نصرت مرزا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کو یہ اطلاع دے دی ہے کہ انہوں نے جنگ کے معالے کو جنرلوں کے حوالے کردیا ہے۔ یہ ایک بُری خبر ہے کہ امریکہ کے صدر نے جنگ کی ہولناکی کا اندازہ لگائے بغیر جنگ کے لئے تیار ہونے والے لوگوں کے حوالے کردی ہے جو نہ امریکی آئین اجازت دیتا ہے اور نہ عالمی قوانین خود امریکی صدر کے پاس جنگ کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار کانگریس کے پاس ہے، البتہ وہ ایسے حالات ضرور پیدا کرسکتا ہے کہ کانگریس جنگ کی اجازت دینے پر مجبور ہوجائے۔ یوں اگرچہ قانون، دستور اور جنگ کے تباہ کاریوں سے ناواقف ایک نادان شخص ہی ایسا کرسکتا ہے۔ ویسے عام محاورہ یہ ہے کہ جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اس کو جنرلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پاکستان کی بات اِس وجہ سے ذرا مختلف ہے کہ پاکستان توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا اور وہ صرف اپنے دفاع کے لئے مستعد رہتا ہے، اگر اس پر جنگ مسلط کی جائے تو وہ خودی جواب کے لئے دستیاب ہوتا ہے، جیسے ایک نامعلوم ڈرون کا گرا لیا جانا یا بھارتی طیاروں کی پاکستان کا رُخ کرتے ہی پاکستان کی فضائیہ حرکت میں آجاتی ہے۔ تاہم امریکی صدر نے جو بات شی جن پنگ سے کہی اس کا انہوں نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا لیکن یہ بات اُن کے افغان پالیسی کے پانچ رہنما اصولوں میں شامل ہے کہ جس کی رُو سے جنرلوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب تک چاہیں افغانستان میں رہیں اور جتنی فوج کا تعین کرنا چاہیں کریں۔ بظاہر افغانیوں کے اِس مقولہ کا جواب ہے کہ امریکہ کے ہاتھ میں گھڑی بندھی ہوئی ہے اور ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ایک اور محاورہ بھی ہے کہ جنگ قوم لڑا کرتی ہے صرف فوج نہیں۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے جنرل حضرات پاک افغان سرحد پر حملہ کریں گے، اس طرح مکمل جنگ کا حصہ بنانے کا ارادہ ہے اور سی پیک کے معاملے میں بھارت کی مکمل ناکامی نے امریکہ کو خود میدانِ عمل میں کودنے کا فیصلہ اُن کی افغان پالیسی میں نظر آتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا فوجی کمانڈروں کو جنگ کا اختیار دے کر امریکہ جنگ جیت سکتا ہے۔ امریکی و افغانی جنرلوں کا یہ خیال ہے کہ اگر پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم ہوجائیں تو وہ جنگ جیت جائیں گے۔ مگر شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طالبان کی امداد کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے، اس میں روس، چین اور ایران بھی شامل ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی امریکی و افغانی یہ سمجھتے ہیں کہ صرف حقانی گروپ کا خاتمہ ہوجائے تو وہ کامیاب ہوجائیں گے۔ جہاں وہ مار کھا جائیں گے کہ بات فوجی زاویہ سامنے کی چیز دیکھتا ہے یا جس سے زخم کھائے ہوں اُن کو ذہن میں رکھتا ہے اور جو نئے خدشات جنم لے رہے ہوں اُن پر اُن کی نظر اس وقت جائے گی جب وہ حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آکھڑے ہوں گے اور نقصان کا دائرۂ کار وسیع کر چکے ہوں گے۔ امریکی یا افغانی جنرلوں کے لئے یہ کافی مشکل کام ہے کہ پاکستان کی سرحد کو عبور کریں اور ہماری سرحدوں پر اپنے فوجی بوٹ لے کر آجائیں، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پاکستان ہر سطح پر جائے گا چاہے وہ افغانستان ہو یا امریکہ کی اپنی سرزمین یا اُس کے بحری بیڑے تاہم نہ امریکہ اتنی دور جائے گا اور نہ پاکستان کا اس وقت تک کوئی ایسا ارادہ ہے جب تک اُس کی سلامتی کو واقعی خطرہ نہ ہو۔ تو سوال یہ ہے کہ امریکی پھر کیا کرسکتے ہیں، پاکستان کی امداد بند کردیں، وہ پہلے بھی ہوئی ہے، پاکستان سے اُس کو زیادہ فرق نہیں پڑتا، پاکستان کے آرمی چیف نے اس کا واضح اعلان کردیا۔ دوسرے پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا اعزاز واپس لے لے، ہم یہ کہیں گے کہ ایک منٹ نہ لگائے وہ نام کا اعزاز ضرور واپس لے لے تاکہ اُس کی سپلائی کو بند کرنے کا جواز پیدا ہوسکے۔ حقانی گروپ پر پابندی اور کچھ آئی ایس آئی کے افسران پر پابندی لگا کر وہ بھی لگا کر دیکھ لے مگر وہ اقوام متحدہ میں اس کو پاس نہیں کرا سکا، یوں اُس کو اچھی خاصی سبکی اٹھانی پڑی ہے۔ امریکیوں کی یہ خام خیالی ہے کہ افغان فوج اِس قابل ہے کہ وہ حقانی گروپ کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں اپنی طاقت سے ختم کردے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ افغانیوں کے نام پر سرجیکل اسٹرائیک کرے گا۔ امریکی افغان افواج کی کامیابیوں کے گن گنوا رہے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں 75 فیصد آپریشنز افغان فوج کررہی ہے۔ 25 ہزار افغان فوج اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ مئی 2017ء تک 2537 افغانی فوجی ہلاک اور 4238 زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود فوج میں کرپشن اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے علاوہ افغانی فوج کے بھگوڑوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ بھارت کا افغانستان میں معاشی ترقی کا کردار دینے کے بعد یہ امریکہ میں کئی سینیٹرز بھارت کو فوجی کردار دینے پر اصرار کررہے ہیں یعنی وہ افغانستان بھارت کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب گیدر کی موت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے، یہاں بھارت افغانستان کا رُخ کررہا ہے۔ گو ہماری مشکلات تو بڑھیں گی مگر یہ ہمارے لئے اچھا ہی ہے کہ بھارت کو افغانستان میں اگر مار پڑے۔ تاہم بھارت یہ کوشش کررہا ہے کہ امریکہ، بھارت اور افغانستان سہ فریقی دفاعی معاہدہ کرلیں تاکہ پاکستان کو دبایا جاسکے۔ امریکہ نے بھارت کو جس نے اب تک افغانستان میں 3 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کو مزید سرمایہ کاری کرنے کو یہ کہہ کر کہا ہے کہ بھارت امریکہ سے مال کما رہا ہے، وہ افغانستان میں خرچ ہے، امریکی و بھارتی افواج کی آمد سے حقانی گروپ اور دیگر گروپ متحد ہوجائیں گے جبکہ امریکہ القاعدہ، داعش اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔ امریکہ نے اب تک پاکستان میں 420 ڈرون حملے کئے ہیں، اس کے علاوہ ڈرون حملے بھی کئے جائیں گے، اگرچہ اِس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ پاکستان اب امریکی ڈرون حملے روک دے گا۔ یہ غلط پروپیگنڈا ہے اور یہ اسی طرح کا ہے کہ جیسے عراق کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک اچھے دوست سے دشمنی میں بدلنا یہ کاؤبوائے پالیسی کا حصہ ہے کہ ایک مشن کاؤبوائے جاتے ہیں، جیت یا ہار کی صورت میں ایک دوسرے پر طمنچے تان لیتے ہیں۔ یہ بات شرح صد سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ کمانڈروں کو اختیار دے کر جنگ نہیں جیت سکتا۔ پھر وہ سیاسی طور سے بھی مسئلے کا حل کا خواہش مند ہے۔ اس پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ امریکہ نے ویت نام سے پسپائی کے وقت بھی یہی طریقہ استعمال کیا تھا کہ سخت جنگ کا عندیہ دے کر بات چیت کے ذریعے واپسی اختیار کرلی مگر یہاں وہ 9 اڈے بنائے بیٹھا ہے جو پاکستان، ایران، چین اور روس کے لئے خطرہ ہیں۔ لہٰذا اس صورتِ حال کے پیش نظر قوم کو یکجا اور متحد رہنا چاہئے، وہ ہمارے خلاف مخلوط جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے اس پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے مگر یہ سلسلہ جاری رہے گا جس میں ہمیں مستعد رہنے کی ضرورت ہر وقت رہے گی۔