دسمبر9 1971ء کا دن پاکستان کی بحری حربی تاریخ کا یادگار باب ہے 1971ء کی جنگ میں پاکستان نیوی سب میرین ہنگور کا کارنامہ تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد بھارت موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان پر حملہ کرے۔ لیکن طاقت کے نشے میں شاید وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ اس کا مقابلہ جس فوج سے ہے وہ جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ یہ وہ سال تھا جب مشرقی پاکستان میں سیاسی حالات بگڑتے جارہے تھے۔ بھارت اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے میں مصروف تھا۔ حالات مزید کشیدہ ہوتے جارہے تھے۔ ان حالات میں پاکستان سب میرین فورس اپنی روایات کے مطابق پاکستان کے دفاع کے لئے صف اول میں کھڑی تھی۔ کمانڈر احمد تسنیم ستارۂ جرأت کی کمانڈ میں ہنگور پہلے ہی دشمن کے پانیوں میں موجود تھی۔ اسی دوران سب میرین میں ایک تکنیکی مسئلہ آگیا۔ کمانڈنگ آفیسر اور عملے نے ہمت سے کام لیتے ہوئے مسئلے کا بھرپور سامنا کیا۔ سب میرین میں موجود کوئی بھی شخص واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ اپنی قابلیت اور اللہ کی مدد سے سب میرین کے عملے نے جلد ہی مسئلے پر قابو پا لیا۔
جنگ کے شروع ہونے سے چند دن پہلے ہی مانگرو اور ہنگور نے دشمن کے جہازوں کو کراچی کی طرف بڑھتے ہوئے پکڑا۔ لیکن چونکہ ابھی جنگ شروع نہ ہوئی تھی اس لئے کمانڈنگ آفیسر اور عملے نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شکار کو جانے دیا۔ بالآخر دسمبر 1971ء کو جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور 9 دسمبر کی رات کے آخری پہروں میں ہنگور کی محنت رنگ لے آئی جب اس نے دشمن کے دو جہازوں ْآیَ این ایس خوکری اور ْآیَ این ایس کیرپان کی کچھ فاصلے پر نشاندہی کی۔ ہنگور نے فوری طور پر خود کو جنگی حالت میں ڈھال لیا اور سب میرین پر موجود ہر شخص جنگ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوگیا۔ کمانڈنگ آفیسر اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دشمن کے یہ جہاز خصوصی طور پر انٹی سب میرین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان تمام خطروں کو پس پشت ڈال کر کمانڈنگ آفیسر نے دشمن کے اور قریب جانے کا فیصلہ کیا۔ جان کا خطرہ سامنے نظر آرہا تھا لیکن شجاعت اور بہادری سے بھرپور یہ ملک پاک کے بیٹے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے گئے۔ صحیح وقت پر صحیح نشانہ نہایت مہارت کا کام ہے۔ ہنگور اپنے شکار کی دھاک میں بیٹھی صحیح وقت کا انتظار کرنے لگی اور پھر وہ وقت آگیا جس نے ہنگور کو پاکستان نیوی کی تاریخ میں امر کرنا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار دشمن کے جہاز سب میرین کے تارپیڈو کی کارآمد حدود میں آئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کا سب کو انتظار تھا، تمام عملہ تیار تھا، شکار سامنے تھا۔ 9 دسمبر کی رات کمانڈنگ آفیسر کے منہ سے ’’شوٹ‘‘ کا لفظ نکلتے ہی تارپیڈو سب میرین سے نکل کر اپنے شکار کی جانب بڑھنے لگا۔ ٹھیک چار منٹ بعد ایک مرتبہ پھر ’’شوٹ‘‘ کی کمانڈ گونجی اور دوسرا تارپیڈو پانی میں ڈورنے لگا۔ تارپیڈو نے اپنے متعین ہدف کو حاصل کرلیا اور دھماکے کی آواز سمندر کی لہروں سے ہوتی ہوئی ایک کامیابی کی خبر بن کر ہنگور تک پہنچی جو ہر ایک شخص نے سنی اور بے اختیار اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے۔ تارپیڈو نے شاید جہاز کے اسلحہ خانہ کو نشانہ بنایا تھا۔ جس کے باعث جہاز تین منٹ کے اندر اندر ہی ڈوب گیا۔ یہ خوشی کا لمحہ چند منٹوں کا ہی مہمان تھا جب دوسرے جہاز نے ہنگور کو ڈھونڈ لیا اور اپنی پوری رفتار سے حملہ کرنے کے لئے بڑھنے لگا۔ اسی دوران ہنگور نے تیسرا تارپیڈو فائر کیا جس نے آگے بڑھتے ہوئے دشمن کے جہاز کو نشانہ بنایا اور وہ جہاز اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگا لیکن تارپیڈو سے خود کو نہ بچا سکا اور جہاز کو بُری طرح نقصان پہنچا اور یہ جہاز دوبارہ جنگ میں شامل نہ ہوسکا۔ اس کامیاب حملے کے بعد دشمن نے اپنی ساری طاقت کے ساتھ ہنگور کی تلاش شروع کردی۔ اس حملے کے بعد دشمن کے پاس ہنگور کی پوزیشن موجود تھی۔ یہ وقت سب میرین کے عملے کی ہمت اور بہادری کا امتحان تھا۔ اس سب میرین پر موجود ہر شخص جانتا تھا کہ موت کا ایک دن معین ہے لیکن موت ایسی ہو کہ دشمن کو نیست و نابود کرنے کے بعد آئے اور ہنگور نے اپنا حق ادا کردیا تھا۔ اس عظیم کارنامے کے اعتراف میں ہنگور کو 4 ستارۂ جرأت، 6 تمغہ جرأت اور 14 امتیازی اسناد سے نوازا گیا۔ آج بھی 9 دسمبر کے دن کو ہنگور کے اس کارنامے کی وجہ سے ہنگور ڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہنگور کے غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
جب سب میرین ہنگور نے دشمن کے چکھے چھڑائے
اعتزاز خالد