Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تذویراتی گہرائی کا نظریہ

جنرل مرزا اسلم بیگ
میں نے کبھی اس قسم کے لغو اور شکست خوردہ نظریے کی بات نہیں کی جس سے ہمیں بھارتی جارحیت کی صورت میں افغانستان میں پناہ لینا پڑے، یہ بات سوچی بھی نہیں جاسکتی کیونکہ ہمارا مشن ہے ’’پاکستانی سرحدوں کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے جنگ کو دشمن کی سرحدوں کے اندر تک لے جاؤ۔‘‘
ایک انگریزی روزنامہ ’’دی ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر نے مورخہ 2 جولائی 2017ء کو اخبار کے ایڈیٹوریل کالم میں ’’تذویراتی گہرائی کے نظریے‘‘ کے متعلق ایسی باتیں لکھی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ہمیں جن وہمی خیالات کو اب دفن کردینا چاہئے ان میں ایک کا تعلق جنرل مرزا اسلم بیگ کی جانب سے پیش کیا جانے والا مشہور زمانہ ’’تذویراتی گہرائی کا نظریہ‘‘ ہے۔ اس نظریے کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو کابل میں دوستانہ حکومت کے ساتھ اتنا اثرورسوخ ہونا چاہئے تاکہ بھارت کی جانب سے کسی جارحیت کی صورت میں اگر پاکستان کو پسپائی اختیار کرنا پڑے تو افغانستان میں پناہ مل سکے۔‘‘
نعوذ باللہ انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میں نے کبھی اس قسم کے لغو اور شکست خوردہ نظریے کی بات نہیں کی جس سے ہمیں بھارتی جارحیت کی صورت میں افغانستان میں پناہ لینا پڑے۔ یہ بات سوچی بھی نہیں جا سکتی کیونکہ ہمارا مشن ہے ’’پاکستانی سرحدوں کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے جنگ کو دشمن کی سرحدوں کے اندر تک لے جاؤ۔‘‘ اس لئے ہمارا مرتب کردہ ’’جارحانہ دفاع کا نظریہ‘‘ ہماری حقیقی عسکری صلاحیتوں اور عسکری نظام پر مبنی ہے جو ہمارے اہداف کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد 25 اگست 1988ء کو جنرل ہیڈکوارٹرز میں گیریژن اور سینئر افسران سے اولین خطاب کرتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا تھا وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ میری ریکارڈ کی گئی تقریر کا متعلقہ حصہ جو تذویراتی گہرائی سے متعلق ہے، پیش خدمت ہے:
’’یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں ہماری قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنے کے فن سے بھی آشنا ہے۔ دوسری اہم بات جو رونما ہوئی ہے اور ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں پر حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی ہے اور اب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ سپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب اسلام کے غلبے کا سورج طلوع ہوگا۔ جمہوریت کی ترویج کی کوششیں بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایرانی قوم نے ایک پڑوسی ملک کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کو جذبہ حریت سے کچل دیا ہے۔ اس طرح اسلامی قوتوں نے اپنی جڑیں گہری کرلی ہیں جو جمہوری نظام کی مضبوطی کا باعث ہے۔ بالفاظ دیگر ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے جو ہمارے لئے اطمینان اور طاقت کا پیغام ہے۔ پاکستان، ایران اور افغانستان تینوں ممالک باہم متحد ہو کر آزاد، مستحکم اور پُرعزم انداز سے مشترکہ منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان تینوں ممالک پر مشتمل عالم اسلام کا تذویراتی گہرائی کا نظریہ یہی ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جسے بہرصورت حقیقت کا روپ دھارنا ہے۔‘‘ اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کے لئے بے شمار حربے اختیار کئے گئے اور ہم اس منزل سے ابھی دور ہیں۔ ایڈیٹر موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں کہ:
’’یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ تین دہائیوں کے بعد یہ نظریہ الٹا ہوچکا ہے اور ہم دوسروں کی خاطر خود ہی ’’گہرائی‘‘ میں دھکیل دیئے گئے ہیں اور پاکستانی طالبان جیسے گروپوں کے نشانے پر آچکے ہیں۔ اب انہوں نے افغانستان کی بدنام سرحدوں میں محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ لی ہیں اور ہم دنیا بھر سے ان کے خلاف شکایتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ کس نے سوچا تھا کہ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ ہم نے اس ناکام نظریے کی تباہ کاریوں کے بارے کیوں نہ سوچا۔‘‘
حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ 1989ء میں روس کی پسپائی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین ’’جوکہ جنگ کے فاتح تھے‘‘ انہیں شرکت اقتدار کے حق سے محروم کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ جنرل ضیاء کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں نے ہی مسئلہ افغانستان پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور وہاں پر جاری خانہ جنگی سے مسلسل افغانیوں کا خون بہتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکیوں کا ساتھ دینے کے معاملے پر تمام حدیں پار کردیں اور 2005ء میں ڈومور کے مطالبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے وزیرستان، سوات، دیر اور باجوڑ میں لشکر کشی کی اور پھر جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب شروع کردیا جس نے افغان تحریک آزادی کا امدادی کیمپ تباہ کردیا۔ یہ ہیں ڈومور کے اثرات، جن کا ذکر آپ نے اپنے مندرجہ بالا تبصرے میں کیا ہے۔ اب اس سے زیادہ پاکستان اپنے آپ کو افغان معاملات سے کتنا لاتعلق رکھ سکتا ہے اور کیوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟
جب آپ افغان معاملات سے علیحدگی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ چار کروڑ پچاس لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ فیصد پاکستان میں ہیں، چالیس فیصد افغانستان میں اور دس فیصد پاکستان کے دل یعنی کراچی میں آباد ہیں، جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی ہے اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سے اپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ گزشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ قائداعظم کے نظریے کو عملی جامعہ پہنانے کا یہی مناسب وقت ہے، جنہوں نے پختون قوم کو متحد رکھنے کے لئے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیا تھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔ قائداعظم کا ویژن پختون قوم کی یکجہتی اور اس کے پھیلاؤ سے متعلق تھا جو ڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اور آگے آمودریا تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں ہے۔
جان مکین پاکستان کے بعد افغانستان گئے، جہاں پہنچتے ہی انہوں نے بیان دیا ہے کہ ’’پاکستان حقانی گروپ کے خلاف بھرپور اقدامات کرے ورنہ ہمارے ملکوں کے درمیان تعلقات بُری طرح متاثر ہوں گے۔‘‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے، شرمناک شکست کے بعد ان میں اتنا بھی ظرف نہیں ہے کہ روس کی طرح شکست تسلیم کر لیتے اور افغانستان سے نکل جاتے لیکن سازشوں کے بعد سازشیں ہورہی ہیں۔ ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

مطلقہ خبریں