کالعدم دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کا مقصد مطالبات کی منظوری نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے شہریوں کو نشانہ بنانا ہے، ایسے ہی اہداف امریکا اور بھارت کے ہیں، اِس لئے تحقیقاتی اِداروں کو محض دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے ہر پہلو ذہن میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ دہشت گردانہ حملوں کے پسِ پردہ اصل مقاصد کیا ہے؟
حمید اللہ بھٹی
ہمسایہ ملک چین کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے، سی پیک معاہدے کے بعد نشانہ بنانے کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا ہے کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے حکومتی رَٹ نہ ہونے کے برابر ہے، اسی لئے وطن دشمن عناصر ایک بار پھر منظم ہو کر تخریبی سرگرمیوں کو تیز کرچکے ہیں، مگر جب مقتدر حلقوں کو بخوبی معلوم ہے کہ بھارت اور امریکا سی پیک معاہدے کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اِس طرح ہونے والی بھاری سرمایہ کاری سے ناصرف پاکستان اور چین مزید قریب آئے ہیں بلکہ خطے میں چینی رسوخ میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر چین دشمن ممالک خفا اور سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے ہر حربہ آزما سکتے ہیں تو چاہئے تو یہ تھا کہ اِن حالات میں چینی شہریوں کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات کئے جاتے نیز جو اِس کام کے لئے نئے اِدارے تشکیل دیئے گئے ہیں ناصرف اُن کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی بلکہ استعدادکار میں اضافہ کیا جاتا، وائے افسوس کہ ایسا نہیں ہوا جس کی بنا پر دشمن کو دونوں ممالک کے تعلقات پر کاری وار کرنے کا موقع ملنے لگا ہے، پاکستان کی کمزور معیشت کی بحالی کے لئے چینی سرمایہ کاری کا تسلسل اشد ضروری ہے، اِس لئے مقتدر اِداروں کو چاہئے کہ دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور چین کے تعاون سے جاری منصوبوں پر کام کرنے والے ہنر مندوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے وگرنہ سی پیک کو نقصان کے ساتھ دونوں ممالک کے قریبی تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
26 اپریل کی سہ پہر کراچی یونیورسٹی کیمپس کے اندر کئے جانے والے خودکش حملے کو ہمہ گیر پہلوؤں سے دیکھنا اور پھر اپنی خامیوں اور دشمن کی سازشوں پر پوری سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد تدارک کرنے میں ہی ملک کا مفاد ہے، اگر اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو قومی سلامتی کے ساتھ ہموار ترقی کی منزل متاثر ہوسکتی ہے، یونیورسٹی کے اندر تربت سے تعلق رکھنے والی ایم فل کی طالبہ شاری حیات بلوچ نے اسی یونیورسٹی میں 2013ء میں چین کی سی چوان یونیورسٹی کے تعاون سے قائم ہونے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبران کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا، یہ شعبہ چینی زبان کے مختلف کورس کراتا ہے، اِس شعبے کے قیام میں ڈاکٹر ہونگ گیو پنگ کا کلیدی کردار ہے، دہشت گردانہ حملے کے دوران ڈاکٹر ہونگ اپنے ملک کے دیگر دو شہریوں اور مقامی ڈرائیور کے ساتھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے ذیلی ونگ مجید بریگیڈ نے سوشل میڈیا کو جاری ایک خط کے ذریعے قبول کرلی ہے، اِس میں شائبہ نہیں رہا کہ حملے کا ہدف 16 نشستوں والی گاڑی ہی تھی جس کا خاتون نے انتظار کیا اور پھر مناسب موقع دیکھ کر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا لیکن یہاں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ گاڑی کے ساتھ رینجرز کے جو حفاظتی اہلکار تھے وہ کِن مصروفیات میں گم تھے کہ خطرے کا بروقت ادراک اور توڑ کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے؟ پاکستان کو جن نازک حالات کا سامنا ہے اِن میں ایسی کوتاہی کسی صورت نظرانداز کرنے اور معافی کی گنجائش نہیں، امید ہے کہ خاتون خودکش بمبار کے بارے جاری تحقیقات میں کسی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔
جون 2020ء میں کالعدم تنظیم بی ایل اے نے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا، یہی تنظیم جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کی بھی ذمہ دار ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں چینی قونصلیٹ پر بھی نومبر 2018ء میں حملہ کیا گیا، اگر تینوں حملوں پر غور کیا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیم کا مقصد مطالبات کی منظوری نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے شہریوں کو نشانہ بنانا ہے، ایسے ہی اہداف امریکا اور بھارت کے ہیں، اِس لئے تحقیقاتی اِداروں کو محض دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے ہر پہلو ذہن میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ دہشت گردانہ حملوں کے پسِ پردہ اصل مقاصد کیا ہے؟ اگر اِس سوال کا جواب حاصل کرلیا گیا تو ناصرف دہشت گردانہ حملوں کو روکا جاسکتا ہے بلکہ سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی بے نقاب کرنا آسان ہوجائے گا، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بلوچستان میں دہشت گردی اور دخل اندازی کی سرپرستی کا اعتراف کرچکے ہیں، پاکستان نے ڈوزئیر کی صورت میں بھارتی تخریبی سرگرمیوں کے ثبوت اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اِداروں کو فراہم کئے مگر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اِس لئے اب یہ سیکیورٹی اِداروں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اُن کی تخریبی سرگرمیوں کا دندان شکن جواب دیں۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ چینی شہری دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، گوادر سے لے کر ڈیم بنانے میں مصروف انجینئروں تک پر حملے کئے جا چکے ہیں، اسی لئے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کے مقاصد میں حقوق وغیرہ نہیں کچھ اور ہیں، یہ تنظیمیں دشمن طاقتوں کی ایما پر ملک کو معاشی ترقی سے روکنا چاہتی ہیں۔ ظاہر ہے اسی لئے فہمیدہ حلقے اِس جانب اِشارہ کرتے ہیں کہ ملک میں جاری بدامنی کی حالیہ لہر کے پسِ پردہ اندرونی سے زیادہ بیرونی ہاتھ ہے کیونکہ اگر مسئلہ حقوق یا لاپتہ افراد کی بازیابی تک محدود ہوتا تو گزشتہ چند برس میں اِس حوالے سے کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے قابلِ قدر منصوبوں پر کام جاری ہے، نیز اعلیٰ ملازمتوں میں بھی عام بلوچوں کا حصہ بڑھایا جا چکا ہے، حالانکہ چند ایک بلوچ سردار اب بھی ملازمتوں کی تقسیم میں شفافیت کی بجائے کوٹہ کی صورت بھرتی پر مُصر ہیں، لیکن قومی قیادت کو میرٹ کی پاسداری پر مصلحت پر رضامند نہیں کیا جاسکا مگر آغا حسن بلوچ جیسے رزیل وزارت کا حلف اُٹھاتے ہوئے سینے پر آزاد بلوچستان کا جھنڈا لگا کر قومی قیادت کی حب الوطنی کا مذاق اُڑاتے ہیں، ایسے لوگوں سے نرمی سے تخریب کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے حالانکہ اصل مسئلہ لاپتہ افراد کی بڑی تعداد منظرِ عام پر آنے سے حل ہوگیا ہے، اب وہی لاپتہ ہیں جو یا تو ملک سے فرار ہوچکے ہیں یا پھر پہاڑوں کی طرف چلے گئے ہیں، اسی لئے آجا کر اسی نُکتے کی طرف دھیان جاتا ہے کہ حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی نہیں کالعدم تنظیم کا ہدف ملک کی معیشت ہے اور وہ سرمایہ کاری کرنے والے دوست ملک کو سرمایہ کاری سے باز رکھنا چاہتی ہے جسے آغا حسن بلوچ جیسے لوگ شہ دے رہے ہیں، ایسے لوگوں سے اب نرمی کی گنجائش نہیں۔
جامعہ کراچی پر حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے کے آرزومند ہیں تاکہ چین کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں سی پیک کے منصوبوں کی رفتار بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے، اِس لئے اِس امکان کو رَد کرنا مشکل ہے کہ حملے کا مقصد اقتدار کی تبدیلی کے بعد پاک چین دوستی میں مزید قربت اور گرم جوشی کے امکانات کم کرنا ہے، ملکی اِداروں کا اولیں فرض ہے کہ شرپسند عناصر اور اُن کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے عزائم بے نقاب کرنے کے ساتھ جامع اور نتیجہ خیز کارروائی کریں، اگر اِس سمت پیش رفت ہوتی ہے تو مستقبل میں بیرونی طاقتوں کو قومی وجود میں نقب لگانے کے راستے مسدود کئے جاسکتے ہیں، حالیہ حملے پر چینی سفارت خانے کے ساتھ حکومت نے بھی اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کو سنجیدہ لے کر فول پروف حفاظت کا مطالبہ کیا ہے، اب یہ اِداروں پر منحصر ہے کہ وہ فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی یا سستی کا شکار ہو کر دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں خاموش رہتے ہیں یا سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کی مذموم چالیں ناکام بناتے ہیں، اگر سرعت سے جوابی کارروائی کرنے کی بجائے خاموش رہتے ہیں تو ناصرف دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بھی غیرہموار ہوسکتی ہے۔