Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

جنوب مشرقی افغانستان میں بڑا امریکی فوجی اڈا بنانے کی تیاری

امریکہ نے افغانستان میں طویل مدت تک قیام کیلئے جنوب مشرقی افغانستان میں ایک بڑے فوجی اڈے کی تعمیر کے لئے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق فوجی مرکز کے لئے تعمیراتی سامان، 208 فوجی گاڑیاں اور 22 میگاواٹ کا بجلی گھر افغانستان پہنچا دیا گیا ہے جبکہ مزید 800 گاڑیاں اور سازوسامان آئندہ دو ماہ میں پہنچا دیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول اس فوجی اڈے کی تعمیر کے بعد بگرام کا امریکی فوجی بیس افغان فضائیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔ دوسری جانب امریکہ کے افغانستان میں طویل قیام کے عزائم سے افغان سیاسی جماعتوں اور قبائلی رہنماؤں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طویل جنگ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی وزارتِ دفاع پنٹاگون نے چین، وسطی ایشیا، روس اور پاکستان پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان میں بگرام کے علاوہ ایک بڑے فوجی اڈے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ ذرائع کے بقول اب اس منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس اڈے میں فوجی بیرکس، فوجیوں کے اہل خانہ کیلئے کالونیاں، اسکول، کالج، اسپتال اور دیگر عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔ یہ فوجی مرکز جنوب مشرقی افغانستان میں تعمیر کیا جارہا ہے، تاہم ابھی تک امریکہ نے اس حوالے سے مقام کی نشاندہی نہیں کی ہے، جبکہ تعمیراتی سامان اور فوجی وہیکلز کی ترسیل کراچی کی بندرگاہ سے شروع ہوگئی ہے۔ افغانستان پہنچنے والے سامان میں 22 میگاواٹ کا بجلی گھر، 208 فوجی گاڑیاں، بھاری مشینری، لوڈرز، بوکلائن، اسکیویٹرز اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکہ اس اڈے پر اپنے 14 ہزار سے زائد فوجیوں کو رکھے گا، جس میں سے 4 ہزار فوجیوں کو آئندہ چند ماہ میں بھیجا جائے گا۔ یہ فوجی فی الحال بگرام، قندھار اور ننگرہار میں قیام کریں گے تاہم جنوب مشرقی افغانستان میں امریکی اڈے کی تعمیر کے بعد انہیں وہاں منتقل کردیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس فوجی اڈے کی تعمیر کے بعد امریکہ ’’تھاڈ‘‘ میزائل سسٹم سمیت دیگر میزائل سسٹم بھی نصب کرے گا اور قوی امکان ہے کہ بگرام فوجی بیس افغان فضائیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق جنوب مشرقی افغانستان میں نئے امریکی فوجی اڈے کی تعمیر پر روس اور چین میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ افغانستان کے سابق جہادی کمانڈرز اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس منصوبے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ امریکہ نیا فوجی مرکز کس قانون کے تحت بنا رہا ہے۔ اسٹرٹیجک معاہدے میں موجودہ اڈوں پر ہی امریکی افواج کو قیام کی اجازت دی گئی تھی۔ اتنے بڑے فوجی مرکز کے مقاصد سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے الجزیرہ کے عربی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں افغانستان میں امریکی موجودگی کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ حکمت یار کا کہنا تھا کہ طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن امریکی فوج کی موجودگی میں بات چیت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کیلئے امریکہ کو انخلا کا اعلان کرنا ہوگا۔ حزب اسلامی کے ایک ترجمان نے امریکی فوج کی جانب سے بڑے فوجی مرکز کے قیام کی غرض سے سامان کی ترسیل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں قیام کیلئے کچھ اور مقاصد رکھتا ہے۔ فوجی اڈے کی تعمیر سے افغانستان مزید تباہی کی طرف چلا جائے گا۔ دوسری جانب افغان طالبان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کچھ اور مقاصد رکھتا ہے اور طالبان کی بات سچ ثابت ہورہی ہے جبکہ افغان مصالحتی کمیشن کے سربراہ استاد کریم خلیلی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے تاہم داعش، القاعدہ اور دیگر تنظیموں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ استاد کریم خلیلی کے مطابق طالبان جہاں پر بھی مذاکرات کرنا چاہیں افغان حکومت تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان سے بھی کہا ہے کہ وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے، تاہم افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ایک بھی امریکی فوجی کی موجودگی میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔ امریکہ کی جانب سے نئے فوجی مرکز کے قیام کے بعد افغانستان میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ادھر ہمسایہ ممالک میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ روس پہلے ہی امریکہ کی جانب سے افغانستان میں ایک بڑے فوجی مرکز کے قیام کے منصوبے کو مسترد کر چکا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی افغانستان میں فوجی اڈے کے قیام کا مقصد روس اور وسط ایشیائی ممالک پر نظر رکھنا ہے۔

مطلقہ خبریں