نصرت مرزا
امریکہ اسرائیل کے مقابلے میں پورے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی ملک کو رقبے، آبادی اور ملٹری کے لحاظ سے بڑا رہنے نہیں دے گا، وہ اپنے منصوبے پر ثابت قدمی سے عمل درآمد میں لگا ہوا ہے۔۔۔
پچھلے ستر برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات آشکار ہوگی کہ جنوبی خطہ ارض میں جنگیں اور اموات کا ایک لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔ ایک مغربی اندازے کے مطابق 40 ملین لوگ مارے گئے اور شمالی خطہ ارض کے لوگ اپنا اسلحہ بیچ کر مالدار ہوتے چلے گئے یعنی غریب ممالک میں جنگ، دہشت گردی، بھوک، افلاس اور دیگر قسم کے واقعات ہوتے رہے جبکہ امیر ممالک امیر تر ہوتے چلے گئے، یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ جنگ کا محور رہا اور ایشیائی ممالک بھی اس جنگ کا ایندھن بنے، شاید یورپی ممالک نے جنگ کو اپنے سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد بھی کیا، ایشیائی و افریقی ممالک میں کشیدگی اور جنگی ماحول پروان چڑھتا گیا یا جان بوجھ کر چڑھایا گیا۔ دوسری طرف پچھلے دو عشروں سے امریکہ کی شکست اور اسرائیل کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے جاتے رہے، امریکہ اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرتا رہا، امریکہ کی ہر شکست کے نتیجے میں اسرائیل مضبوط ہوتا گیا مگر اموات مسلمانوں اور ایشیائی ملکوں میں رقص کرتی رہی جو کئی ملین تک جا پہنچی ہیں۔ امریکہ میں اگرچہ اب ’’امریکہ پہلے‘‘ کہا جانے لگا ہے کہ مگر امریکی پالیسی میں ہمیشہ اسرائیل کا عمل دخل رہا ہے، اس میں امریکہ کی طرف اور اسرائیل کی حمایت میں خطرات، اسرائیل دشمنوں کی شناخت اور پھر اُن پر حملے جس کے نتیجے میں امریکہ کے لاکھوں فوجی برسرپیکار رہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل امریکہ اور اس کے اثاثہ جات کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لاتا رہا ہے جس سے اسرائیل کا مشرق وسطیٰ میں موثر طاقت اور اثرورسوخ بڑھا ہے۔ اگر عراق، صومالیہ، لیبیا، یمن، افغانستان، شام اور لبنان کی جنگوں کا جائزہ لیں تو اس میں اسرائیل کامیاب ہوتا نظر آتا ہے۔ ان جنگوں میں دشمن کی نشاندہی کی گئی اور امریکہ کے لئے وہ خطرے کی علامت بنائے گئے کہ عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار چھپے ہیں اور اس ملک کی ملٹری طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں پر پاکستان میں کچھ لوگوں کے اس سوال کا جواب پنہاں ہے جو پاکستان کی ملٹری طاقت کو اصل حالت یا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے خواہاں ہیں کہ دراصل ایسا دشمن کسی ملک کو نشانہ بنانے کے لئے کرتا ہے، اس لئے یہ طریقہ بہت مناسب ہے کہ جو کچھ کرو وہ اس سے کم ہو جو پاکستان کی اصل طاقت ہوتا کہ دشمن کی نظروں سے اصل طاقت اوجھل رہے، اگر کوئی حکمت عملی وضع کی جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے مناسب انداز میں پیش کرنا چاہئے نہ کہ بڑکیں مارنا شروع کردیا جائے، اگر زندگی میں کوئی اچھی پالیسی وضع کرلی ہے جیسا کہ کرتارپور کی راہداری تو اس کو اس کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنا چاہئے نہ کہ کرکٹ کی زبان میں گگلی بال سے تشبیہ دے کر اُس کی اہمیت کو خوامخواہ بڑھایا جائے جس پر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے کہا ناکہ اس سے حقیقت عیاں ہوگئی جو غلط سوچ سے ہم صرف سکھ برادری کو سکھ دینا چاہتے ہیں، اگر واپس نفس کالم پر آیا جائے تو امریکہ نے جنگ افغانستان سے شروع کی اور عراق پہنچی اور پھر 2011ء میں عرب بہار اپنے بلاگرز کے ذریعے عرب عوام میں بے چینی کی فضا ہموار کی جس کے نتیجے میں تیونس، مراکش، لیبیا، بحرین اور شام لپیٹ میں آئے، 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی جو تاحال جاری ہے۔ اس طرح تمام عرب ممالک جو فلسطین کی آزادی کی سعی کررہے تھے وہ اس سے پیچھے ہٹ کر اندرونی طور پر الجھ گئے اور اسرائیل فلسطین پر دباؤ سے آزاد ہوگیا اور اس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے اور عظیم تر اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی، یہ تو روس اور ایران کی پالیسیوں کو سراہنا چاہئے کہ اس نے امریکی و اسرائیلیوں کو آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے پھر افغانستان کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکہ ایران اور پاکستان کو دبوچے بیٹھا ہے کہ وہ کوئی کردار ادا نہ کرسکیں اور یہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو کئی طریقوں سے ہوا دے رہا ہے، اس کو اسلحہ دے کر، اس کا افغانستان میں کردار متعین کرکے اور وہاں داعش کو جمع کرکے تاکہ وہ پاکستان، روس، چین اور سینٹرل ایشیائی ممالک کے لئے درد سر بنا رہے اور طالبان سے مذاکرات کرکے اُن کو حکومت دلوا دے اور داعش کو اُن پر حملے کے لئے جدید اسلحہ دے کر افغانستان پر اپنی دسترس یا اپنے 9 اڈوں کو محفوظ بنا سکے۔ امریکہ نے ایک دفعہ پہلے بھی افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کا جھانسہ دیا تھا اور اب واضح طور پر شکست کا جھانسہ دے رہا ہے مگر دراصل اُس کے مقاصد ڈھکے چھپے ہوئے نہیں ہیں، وہ اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹا، اُسے پاکستان، ایران، سعودی عرب، عراق، شام اور ترکی کی سرحدوں میں ردوبدل کرنا ہے، سو وہ اپنے نئے منصوبے کے تحت کرے گا۔ اس طرح وہ اسرائیل کے مقابلے میں پورے مشرق وسطیٰ میں کسی کو نہ رقبہ کے لحاظ سے بڑا ملک رہنے دے گا اور نہ آبادی کے لحاظ سے اور نہ ہی ملٹری کے طور پر وہ اپنے منصوبے پر ثابت قدمی سے عمل درآمد میں لگا ہوا ہے مگر دیکھا جائے تو امریکہ بھی کیا عجیب ملک لگتا ہے کہ اپنی تمام تر توانائی صرف اور صرف اسرائیل کو مضبوط کرنے میں ہی صرف کررہا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے اسے پیٹرول اور گیس چاہئے اس نے اسرائیل کو عربوں پر اپنا تھانیدار مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ اسرائیل سے وہ خوفزدہ رہ کر امریکہ کے احکامات کی تعمیل سے گریز نہ کریں، اس کے علاوہ امریکہ دنیا بھر میں اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے سستے پیٹرول کا حصول اور پیٹرو ڈالر کے نفاذ میں بھی اسرائیل کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان کو بھی استعمال کرتا رہا، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان بھی اپنا کام الگ سے کرتا رہا جیسے وہ افغان جنگ کے جلو میں ایٹمی طاقت بن گیا۔ اب بھارت پر نظر کرم ہے، اس کو علاقائی طاقت بنانے پر تلا ہوا ہے تاکہ اس کی بالادستی برقرار رہے اور چین سے درپیش چیلنج کو بے اثر کردے۔ چاہے اس عمل میں خون خرابہ ہو، کرۂ ارض کو نقصان پہنچے یا انسانیت تباہ ہو، اس سے امریکہ کو غرض نہیں۔