسلمانوں میں بے انتہا انتشار پھیلایا، جس کے نتیجے میں کئی فرقوں اور مدرسوں کے ذریعے مسلمانوں کے تضادات کو ابھارنے کی کوشش کی اور اب ہائبرڈ جنگ کا دور آ گیا اور اس کے بعد الیکٹرونک جنگوں کے دور سے ہم گزر رہے ہیں، جس میں انفارمیشن جنگ ایک اصطلاح اور جہت سامنے آئی ہے جوکہ اب استعمال ہورہی ہے۔ یہ ایک نیا طریقہ جنگ ہے جس میں سائبر سے لے کر آرٹیفیشل جنگ کے معاملات بھی شامل ہوگئے ہیں۔
اس وقت دُنیا اس بات پر بحث کررہی ہے کہ امریکی ملٹری اور پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے درمیان جنگ کی حکمت عملی میں کیا مماثلت اور کیا فرق ہے، خصوصاً آرٹیفیشل انفارمیشن کے زمانے میں۔ زیادہ غور طلب بحث ہے کہ اس اطلاعاتی دور میں امریکا اور چین کے درمیان جہاں کافی بڑا فرق موجود ہے تاہم مقابلہ اس بات پر ہے کہ اس اطلاعاتی فوائد اور اُن کو زیراستعمال لا کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے کیا فوائد ہیں اور کس کی اس میں برتری حاصل ہے۔ اس سے پہلے میں موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھاؤں، ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکا اور چین کی فوجی صلاحیتوں کا احاطہ کروں۔ امریکا ملٹری کمپلیکس نے یہ پیمانہ بنایا ہوا ہے کہ اگر کوئی ملک اس سے پچاس سال پیچھے ہے اور اگر اس میں ایک سال کم ہوجائے تو ملٹری کمپلیکس یہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ دوسرا ملک اس سے آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے جدید ہتھیاروں کی تعداد اور اُن کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جائے تو ہتھیاروں کی مدد میں بہت زیادہ آگے ہے حتیٰ کہ اس نے موسمیاتی تغیرات کا آلہ بنا کر اُس کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے جبکہ چین گلائیڈیڈ ویکل اور کوانٹم سیٹلائٹ بنا کو ٹیکنالوجی میں اپنی برتری ثابت کرچکا ہے۔ اس سیارچے کی مدد سے وہ اپنی معلومات اور خفیہ راز اور خفیہ گفتگو کو دشمن یا دوست کے ہاتھ لگ جانے کے عمل کو روک سکتا ہے اور تاحال امریکا ایسے سیارچے کو خلاء میں نہیں بھیج سکا ہے مگر شاید امریکا اِس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ نہ صرف چین کے اس سیارچے کو مار گرا سکتا ہے یا کسی اور ٹیکنالوجی سے چین کی اس برتری کو توڑ سکتا ہو، پھر امریکا کے دُنیا بھر میں 900 اڈے ہیں اور چین کے صرف تین۔
اس وقت امریکا اور چین کی مسابقت اِس سلسلے میں ہے کہ انفارمیشن کا فائدہ اور فیصلہ کرنے کے فوائد کو کس طرح بروئے کار لا کر برتری حاصل کی جائے، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بظاہر چین امریکا کے اس تصور Observe-Orient-Decide-Act (OODA) کو بروئے کار لا کر معلوماتی جنگ سے استفادہ حاصل کرے۔ OODA کے امریکی موجد فضائیہ کرنل جون بوئید کے اس تصور کو پلیٹ فارم بنا کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ موضوع اتنا جدید ہے کہ اس پر کام کرنا یا بات کرنا اور اس پر کالم لکھنا کافی مشکل ہے کہ اگر اس کے لکھنے والے کے بات سمجھ بھی آجائے تو وہ اپنے قاری تک اس کو اس انداز سے کیسے پہنچائے کہ وہ جس جنگ کی بات کر رہا ہے وہ کیا ہے اور کتنی خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ کتنی مشکل ہے۔
بظاہر تو اس کے معنی یہی لئے جا سکتے ہیں کہ جو اطلاعات آپ کے پاس ہیں اُن کے فیصلہ کرنے میں کس طرح اور کتنی جلد استعمال کیا جا سکتا ہے، پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو اطلاعات مل رہی ہیں اُس کی صداقت کی تصدیق کیسے کی جا سکتی ہے اور اس کے مطابق صحیح فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا اور خصوصاً فضائی جنگ میں فیصلہ کرنا لمحوں کی بات ہوتی ہے جو ایک پائلٹ اور جہاز کو زندگی اور موت کی صورتِ حال سے دوچار کرسکتا ہے جس طرح پاکستان کے شاہینوں نے 27 فروری 2019ء کو کیا کہ بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور ایک ہیلی کاپٹر سائبر فریبی میں شکار ہو کر خود اپنے ہی فوجیوں نے گرا لیا۔ اس کے علاوہ 26 فروری 2019ء کو پاکستان کے پاس معلومات تھیں کہ انڈیا کئی طرف سے فضائی حملہ کرنا چاہتا ہے اور پاکستان نے جیسا کہ سینہ بہ سینہ کہانی سننے کو مل رہی ہے کہ پانچ مقامات پر انڈیا کے جہازوں کا راستہ روکا تاہم وہ بالاکوٹ میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے مگر عالم گھبراہٹ میں اور اپنا اسلحہ یا جسے Payload کہا جائے گرا کر فرار ہوگئے یا دو تین منٹوں کا تماشہ تھا اور دوسرے دن جو جوابی حملہ ہوا انڈیا اس کے لئے قطعاً حالتِ تیاری میں نہیں تھا کیونکہ اُن کے راڈار منجمد کر دیئے گئے تھے۔
امریکا نے اپنا دفاعی اور جارحانہ جنگ کا جو ماڈل بنایا ہے اُس میں اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جو انفارمیشن کو ملتی ہے اس سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ اس کے لئے امریکا نے ساری مسلح افواج کو ایک نیٹ ورک میں شامل کرلیا ہے تاکہ انفارمیشن ماحول میں رہیں اور ساری مسلح افواج اس خاص اطلاع کو مناسب انداز سے استعمال کرسکیں۔ ایئرفورس کے کرنل جون بوئید کا کہنا ہے کہ امریکا اس ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرچکا ہے جبکہ پی ایل اے اس کے حصول کے لئے کوشاں ہے تاہم امریکی کرنل کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مہارت کے باوجود امریکا کو وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کے عین مطابق اس میں تبدیلیاں لاتی رہنا ہوگی ورنہ امریکا نے جو برتری حاصل کی ہوئی ہے وہ معدوم ہوجائے گی کیونکہ اس وقت کی موجود تکنالوجی تک چین جلد یا بدیر پہنچ جائے گا۔ یہ اطلاعاتی طول و عرض اور یہ حصہ انفارمیشن جنگ کا مرکزی نقطہ بن جائے گا اور آپریشنل جنگ کا آرٹ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کے جنگ کے تصور اور ڈوکٹرائن بہت ساری خامیاں ہیں مگر امریکا چین کے جنگی ڈوکٹرائن کو بھی اندھادھند استعمال کررہا ہے۔ شاید اس کا خیال ہے کہ چین کو اسی کے ڈوکٹرائن سے ہرایا یا ہراساں کیا جائے اور شاید اسلئے بھی کہ امریکا اپنا طریقہ اور چینی طریقہ کو ملا کر جنگ کرنا چاہتا ہے۔
بہرحال اس فن کی موجودگی میں جنگ یا معرکہ یا جھڑپ میں جیت اُسی کی ہوسکے گی جو اطلاعاتی جنگ میں مہارت رکھتا ہو اور صحیح وقت میں صحیح فیصلہ کی صلاحیت استعمال کرسکتا ہو اور دشمن کے عزائم اس کے حربہ جات یا حکمت عملی سے زیادہ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو اور ان معلومات کو دشمن کی بڑھتی ہوئی صلاحیت بروقت اطلاع نہ صرف حاصل سکتا ہو بلکہ اُس کو اپنے انفارمیشن وار کے نظام میں سمو کر اُس کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاسکے۔ اس مربوط نظام کو بجاطور پر انفارمیشن جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے۔

مطلقہ خبریں