Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تعمیر ڈیم۔ پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق

نصرت مرزا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے درست کہا ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے، یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس پر انہوں نے پاکستانیوں سے ڈیم بنانے کے لئے چندہ مانگ لیا جس میں پاکستانی عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور پانی کی قلت کو اچھی طرح محسوس کررہے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے بھی اس سلسلے میں جو بیان دیا ہے وہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اگر 2025ء تک ڈیم نہ بنے تو پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گا، ڈیم کے لئے چندہ دینے میں خاص و عام شخصیات و ادارے شامل ہیں، پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک ارب 59 کروڑ کا چیک پیش کیا، اس کے علاوہ سیلانی جیسے ادارے نے بھی ایک کروڑ روپے اس مد میں جمع کرائے۔ ڈیم کے لئے چندہ جمع کرنے پر سب سے زیادہ اعتراض بھارت کی میڈیا میں اٹھا تھا، انہوں نے کنگلا پاکستان کے الفاظ سے پاکستان کو نوازا تھا مگر اُن کو یہ معلوم نہیں کہ قومیں اسی طرح ابھرتی ہیں اور مشکلات سے نبردآزما ہوتی ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کے ایک طالب علم نے جاپانی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کم سے کم رقم جسے اس وقت کا ایک پیسہ دینے کی تجویز دی تھی تو وہ جاپان کے ہیرو قرار پائے تھے، اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ تجویز دے کر ایک بہت بڑے مسئلہ کو وقت سے پہلے اُجاگر کیا تو یہ پاکستانی قوم کے لئے باعث افتخار ہے کہ ان کے جج جاگ رہے ہیں، یہ اسی طرح کا جملہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کے وزیراعظم چرچل نے پوچھا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کررہی ہیں یعنی انصاف فراہم کررہی ہیں تو جواب میں مثبت آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اس وقت ہمارے جج ملک میں کرپشن کے خاتمے اور ڈیم بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں تو ہم برملا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور پاکستانی نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پا لیں گے بلکہ اور جن چیلنجوں کا سامنا ہے اُن کا بھی مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں گے، چیف جسٹس صاحب نے درست کہا ہے کہ جو ڈیم بنانے کے تنقید نگار ہیں اُن کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا جائے، ہماری نظر میں یہ پاکستان دشمنی ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اس پر تنقید دشمن کی مدد ہے، ان لوگوں کے خلاف عدالت اگر کوئی فیصلہ لیتی ہے تو وہ حق بجانب ہوں گے اور عوام کی مکمل حمایت بھی اُن کے فیصلے میں شامل ہوگی۔ ہم نے اپنے کالم کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی تھی، اس کے تیسرے روز ہی چیف جسٹس صاحب نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا کیونکہ وہاں سے دو دریا بھارت جاتے ہیں جس پر وہ کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے، اس پانی پر ہمارا حق ہے، ہم نے اس پانی کو بھارت جانے سے روکنے کی بات کی تھی جو مقبول عام ہوئی اور بھارت گفت و شنید کے لئے بھی راضی ہوا اور کشن گنگا ڈیم کے معائنے کی بھی پاکستان کو اجازت دی، اگر ہم کالم نہ لکھتے اور چیف جسٹس اُس کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تو عین ممکن تھا کہ بھارت اپنے راستے پر چلتا رہتا، اب ہم نے جڑ کو پکڑ لیا ہے کیونکہ اگر ہم پانی روکتے بھی ہیں تو اس کو جمع کرنے کے لئے تو ڈیم ہوتے ہیں جو پانی کا ذخیرہ کرتے ہیں، اس لئے ناقدین کو روکنا اور فساد کو وہیں دفن کرنا ضروری ہے جہاں سے یہ شروع ہورہا ہے، کالا باغ ڈیم کی جگہ میں نے دیکھی ہے وہ ایک فطری ڈیم کی جگہ ہے، اُس کو بنا لینا چاہئے تھا مگر سندھ اور خیبرپختونخوا کو اس پر اعتراض تھا تو وہ نہیں بن سکا اور تیس سال تک حکمران سوتے رہے یہاں تک کہ ہم انتہائی نازک موڑ پر آکھڑئے ہوئے تو ہوش آیا تو اس پر پوری توجہ کے ساتھ کام شروع کردیا، پاکستانی قوم سوئی نہیں بنا سکتی تھی مگر اس نے ایٹم بم بنا لیا یعنی جب وہ کام کرنے پر آتی ہے تو وہ کارہائے انجام دے ڈالتی ہے جس سے دنیا ورطۂ حیرت میں پڑ جاتی ہے۔ اب بھارت کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسا دیں گے، انسانیت کے خلاف ہے اور اُن کا اخلاقی دیوالیہ پن اور اُن کی پاکستان دشمنی ننگی ہوکر سامنے لے آتی ہے اور وہ پاکستانیوں کو جگانے کے لئے کافی ہوتی ہے، فلسفہ یہ ہے کہ دشمن جہاں دشمنی جاری رکھتا ہے وہاں آپ کو بیدار بھی کرتا ہے اور مستعدی و چستی کا سبب بنتا ہے اور کلیہ یہ بھی ہے کہ کسی قوم کا دشمن ہونا اُس کی زندگی کی علامت ہے، جب روس نے افغانستان سے پسپائی اختیار کی تو جرمنی کے ایک پروفیسر گیز سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اب امریکہ بھی روس کی طرح بکھر جائے گا کیونکہ اُس کا کوئی دشمن نہیں رہا، پروفیسر گیز تو کچھ برسوں بعد انتقال کرگئے مگر امریکہ نے مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیدیا، نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ابھی انتہاپسند مسلم اپنے دشمن کی شکل میں موجود ہیں، اگرچہ دیکھا جائے تو اِن مسلمانوں اور امریکہ و نیٹو ممالک کا کوئی مقابلہ نہیں تھا مگر انہوں نے اپنی حیات کے لئے ایسے بے سروسامان لوگوں کو دشمن بنا کر خوب مارا، مغرب کے کئی دانشور جن میں پال کریگ روبرٹس شامل ہیں کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل مسلمانوں کے خلاف جنگ تھی، انہوں نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹی شرٹ پر لکھے گئے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اب ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے کہ کوئی اپنی حکومت پر اعتماد نہیں کرتا، آپ حکومت پر اعتماد کرلیں مگر یہ بات بھارتیوں سے پوچھیں یعنی صرف بھارتی امریکیوں پر اعتماد کرسکتے ہیں، یہ ظلم تھا کہ امریکہ نے بے سروسامانی مسلمانوں پر اپنی پسند کی جنگ مسلط کی، عراق، لیبیا، شام کو تہہ و بالا کر ڈالا، اب ان ممالک کو ابھرنے میں صدیاں لگیں گی۔ بھارت اگر اس خطے میں امن چاہتا ہے تو وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرے ورنہ نتائج نہ اُس کے حق میں بہتر ہوں گے اور نہ ہمارے، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پاکستان کو بقا کے لئے ہر طرح کی سعی کرنا پڑے گی چاہئے وہ دریا کے بہاؤ کو روک سکتا ہے تاہم اسپر جنگ ہوسکتی ہے، پانی پر جنگ جس کی اطلاع مغرب نے کئی عشرے پہلے دیدی تھی کہ آئندہ کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے وہاں بھی انسان بستے ہیں، ہم کبھی نہیں چاہیں گے اور نہ یہ بات کہیں گے کہ بھارت کو پانی کی بوند بوند کو ترسا دیں، ہم مل جل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت اس وقت چیخ پڑا تھا جب چینی برہم پترا کے پانی کا رُخ موڑ کر دریا ئے زرد میں ڈالنے کی بات کررہے تھے، یہ اطلاع بھارت کے ایک ماہر نے دی تھی جس سے بھارت میں گہرام مچ گیا تھا مگر بعد میں اس کی تردید آگئی، اُن کا شبہ اس لئے تھا کہ 2010ء میں چینی صدر ہوجنتاؤ آبیات داں تھے اور تبت پر قبضہ کرنے کی تاریخ کے شہسوار ہیں، بنگلہ دیش کو بھارت سے یہ شکایت ہے کہ وہ بھارت برہم پترا کو کم پانی دے رہا ہے اور پاکستان کو بھی یہ شکایت ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان، چین، بھارت، بنگلہ دیش کی معیشت پانی کی بنیاد پر کھڑی ہے، انہیں خوراک کے حصول کے لئے میٹھے پانی کی ضرورت ہے، دُنیا کے لئے ہوا کے بعد سب سے اہم پانی ہے اُسی کے ساتھ آبادیاں قائم ہوتی رہی ہیں، اگر بھارت نے پانی کے معاملے میں گڑبڑ کی تو یہ انسانیت کے لئے ایک تباہ کن کام ہوگا، پاکستان کا پانی روک کر وہ ایک خطرہ مول لے رہا ہے، بہرحال پاکستان کی ڈیم بنانے کی مہم قابل تعریف اور پاکستان کے عوام کے امنگوں کے عین مطابق ہے، بھارت چاہے تو برازیل اور پیراگوئے کی طرح اس مسئلے کا حل پاکستان سے مل کر تلاش کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے برازیل اور پیراگوئے جو سدا کے دشمن تھے دوست بن گئے، اس پر میرا کالم 6 جون 2010ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔

مطلقہ خبریں