Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

توشہ خانہ۔۔ اصل کہانی کیا ہے؟

محمد طارق خان
عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو ناصرف توشہ خانے سے رعایتی دام پر تحفے لینے کو غلط بتایا کرتے تھے بلکہ اپنے بھاشن میں اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف تحفے لینے کے الزامات کی تحقیقات کے حوالے دیتے اور اسرائیلی نظام انصاف کی اس حوالے سے تعریف کرتے کہ وہ ایک وزیراعظم کے خلاف بھی تحفے ہڑپ کر جانے کی تحقیق کرتا ہے۔ عمران خان جب حکومت میں آئے تو آصف علی زرداری اور نواز شریف کے خلاف مہنگے تحائف توشہ خانہ سے کم قیمت پر خریدنے کے الزام میں نیب کے ذریعے مقدمات بنوائے، ان مقدمات میں یہ دونوں طویل عرصہ تک پیشیاں بھی بھگتے رہے اور ضمانتیں بھی کروائیں۔ اب خود پر بات آئی ہے تو عذر لنگ تراشے جا رہے ہیں، ایک طرف کہتے ہیں عمران خان کو کسی تحفہ کے بیچنے کی ضرورت ہی نہیں اس کا تو ایک آٹو گراف اس کے پرستار کروڑوں میں خرید لیتے ہیں، تو دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ یہ تحفے عمران خان کو ملے تھے، توشہ خانہ میں جمع کرائے اور پھر قانون کے مطابق خرید کر بیچ دیئے کون سا جرم کیا ہے؟ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تحفے عمران خان کو نہیں وزیراعظم پاکستان کو ملے تھے۔ قوانین کے مطابق وزیراعظم ایسے تحائف توشہ خانہ میں جمع کروانے کا پابند ہے، البتہ جمع کروانے کے بعد اگر وہ چاہے تو رعایتی نرخ پر خرید سکتا ہے، مگر یہ رعایتی نرخ ایسا نہ ہو کہ جس سے قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچے، لہٰذا ایک عمومی اصول کے مطابق 50 فیصد تک رعایت دی جا سکتی ہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تحفے مفت نہیں ملتے، ہر وصول شدہ تحفے کے بدلے حکومت پاکستان بھی غیرملکی مہمانان کو تحفے تحائف دیتی ہے، اس لئے ایسے تحائف کا اخلاقی تقاضا یہ ہے آپ وہی تحفہ توشہ خانہ سے خریدیں جسے آپ رکھنا چاہتے ہوں، نہ کہ ان تحائف کی بے توقیری کرتے ہوئے انہیں بیچ کر پیسے بنانے کا دھندہ شروع کردیں۔ اس ضمن میں مزید عرض ہے کہ عمران خان کا جرم وہی ہے جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کارروائی کا وہ خود حوالہ دیتے تھے، یہ وہی جرم ہے جس پر عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے مقدمات میں فٹ کروا دیا تھا تاکہ ان کے خلاف کرپشن کے بیانیہ کو تقویت ملے۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان کے اپنے بیان کے مطابق ان کا تو بطور وزیراعظم ملنے والی لاکھوں روپے تنخواہ میں گزارہ ہی نہیں ہوتا اور مبینہ طور پر ان کے گھر کا خرچہ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسی اے ٹی ایمز چلاتی رہی ہیں یا پھر شوکت خانم کے زکوٰۃ کے پیسوں سے چلتا رہا ہے، تو پھر عمران خان کے پاس اتنے قیمتی تحفے خریدنے کے لئے کروڑوں روپے کہاں سے آئے؟۔ کیا یہ کسی تیسری پارٹی سے سرمایہ کاری کروائی گئی تھی کہ تحفہ بیچ کر سود سمیت ادا کردیں گے اور خود بھی کمائیں گے؟ تیسری بات اگر آپ نے جائز ذرائع آمدن سے یہ تحائف خریدے تو ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیوں نہ کئے؟ کیا اس طرح آپ نے ٹیکس چوری اور آمدن چھپانے کا جرم نہیں کیا؟ اور چوتھی بات کہ جب تک آپ بطور وزیراعظم حکومت میں تھے توشہ خانے کا ریکارڈ کیوں نہیں کھول رہے تھے؟ اگر یہ کوئی جرم تھا ہی نہیں تو پردہ پوشی کس بات کی تھی؟ کیا اب دوست ممالک میں بدنامی اور جگ ہنسائی نہیں ہورہی؟۔ اب تک ملنے والی اطلاع کے مطابق عمران خان کو بطور وزیراعظم 58 مختلف مواقع پر 100 سے زائد تحائف ملے جن میں سے بعض تو سرکاری خزانے میں جمع ہی نہیں کروائے گئے، یہ بذات خود ایک جرم ہے اور پھر جو تحائف جمع کروائے گے انہیں 20 فیصد تک کی قلیل رقم کے عوض خریدا گیا، ایسا کرنا خواہ قانونی جرم نہ ہو مگر حب الوطنی اور ریاستِ مدینہ کا درس دینے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سرکاری خزانے کو اس بے دردی سے لوٹیں۔ آخری بات اخلاقی طور پر کسی کا دیا ہوا تحفہ، خواہ آپ نے توشہ خانے سے قانون کے مطابق خرید ہی کیوں نہ لیا ہو، فروخت کرنا کوئی باعزت، باوقار یا قابل فخر کام ہے؟ ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ نوبت تحفے بیچنے تک آ گئی؟ اور یہی بات آپ کی بدنیتی (تحفے کم قیمت پر خرید کر مہنگے بیچ کر پیسے کمانا) کو ظاہر کرتی ہے، یہی آخری بات دراصل آپ کے غیراخلاقی رویے اور نو دولتیے ہونے کو ظاہر کرتی ہے کہ آپ کو تحفہ دینے والے کے جذبے اور تحفے کی قدر قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ آپ کے لئے تو چند ٹکے ان جذبات اور تعلقات سے زیادہ اہم ہیں، اسی لئے تحفے بیچ دیئے۔

مطلقہ خبریں