اگر دیکھا جائے تو تیجاس کا انجن امریکی، ایوونکس ریڈار اسرائیلی اور ہتھیار فرانسیسی اور روسی ساختہ ہیں لہٰذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ طیارہ بھارتی کیسے ہوگیا؟ اس کا ایئر فریم تک فرنچ کمپنی نے بنایا ہے، اس کے باوجود اس جہاز کو لے کر بھارت کی اتنی خوش فہمی سمجھ سے باہر ہے، کسی بھی جنگی طیارے کیلئے سب سے اہم چیز اس کی برآمد اور اس کے متوقع خریدار ہوتے ہیں
جویریہ صدیق
بھارتی ایئرفورس کافی عرصے سے مشکلات کا شکار ہے، بھارتی راج نیتی، دفاعی معاہدوں میں کرپشن اور پروفیشنلزم کا فقدان ان مشکلات کے بڑے عوامل ہیں۔ دفاعی معاہدوں میں کرپشن اس قدر زیادہ ہے کہ ناکارہ اور ایسے جہاز اڑانے کے لئے پائلٹوں کو دیئے جاتے ہیں جو مختلف فنی خرابیوں کا شکار ہونے کے باعث دورانِ پرواز کریش کر جاتے ہیں۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر ”تیجاس سموسہ“ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کررہا ہے۔ مگ طیاروں کے پے درپے حادثات کے بعد بھارتی فضائیہ کو اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ نئے طیارے فضائی بیڑے میں شامل ہوں، تیجاس اسی مقصد کے لئے حاصل کئے گئے ہیں، تاہم ان کا ڈیزائن کچھ عجیب سا ہے اور اسی وجہ سے اکثر سوشل میڈیا صارفین ان طیاروں کو ”سموسے“ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ مجھ سمیت کچھ لوگ اس کو ”اڑتی چمگادڑ“ قرار دیتے ہیں۔ یہ طیارہ ناصرف بدصورت ہے بلکہ تکنیکی طور پر بھی بہت سی خامیوں کا شکار ہے۔
گزشتہ سال بھارتی لوک سبھا کے دو ممبران نے بھارتی فضائیہ کے حکام سے ایک سوال پوچھا، جس کا سرکاری سطح پر 18 مارچ 2020ء کو جواب دیا گیا۔ سوال تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں بھارتی ایئرفورس کے کتنے طیارے کریش ہوئے ہیں؟ واضح رہے کہ بھارتی فضائیہ کے طیارے مسلسل حادثات کا شکار ہو کر تباہ ہورہے ہیں اور اکثر پائلٹ بھی ان حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 27 فروری 2019ء کو پاک بھارت فضائی معرکے میں پاک ایئرفورس کے شاہینوں نے بھارت کے دوجیٹ تباہ کرئے تھے اور اسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ایک جنگی ہیلی کاپٹر بھی کریش کر گیا تھا۔ اس کے بعد سے بھارتی عوام اور ایئرفورس میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے اور بھارتی حکومت پر دباؤ ہے کہ نئے طیارے بھارتی ایئرفورس کا حسہ بنائے جائیں۔ لوک سبھا ممبران کے سوال کے جواب میں جو ڈیٹا سرکار کی جانب سے پیش کیا گیا اس کے مطابق اگر بھارت میں ہونے والے انڈین ایئرفورس کے فائٹر جیٹس کے حادثات کا جائزہ لیں تو 2016ء سے 2017ء کے دوران تین مگ، ایک ایس یو تھرٹی اور دو جیگوار طیارے تباہ ہوئے۔ 2017ء سے 2018ء کے دوران ایک مگ اور ایک ایس یو تھرٹی کریش ہوا۔ 2018ء سے 2019ء کے دوران سب سے زیادہ مگ طیاروں کے حادثات پیش آئے اور پانچ مگ تباہ ہوئے، اس کے علاوہ دو جیگوار اور ایک ایس یو تھرٹی کو بھی حادثہ پیش آیا۔ کل ملا کر تین سالوں میں 17 لڑاکا طیارے حادثات کا شکار ہوئے، ان کے علاوہ چار جنگی ہیلی کاپٹر، دو ٹرانسپورٹ فلیٹ اور پانچ ٹرینی طیارے بھی حادثات کا شکار ہو کر تباہ ہوئے، ان حادثات میں مالی کے علاوہ جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ بھارت کے مگ طیاروں کو ”اڑتے ہوئے تابوت“ کہا جاتا ہے کیونکہ روسی ساختہ مگ طیاروں کے حادثات میں اب تک 170 بھارتی پائلٹس ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس پر عامر خان نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں مگ چیاروں کے کریش اور ان کے سودے میں ہونے والی کرپشن کو اُجاگر کیا گیا تھا۔ 2003ء سے 2013ء تک 38 مگ طیارے کریش ہوئے۔ 2021ء کا جائزہ لیں تو اس سال کے آغاز میں ہی 6 جنوری کو ایک مگ کریش ہوا، پھر 17 مارچ کو، پھر 21 مئی، اس کے بعد 25 اگست کو ایک مگ گر کر تباہ ہوا۔ اکثر انکوائری کے بعد پائلٹ کو حادثے کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے، اس پر کئی پائلٹوں کے لواحقین نے احتجاج بھی کیا کہ کس طرح ایک ایسے طیارے کے حادثے پر پائلٹ کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے جو مسلسل کریش ہورہا ہے؟
بھارتی حکومت نے اسی باعث فرانس سے رافیل طیارے لئے لیکن رافیل بھی انڈین ایئرفورس کی استعدادِکار میں اضافہ نہیں کرسکے کیونکہ بھارتیوں کو اس کوآپریشنل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف تیجاس طیاروں کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر جس طیارے کو، اس کی بناوٹ کے سبب ”سموسہ“ کہا جارہا ہے، ایک سنگل انجن کم وزن جنگی جہاز ہے۔ اس جہاز کو بھارت کی ایئروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی اور ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹڈ نے تیار کیا ہے۔ اس پر تین دہائیاں پہلے کام شروع ہوا تھا اور 2015ء میں پہلا جہاز بھارتی ایئرفورس کے حوالے کیا گیا، یعنی اس جہاز کو تیار کرنے میں بھارت کو 32 سال لگے۔ ہندوستانی ایئرفورس کا 45 اسکواڈرن اس کو استعمال کررہا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس 22 تیجاس ہیں جبکہ 83 مزید طیاروں کا آرڈر دے رکھا ہے۔ یہ بھی مودی سرکار کے دباؤ کی وجہ سے ہوا کیونکہ تیجاس اتنے کارآمد طیارے نہیں ہیں۔
یہاں پر یہ بات واضح ہے کہ تیجاس اور جے ایف 17 تھنڈر کا کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ جے ایف 17 ایک دہائی سے آپریشنل ہے اور کوہیٹ کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ میانمار اور نائیجیریا اس کو خرید چکے ہیں اور یہ طیارے اب ان کی ایئرفورس کا حصہ ہیں۔ جے ایف 17 تھنڈر نے دہشت گردی کے خلاف میں جنگ میں حصہ لیا جبکہ 27 فروری کے آپریشن سویفٹ ریٹوٹ میں بھی یہ حصہ لے چکے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ملٹی رول کوہیٹ ایئرکرافٹ ہے۔ ایئر ٹوسی، ایئر ٹوایئر اور ایئر ٹولینڈ جے ایف 17 تھنڈر کی صلاحیتیں سب کے سامنے ہیں۔ دبئی میں ایئرشو جاری ہے، جس میں بھارت اپنے چار تیجاس طیاروں کے ساتھ شریک ہے اور پاکستان اپنے سپر مشاق طیاروں کے ساتھ اس میں شرکت کررہا ہے۔ پاکستان کے سپرمشاق کے خریداروں میں زمبابوے، ترکی، ایران، نائیجیریا، قطر، عراق اور آذربائیجان شامل ہیں۔ ترکی نے بھی اس حوالے سے 50 طیاروں کا آرڈر دیا ہے۔ یہ طیارے پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس میں تیار ہوتے ہیں اور ان طیاروں کی خریداری میں بہت سے ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان ایئرفورس کے عملے نے خیرسگالی کے طور پر دبئی ایئرشو میں انڈین تیجاس کا معائنہ کیا جس کو انڈین میڈیا نے غیرضروری طور پر ایشو بنا کر پیش کیا۔ پاکستان کے پاس ایف 16، جے ایف 17 تھنڈر اور میراج جیسے آزمودہ طیارے موجود ہیں اور اب پاکستان جلد J-10 سی طیارے بھی چین سے خریدے گا، ایسے میں تیجاس جیسے کمتر جہاز کو پاکستان کیوں اہمیت دینے لگا؟ دفاعی شوز ہوں یا نمائش، شرکا ایک دوسرے کے جہاز کا معائنہ کرتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ اس میں کوئی شبہے والی بات نہیں کہ تیجاس نسبتاً کمتر جہاز ہیں۔ پاکستان اسٹرٹیجک فورم کے مطابق دبئی ایئرشو میں شریک جہازوں نے فارمیشن میں ڈیمو نہیں دیا، صرف سولو فلائی کیا۔ انہیں فضا سے فضا اور نہ ہی فضا سے زمین یا سمندر میں ٹیسٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایکسٹرنل فیول ٹینک لگے ہوئے ہیں۔ رانا صہیب ایک پاکستانی فوٹوگرافر ہیں، جو دبئی ایئرشو کو کور کررہے ہیں، انہوں نے تیجاس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی، جس پر کئی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اس جہاز کا مذاق اڑانا شروع کردیا جس پر بھارتی میڈیا سیخ پا ہوگیا۔
اگر دیکھا جائے تو تیجاس کا انجن امریکی، ایوونکس ریڈار اسرائیلی اور ہتھیار فرانسیسی اور روسی ساختہ ہیں، لہٰذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ طیارہ بھارتی کیسے ہوگیا؟ اس کا ایئر فریم تک فرنچ کمپنی نے بنایا ہے۔ اس کے باوجود اس جہاز کو لے کر بھارت کی اتنی خوش فہمی سمجھ سے باہر ہے۔ کسی بھی جنگی طیارے کے لئے سب سے اہم چیز اس کی برآمد اور اس کے متوقع خریدار ہوتے ہیں۔ بھارت کیسے اس کو دُنیا کو بیچ سکتا ہے کیونکہ جن ممالک کی ٹیکنالوجی اس میں استعمال ہوئی ہے، وہ اس کو کسی اور ملک کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ابھی تک مارکیٹ میں تیجاس کا کوئی خریدار بھی موجود نہیں ہے، نہ ہی یہ کوہیٹ میں آزمایا گیا ہے۔ 27 فروری کو بھی بھارت نے تیجاس کا استعمال نہیں کیا تھا۔ عالمی ایوی ایشن ماہرین کے مطابق تیجاس میں بہت سی خامیاں ہیں، نیز یہ نان اسٹیلتھ 4 جنریشن فائٹر ہے جبکہ دُنیا اس وقت 4.5 اور 5 جنریشن طیاروں کی طرف گامزن ہے۔ اگر تیجاس دس، پندرہ سال قبل آتے تو شاید ان کی کچھ افادیت ہوتی لیکن اس کی تیاری اور سروس میں شمولیت اب لیٹ ہوگئی ہے، دُنیا ٹیکنالوجی میں بہت آگے چلی گئی۔ دوسری طرف رافیل کے معاہدوں میں جتنے گھپلے سامنے آ رہے ہیں، ان پر سب زبانیں گنگ ہیں۔ تیجاس میں کتنی کرپشن ہوئی ہے، جلد ہی یہ بھی پتا چل جائے گا۔