Thursday, July 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تیئیس مارچ 2018ء اور ہم

میر افسر امان

تیئیس مارچ ہے ہاں وہی 23 مارچ 1940ء جو تاریخ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت قائداعظم ؒ کی ولولہ انگیز انتھک قیادت میں لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں قرارداد مقاصد پاس ہوئی تھی۔ جس نے مسلمانانِ برصغیر کو ایک صراط مستْقیم بتا دی تھی، یعنی سیدھے راستے پر چلنے کا راستہ۔ وہ سیدھا راستہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے۔ اس کا اپنا مقصد حیات ہے۔ اس کی اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور کلچر ہے۔ وہ اس مقصد زندگی پر آزادانہ چلنے کے لئے پاکستان کی مانگ کر رہی ہے۔ یہ وہ مانگ ہے جو شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال ؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جو اس کا بنیادی حق ہے۔ اس وقت ایک سوال یہ بھی تھا مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔ اس ہزار سال میں برصغیر میں ہندوؤں کی کوئی بھی حکومت نہیں۔ مسلمانوں کو حکومت چلانے کا ہزار سالہ تجربہ تھا جبکہ ہندو اس سے نابلد تھے۔ انگریز نے برصغیر میں ہندوؤں سے حکومت چھینی تھی یا مسلمانوں سے۔ اس لئے پاکستان کی مانگ ایک حقیقی مانگ تھی۔ مگر برصغیر کی بڑی آبادی ہندوؤں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی اور کہا کہ ہندوستان میں ایک ہی قوم رہتی ہے اور قومیں وطن سے بنتی ہیں لہٰذا قائداعظم ؒ کی علیحدہ ملک کی مانگ کا خیال درست نہیں۔ اس پر کافی بحث ہوتی رہی۔ اللہ بھلا کرے مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ کا کہ جس نے مسئلہ قومیت لکھ کر قائداعظمؒ کی آل انڈیا مسلم لیگ کی مدد کی۔ مولانا نے ثابت کیا کہ قومیں وطن سے نہیں نظریات سے بنتی ہیں۔ جیسے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ؂
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیؐ
پہلے پہل قائداعظمؒ کانگریس میں شامل تھے۔ پھر تنگ نظر ہندوؤں کو قائداعظمؒ کانگریس میں رہ کر صحیح طرح سے سمجھ گئے تھے۔ لہٰذا اُن کی ہر چال کا بروقت توڑ کر کیا۔ پاکستان کلمے کی بنیاد پر حاصل کرلیا گیا۔ مسلمانان برصغیر نے ایک نعرہ مستانہ لگایا کہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الہ الااللہ‘‘۔ لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ جب یہ نعرہ قائداعظم ؒ کی دلیلوں کے زور کے ساتھ عام ہوگیا۔ تو اس کے سامنے ہندو اور انگریز حکمراں سرنگوں ہوگئے۔ اور دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان قائم ہوگئی۔
صاحبو! جس سیدھے جمہوری راستے پر چل کر بانی پاکستان نے، پاکستان حاصل کیا تھا۔ اسی سیدھے راستے پر چل کر ہی پاکستان کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے تھے۔ قائداعظم ؒ نے اس کی بنیاد بھی رکھ دی تھی۔ اس کی روداد کچھ اس طرح ہے۔ وقت ٹی وی کے پروگرام میں اینکر پرسن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) سربراہ تنظیم اسلامی نے جنگ اخبار میں ریاض علی شاہ جوکہ قائداعظم کے معالج تھے کی ڈائری کے حوالے سے کہا کہ موت کے آخری دنوں میں قائداعظم ؒ بیماری سے بہت کمزور ہوچکے تھے اور زبان پر کچھ آتا تھا۔ مگر بول نہیں سکتے تھے ہم نے اُن کو دوائی دی کہ کچھ نہ کچھ گفتگو کرلیں ورنہ جو کچھ بھی بولنا چاہتے ہیں وہ بول لیں کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے اور رہ جائے گی تو قومی نقصان ہوگا۔ ہم نے قائداعظم کو اس مقصد کے لئے داوئی دی اس کے استعمال کے بعد جو قائداعظم ؒ نے جو جملے کہے وہ یہ ہیں جو اخبار جنگ کی 11 ستمبر 1988ء کی اشاعتِ قائداعظم ؒ کی چالیسویں برسی کے موقع پر مضمون شائع ہوا تھا میں بیان کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ کے حوالے سے قائداعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الٰہی بخش کی موجودگی میں قائداعظم ؒ نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا ’’آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہوگیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کرسکتا تھا جب تک رسولؐ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا۔ اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدینؓ کا نظام قائم کریں۔‘‘ مگر قائداعظم ؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور جلد اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ اس قبل جن کو قائداعظم ؒ نے ایک موقع پر کھوٹے سکے کہا تھا وہ واقعی کھوٹے سکے ثابت ہوئے۔ اور وہ صراط مستقیم گم کردی گئی۔ اس میں وہ تمام اسلام پاکستان مخالف عناصر شامل ہوگئے تھے۔ جو تحریک پاکستان کے دوران دھوکے سے مسلمانوں کے بناوٹی لیڈر بن گئے تھے۔ قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد کھل کر سامنے آ گئے۔ کبھی کہا پاکستان مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھارنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ کیونکہ ہندو برصغیر کی تجارت پر قابض تھے اور کبھی کہا گیا کہ سیکولرزم کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا وغیرہ۔ جھوٹ موٹ سے قائداعظم ؒ کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زرو لگا دیا اور پاکستان کی سیدھی راہ کو گم کرنے کی کوشش کی جو کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ پاکستان کی عوام نے انتھک کوشش کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔ اگر اندرون ملک معاش نہ مل سکی تو دنیا کے ملکوں میں جا پہنچے اور کثیر زرمبادلہ کما کر پاکستان بھیجا۔ جس سے پاکستان نے ترقی کی۔ پاکستان کی مسلح افواج نے بھی ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہر مشکل اور قدرتی آفات کے موقع پر عوام کی خدمت کی شامل ہوئے وہ سیلاب ہو یا زلزلہ ہو۔ فوجیوں کی فلاح بہبود کے لئے لاتعداد ادارے قائم کئے، جو آج بھی مسلح افواج کے ریٹائرڈ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سائنسدانوں نے کم وسائل اور دشمن قوتوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں اعلانیہ ایٹمی قوت بنا دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے چین کی مدد سے خود تھنڈر لڑاکا جہاز تیار کیے جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے پھر اس ملک پاکستان میں غوری میزائل بنا پھر شاہین میزائل کی سیریز حتف ون حتف ٹو اور پھر یہ سلسلہ جاری ہوگیا۔ سائنسدانوں نے ملک کو ناقابل شکست بنا دیا۔ ہر 23 مارچ کو پاکستان اپنی قوت کا مظاہرہ میں اس تمام اسلحے کی نمائش کرتا تھا اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھتا تھا۔ پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظر بد لگ گئی اور امریکا نے افغانستان پر حملے کے لئے ہماری بزدل کمانڈو کو ڈرا کر اس کو کہا یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے ساتھ ہو۔ ایک چیز کا فیصلہ کرو ورنہ ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے، بزدل کمانڈر نے نہ اپنی فوج اور نہ ہی اپنی قوم سے مشورہ کیا اور لاجسٹک سپورٹ کے بہانے ملک کی بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور سرحدیں امریکا کے حوالے کردیں۔ پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ سے 48 ملکوں کی نیٹو فوج نے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ پھر ملک میں سے 600 سے زائد مسلمانوں کو امریکا سے ڈالر کے عوض فروخت کردیا۔ لال مسجد اور اسلام کی بچیوں کے مدرسے حفصہ پر فوج سے حملہ کروا کر اسے فاسفورس گیس سے جلا ڈالا۔ پاکستان کے ہمدرد بلوچستان کے نواب اکبر بگٹی کو اعلانیہ میزائل سے ہٹ کر کے شہید کردیا۔ یہ تمام لوگ پاکستان کی افواج کے خلاف ہوگئے۔ اُس وقت افغانستان کے طالبان کہتے تھے پاکستان نے نیٹو فوج کے ساتھ مل کر ہمارے ملک پر جنگ مسلط کی ہے اور پاکستان نے ان ساتھ دیا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے ساتھ ہم نیٹو کی طرح حالت جنگ میں ہیں۔ ہم نیٹو کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ اس دوران افغان طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس کے جنرل ہیڈ کوارٹر، دفاہی ادروں، تفتیشی اداروں، پولیس ہیڈ کوارٹر غرض ہر جگہ دفاعی اداروں کو نشانہ بنا دیا۔ ہمارے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس کے ساتھ امریکا کے بنائے ہوئے کچھ پاکستانی جعلی پاکستانی طالبان کے ذریعے اسکولوں، بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں اور مزاروں کو نشانہ بنایا تاکہ عام پاکستانی کو سب طالبان کا مخالف بنا دے۔ اُدھر بھارت نے پاکستان کو 70 فیصد ریونیو دینے والے منی پاکستان کراچی میں اپنے ایجنٹ الطاف حسین کے ذریعے ڈسٹرب کئے رکھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی قوم کی مدد اور فوج کے آپریشن کے ذریعے کراچی اور پاکستان سے دشمنوں کی جاری کردہ دہشت گردی ختم ہوئی۔ پاکستان اب امریکا کی ڈومور کی فرمائش ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اب پاکستان دہشت گردی کے نقصان کی امریکا اور دنیا سے جائز حمایت کی بات کرتا ہے۔ ان حالات میں کئی سالوں سے سیکورٹی کی وجہ سے ہم 23 مارچ کی پریڈ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ غیرملکی جاسوسوں اور ایجنٹوں کی پاکستان میں بھرمار کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو بھی نقصان ہوسکتا ہے، ہمارے ملک کا 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہمارے 70 ہزار سے زائد شہری شہید ہوچکے جس میں فوج کے افسران اور سپاہی شامل ہیں۔ ہماری افغانستان سے ملحقہ مغربی سرحد غیرمحفوظ ہوچکی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت چھیڑ چھاڑ کررہا ہے۔ طالبان کے پانچ سال میں ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی۔ اب امریکا اور بھارت کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں فوج لگانی پڑھ رہی ہے۔ 23 مارچ یوم پاکستان پر، مقتدر حلقوں سے پاکستانی قوم کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں پرانا والا پاکستان لوٹا دو۔ قوم کو امریکی ڈالر نہیں چاہئے۔ امریکا سے پاکستانی عوام کو نفرت ہے۔ ملک کو پرائی جنگ سے باہر نکالو۔ تاکہ ہم آزادی سے اپنے فیصلے خود کرسکیں اور ملک ترقی کرے۔ ہم پچھلے سال کی طرح اس سال بھی، 23 مارچ 2018ء کے موقع پر اپنی شان و شوکت والی فوجی پریڈ کو دیکھ سکیں اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت اور میزائل کا مظاہرہ دیکھ سکیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

مطلقہ خبریں