حنزلہ احمد
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ اسی لئے دنیا بھر میں نوجوانوں کی کردار سازی اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک صحت مند نوجوان اپنے خاندان، ملک و قوم کے لئے مثبت اور تعمیری کام سرانجام دیتا ہے۔ مگر یہی نوجوان اگر بیمار اور لاغر وجود کا حامل ہو تو صرف بیکار نہیں بلکہ نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کی صحت کے لئے ایک بڑا خطرہ تمباکو نوشی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ عالمی صحت کو لاحق خطرات میں تمباکو نوشی کی وبا سب سے تباہ کن ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں جن میں سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد خود تمباکونوشی نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود ہونے کے سبب اس کے دھوئیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں جن میں سے 80 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں تمباکو نوش لوگوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس اضافے کا بڑا سبب ان ممالک کا نوجوان طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور چائنہ کے 60 فیصد مرد حضرات سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوش آبادی میں 12 فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ روزانہ ایک لاکھ بچے سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں۔ وطن عزیز میں تمباکو نوشی کے حوالے سے اعداد و شمار بے حد پریشان کن ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 19 فیصد بالغ افراد تمباکو نوشی کا شکار ہیں۔ ان بالغ افراد میں بڑی تعداد طلباء و طالبات کی ہے۔ ایک سروے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 1000 سے 1200 طلبا سگریٹ نوشی کا آغاز کرتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ میڈیا پر پُرکشش اشتہارات کا چلنا ہے۔ ہمارے نوجوان جب میڈیا پر انتہائی متاثر کن اور پُرترغیب اشتہارات دیکھتے ہیں اور تو سگریٹ نوشی کو بطور فیشن اختیار کرتے ہیں۔ راقم السطور بھی زمانہ طالب علمی گزار چکا ہے۔ اس دوران عموماً طلبا تمباکو نوشی کا آغاز سگریٹ سے کرتے ہیں جو کہ مارکیٹ میں عام میسر ہے۔ سگریٹ سے آغاز ہوتا ہے اور شیشہ سے ہوتے ہوئے بڑی سرعت کے ساتھ منشیات تک کا سفر طے کرلیا جاتا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں کے 53 فیصد طلبا و طالبات تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ سینیٹ میں پیش کی گئی تھی اور اس میں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا تذکرہ تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ چنانچہ اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے لازم ہے کہ تمباکو نوشی کے نہ صرف اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کرنا ضروری ہے بلکہ تمباکو کی مصنوعات پر بھی پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ حکومت بجا طور یہ بات کہہ سکتی ہے کہ تمباکو کی مد میں سالانہ 75 بلین روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال 100 بلین روپے سے زائد تمباکونوشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ تمباکو نوشی صرف سگریٹ کی صورت میں نہیں ہوتی ہے بلکہ پائپ، سگار، حقہ، شیشہ اور تمباکو کو کھانے والا استعمال جیسا کہ پان، چھالیہ، گٹکا وغیرہ اور تمباکو سونگھنا جیسی تمام عادات خطرناک ہوتی ہیں۔ تمباکو میں موجود نکوٹین دماغ میں موجود کیمیکل مثلا ڈوپامائن اور اینڈروفائن کی سطح بڑھا دیتا ہے جس کی وجہ سے نشہ کی عادت پڑ جاتی ہے۔ یہ کیمیکل خوشی یا مستی کی حسیات کو بیدار کردیتے ہیں جس سے جسم کو تمباکو مصنوعات کی طلب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ان عادات کو ترک کرنا کسی بھی فرد کے لئے بہت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ جسم میں نکوٹین کی کمی سے طبیعت میں پریشانی، اضطراب، بے چینی، ڈپریشن کے ساتھ ذہنی توجہ کا فقدان ہوجاتا ہے۔ تمباکونوشی بہت آہستگی کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کو نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے اور ایک فرد کو کئی سالوں تک اپنے اندر ہونے والے نقصانات واضح نہیں ہوپاتے اور جب یہ نقصانات واضح ہونا شروع ہوتے ہیں تب تک جسم تمباکو کے نشے کا مکمل طور پر عادی ہوچکا ہوتا ہے اور اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے عفریت کو قابو کرنے کے لئے دنیا بھر میں سنجیدگی کے ساتھ کوشش جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں کسی بھی عوامی مقام پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے۔ پاکستان میں بھی اگرچہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں کہ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں پابندی عائد ہے کہ کوئی فرد تمباکو نوشی نہیں کرسکتا مگر ان قوانین کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1998ء سے تاحال پاکستان میں تمباکو نوشی میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے کچھ عرصہ قبل سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری انتباہ جاری کرنے کے احکامات جاری کئے تھے جن کے نتائج خاطر خواہ برآمد ہوئے ہیں۔ مگر مارکیٹ میں ایسی سگریٹ کی بھرمار ہے کہ جو اس تصویری انتباہ سے خالی ہیں۔ یہ اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان میں آنے والی سگریٹ ہے اور ہمارے نوجوان طلبا تمباکونوشی کا آغاز بھی ایسی سگریٹوں سے ہی کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ دہشت گردی جس کے خلاف ہم گزشتہ ایک دہائی سے مصروف عمل ہیں، اس میں بھی ہمارے شہدا کی مجموعی تعداد تقریباً 50 ہزار ہے۔ سگریٹ نوشی ہی سے متصل منشیات کا استعمال ہے۔ محتاط ذرائع کے مطابق پاکستان میں 9 ملین سے زائد افراد منشیات کا شکار ہیں اور اس تعداد میں 40 ہزار سالانہ کے اعتبار سے اضافہ ہورہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں منشیات کے حوالے سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ دنیا بھر میں پاکستان منشیات استعمال کرنے والے چار بڑے ممالک میں شامل ہے۔ مذکورہ بالا تمام اعداد و شمار بجا طور پر انتہائی خطرناک صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو قابو میں کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے طلبا و طالبات اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہیں تمباکو نوشی اور منشیات جیسے عفریت سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر فیصلوں کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں طلبا تنظیموں اور گروہوں کو بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں طلبا کو اس حوالے سے آگہی فراہم کرنے کے لئے ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہئے۔ ان ورکشاپس میں طلبا کو تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں اس حوالے سے مکمل آگہی فراہم کی جائے۔