Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

توانائی بحران کا معاشی نقصان

ہم گزشتہ کئی برسوں سے توانائی بحران کا سامنا کررہے ہیں جو ہماری عام زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اور معاش سے لے کر سماج تک قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہمیں پے درپے نقصان سے دوچار کررہا ہے، ہماری معیشت تباہی کے دہانے پرکھڑی ہے، بیرونی سرمایہ کاری میں دن بدن کمی واقع ہوتی جارہی ہے مگر ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں کہ ہمارے قومی ایشوز کون سے ہیں
ضمیر آفاقی
مسائل اس قدر ہیں کہ ہر روز کسی ایک ایشو پر لکھا جائے تب بھی ختم نہ ہوں، اس کے ساتھ ہی ہر روز کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا یا کردیا جاتا ہے۔ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ قومیں اور ملک، جہاں بہترین اور وژنری قیادتیں ہیں، ہماری بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اس معاملے میں ہم قحط الرجال کا شکار ہیں، ہمارے پاس قومی سیاسی جماعتوں سے لے کر علاقائی سطح کی جماعت تک کوئی ایسا بندہ نظر نہیں آتا جو لیڈر کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہو۔ ہم گزشتہ کئی برسوں سے توانائی بحران کا سامنا کررہے ہیں جو ہماری عام زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اور معاش سے لے کر سماج تک قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہمیں پے درپے نقصان سے دوچار کررہا ہے۔ ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں دن بدن کمی واقع ہوتی جارہی ہے مگر ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں کہ ہمارے قومی ایشوز کون سے ہیں۔ تماشہ گروں کے ہاتھ سیاست، مذہب اور حکومت ہے، جو جب چاہیں جہاں چاہیں تماشہ لگا کر عوام کو اس کا حصہ بنا لیتے ہیں، عمران خان بیس برسوں سے کارزار سیاست میں سرگرداں ہیں لیکن آج تک انہیں سمجھ نہیں آئی کہ انہیں عوامی سیاست کرنی چاہئے یا محلاتی۔ جس طرح سب سے آسان کام ٹریفک وارڈن کا چالان کرنا، پولیس والے کا کسی شریف آدمی پر ہاتھ اٹھانا یا سرعام بے عزتی کرنا ہے اسی طرح سیاست میں سب سے آسان کام اپنے مخالفین کے خلاف بیان بازی کرنا ہے۔ عمران خان جس فن میں یکتا ہیں، اگر ان سے پوچھا جائے کہ ملکی مسائل کون سے ہیں وہ ان پر بات کرتے کبھی نظر نہیں آئے۔ اسی طرح ملک کی دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں ہیں، خدا کے بندو! خدا کے بندوں کا کچھ تو خیال کرو، جو آپ لوگوں کی وجہ سے حد سے زیادہ پریشان کن صورتِ حال کا سامنا کررہے ہیں۔ اس وقت ملکی معیشت، برآمدات اور عام آدمی کس طرز کی زندگی گزار رہا ہے، کے بارے میں ہماری قومی سیاست کو کوئی خبر ہے؟ لش پش کرتی سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں، بڑے بڑے پلازے کیا عام آدمی کی نمائندگی اور ترقی، کامیابی ظاہر کرتے ہیں جب کہ یہ سب جانتے ہیں کہ حلال کی کمائی میں تو ایسا سب کچھ ممکن نہیں۔
یہ توانائی بحران اور مہنگی بجلی کا ہی شاخسانہ ہے کہ تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود پاکستانی معیشت میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آرہی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر، جو کسی بھی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے، وہ ہر سال سکڑتا جارہا ہے۔ پاکستان میں برآمدات کا شعبہ اس سال بھی کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے گا۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برآمدات کے گرنے کے اسباب میں ایک سبب اسٹرکچل خامیاں ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں کمی غیرمسابقانہ پالیسی، نامناسب انفرااسٹرکچر اور ہائی ٹرانزیکشن کاسٹ کی وجہ سے ہے جب کہ برآمدات حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ سیالکوٹ کی صنعت، سرجیکل اشیاء، اسپورٹس اشیاء اور کچھ اور چیزوں کی برآمدات سے وابستہ ہے۔ حکومت نے جسے بین الاقوامی مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ ان شعبوں میں 2006ء سے 2014ء تک چین نے راج کیا۔ اب وہاں اُجرت بڑھ جانے کی وجہ سے ہمیں بھی بزنس میسر ہوگیا ہے، لیکن اگر ہم 2006ء میں ہی کوئی اچھی پالیسی بنا لیتے تو ہمیں مارکیٹ کا اچھا حصہ مل جاتا۔ پوری دُنیا میں برآمدات کرنے والی صنعتوں کی سرپرستی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر جرمن کمپنیوں نے بلوچستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہاں امن وامان کی صورتِ حال نے اس خواہش کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے توانائی کا بحران رہا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جس کی وجہ سے بھی معیشت پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ پیداواری لاگت میں اضافہ، امن وامان اور دوسرے ممالک کے سستے دام اس کے چند اسباب ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی سیل ری فنڈ پالیسی نے بھی اس کو متاثر کیا ہے۔ صنعت کاروں کا 250 بلین روپیہ ابھی بھی سیل ری فنڈ کے سلسلے میں رکا ہوا ہے۔ ہمارے دام زیادہ ہیں اور امن وامان اور توانائی بحران کی وجہ سے ہم پیداوار کو وقت پر نہیں پہنچا پا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش، بھارت اور ویت نام میں بجلی اور گیس سستی ہیں جب کہ ہمارے یہاں ان کی قیمت زیادہ ہے۔ اس لئے ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتے۔
معروف معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت غیرمسابقانہ ہے۔ ہمارے سرمایہ کاری کے قوانین کو پڑھ لیجئے، وہ بہت لبرل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگوں کا رجحان ٹریڈنگ معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ کافی عرصہ سے زوال پذیر ہے کیونکہ کچھ بنانے کے لئے آپ کو بہت سی چیزوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے جب کہ ٹریڈنگ ایک کمرے سے بھی ہوجاتی ہے۔ بڑی بڑی فیکٹریوں نے مینوفیکچرنگ بند کرکے اپنی فیکٹریوں کو صرف مال پیک کرنے تک محدود کردیا ہے۔ اب وہ چین میں مال تیار کراتے ہیں اور ان کی پیکنگ یہاں کرتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور لینڈ مارکیٹ کے ابھار نے بھی مینوفیکچرنگ کو متاثر کیا ہے۔ حیدرآباد اور کراچی میں دو بڑی سیمنٹ فیکٹریاں بند کرکے وہاں رہائشی کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ کراچی میں اب صنعتی زمین پر دفاتر بنائے جارہے ہیں۔ اگر آپ کچھ پیدا ہی نہیں کریں گے تو برآمدات کیسے کریں گے؟ اِسی لئے برآمدات پر زوال ہے۔
ملک میں کوئی بینک ایسا نہیں جو صنعتی شعبے کی مدد کرے۔ بینک اب طویل المدتی قرضے نہیں دے رہے۔ شوکت عزیز کے دور میں کنزیومر فنانسنگ کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تھوڑی بہتری آئی تھی لیکن وہ کوئی دیرپا حل نہیں تھا۔ حکومت کو چاہئے کہ پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لئے پالیسی بنائے، ٹیکس کم کرے اور تونائی کے بحران پر قابو پائے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کی وجہ سے بھی صنعت کو نقصان ہوا ہے۔ ٹیرف میں کمی ہونی چاہئے اور گیس و بجلی کے ریٹس بھی کم ہونے چاہئیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجوہات میں امن وامان کی صورتِ حال، توانائی کا بحران اور ہماری حکومتی عدم توجہی شامل ہے، ملکی معیشت کی بہتری کے لئے ان تمام عوامل کے خاتمے کی طرف فوری توجہ دینی ہوگی جو اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سیاسی استحکام کے ساتھ توانائی کے بحران اور مہنگی بجلی میں کمی کے فوری اقدامات کرے ورنہ ہم دُنیا کے ساتھ کھڑے نہیں ہوپائیں گے۔

مطلقہ خبریں