Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تحریک ِعدم اعتماد کے پیچھے کون؟

سہیل دانش
علم فلکیات کے ماہر کہہ رہے ہیں کہ 2022ء میں انہیں عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر براجمان دکھائی نہیں دے رہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کسی علم کے حوالے سے اندازہ ہوسکتا ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ امریکا کے سابق صدر جارج بش سینئر نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا کہ جب عراقی فوج نے کویت پر قبضہ کرلیا تو ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ عراقی فوج کو کویت سے کیسے نکالا جائے۔ میں نے ڈک چینی اور کولن پاول کو مشرق وسطیٰ بھیجا کہ وہ صورتِ حال کا جائزہ لے کر اور مشاورت کے بعد انہیں بتائیں کہ کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کیلئے گراؤنڈ اٹیک کا کب حکم دینا چاہئے۔ ڈک چینی اور کولن پاول نے آکر مجھے اپنی رائے سے آگاہ کیا لیکن میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں مشرق وسطیٰ میں متعین اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل نارمن شیراسکوف سے ان کی رائے لے لوں۔ جب میں نے جنرل نارمن سے دریافت کیا کہ اس کا کیا خیال ہے۔ تو کمانڈر نے مجھے بتایا کہ ڈک چینی اور کولن پاول کی رائے سے وہ اتفاق کرتے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ ستاروں کی چال بتا رہی ہے کہ ہمیں مجوزہ تاریخ سے چار دن پہلے حملہ کرنا چاہئے تو ہماری کامیابی یقینی ہوگی (واضح رہے کہ جنرل نارمن شیراسکوف علم فلکیات کا بہت بڑا ماہر تھا) جارج بش لکھتے ہیں۔ میں نے گراؤنڈ اٹیک کیلئے اسی تاریخ کا انتخاب کیا جن کا اشارہ ستاروں کی چال بتا رہی تھی۔ میں نے جنرل کو ہدایت کی کہ اسی تاریخ کو ان کے پاس جتنی بھی قوت موجود ہے وہ سب کی سب بروئے کار لائیں اور عراقی فوج کو کویت سے نکالیں۔ امریکی صدر کا یہ اعلان تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لے آیا تھا لیکن انہوں نے یہ فیصلہ اسی تاریخ کیلئے کیا۔ جس کا اشارہ ستاروں کی چال بتا رہی تھی۔
اس وقت عمران خان کیلئے پیدا ہوجانے والے چیلنجوں کے حوالے سے بہت سے تبصرہ نگار اور بڑے باخبر لوگ اس طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ عمران خان کو آج سیاسی اعتبار سے جس بحران کا سامنا ہے اس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ امریکیوں کا ہاتھ ہے۔ امریکا کو یہ گوارا نہیں کہ پاکستان اس کے کیمپ سے لاتعلق ہونا شروع کردے اور پاکستان کا حکمران اس کے حوالے سے “ایبسولوٹلی ناٹ” ”ہرگز نہیں“ کے الفاظ استعمال کرے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کی پاداش میں اقتدار سے الگ ہونے اور پھانسی پر جھولنے جیسے دردناک موڑ سے گزرنا پڑا۔ اس کے پیچھے امریکیوں کا ہاتھ تھا۔ بظاہر اس دلیل میں خاصا وزن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے کہ لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں وزیراعظم بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ”میں مانتا ہوں آپ مجھ سے اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن میں آپ کو ایک بات بتا دوں اگر آپ نیوکلیئر دوڑ میں پیچھے نہ ہٹے تو ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنا دیں گے۔“ یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ جب جنرل ضیا الحق 4 اور 5 جولائی 1977ء کی شب پاکستان میں مارشل لاء کے فرمان افروز پر دستخط کررہے تھے۔ امریکا اور سعودی عرب کے سفیر ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مئی 1998ء میں نوازشریف نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو امریکی صدر بل کلنٹن نے نوازشریف سے کہا تھا کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکا نہ کرے تو اس کے عیوض امریکا پاکستان کو ساڑھے چھ ارب ڈالر دینے کیلئے تیار ہے لیکن نوازشریف نے ان ترغیبات کو نظرانداز کرکے ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ 1999ء میں نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی اسی جرأت کا شاخسانہ تھا۔ ریکارڈ کی یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ جب نوازشریف کا تختہ الٹ کر مشرف برسراقتدار آئے تو اس کے کچھ عرصے بعد امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ محض چند گھنٹوں پر محیط تھا۔ جس میں صدر امریکا نے پاکستانی قوم سے خطاب کیا تھا۔ انہوں نے صدر مشرف کے ساتھ تصویر تو نہیں بنوائی لیکن اس دورانیے میں انہوں نے امریکی سفیر کی رہائشگاہ پر پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ارشاد حسن سے خصوصی ملاقات میں مشرف کے نام یہ پیغام دیا کہ ہماری خواہش ہے کہ نوازشریف کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو بھٹو کے ساتھ کیا گیا تھا۔ بعد میں سعودی عرب کے اس وقت کے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز کی مداخلت کے بعد مشرف کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ نوازشریف کو جدہ بھیج دیں۔ پاکستان کی تاریخ میں امریکی دلچسپی ”مداخلت“ اثرونفوذ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسی سبب اب جبکہ عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور صرف امریکا ہی نہیں بلکہ وہ تمام قوتیں بھی ہیں جن سے پاکستان اچھے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح وہ مشرف کی طرح قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سب سے پہلے پاکستان، لیکن مشرف سارے سیاسی نظام کو تلپٹ کردینے کے باوجود یہ کہتے تھے کہ وہ اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، لیکن اسے ہر ملک کے خصوصی ماحول اور حالات کے متعلق ڈھالنا ہوتا ہے۔ تب ہی وہ ایک متحرک جمہوریت ہوسکتی ہے جو حقیقت میں لوگوں کو بااختیار بنائے اور ایسی حکومتیں تشکیل دے جو ان کی ضروریات پوری کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ جمہوریت صرف ایک نقل ہے، جس میں نہ تو اس کی روح ہے اور نہ ہی مادہ۔ اندازہ کیجئے کہ فوجی لباس میں ملبوس اور اس لباس کو آخر دم تک زیب تن رکھنے والا فوجی کمانڈر یہ کہہ رہا ہو کہ دُنیا میں بہت سے ایسے نظام ہیں جو جمہوری کہلائے جاسکتے ہیں۔ کسی ایک ملک کے نظام کو دوسرے میں منتقل کرنے سے کام نہیں چلتا۔ خصوصاً جب اس میں بیرونی عنصر زیادہ ہو۔ جیسے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ثابت ہوچکا ہے۔ اب عمران خان ساڑھے تین سال سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کو ”ریاست مدینہ“ بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ان کا مطلب اس ریاست مدینہ سے ہے جس کی بنیاد آقائے نامدارؐ نے رکھی تھی اور جسے سیدنا فاروق اعظمؓ نے بام عروج پر پہنچایا تھا۔ تو پھر باآسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان بھی وہی کوشش کررہے ہیں جو مشرف بادشاہ بننے کی خواہش لے کر جمہوریت کی بات کررہے تھے۔ اب جبکہ عمران خان کی کشتی بھنور میں پھنستی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ اس لڑائی میں فاتح بن کر نکلتے ہیں یا اپنا اقتدار گنوا دیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان سے کہاں کہاں غلطی ہوئی۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ان کے سامنے کوئی واضح نقشہ نہیں تھا۔ ان کا ہوم ورک نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ بھٹو کی طرح ذہین، زیرک اور بہت دور تک دیکھنے والے بھی نہیں تھے لیکن ہاں ضد، ہٹ دھرمی اور تکبر یہ ان کی وہ کمزوریاں تھیں جس نے بھٹو جیسے جینئس کو تباہ کن صورتِ حال سے دوچار کردیا تھا۔ عمران خان کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ انہوں نے لوگوں سے جو وعدے کئے تھے، ان کی امیدوں اور توقعات کو اس حد تک بڑھا دیا تھا کہ لوگ ان سے کسی کرشماتی کارکردگی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ رہائش اور ملازمتوں جیسے خوبصورت اور دلکش نعرے جو صرف نعرے ہی بن کر رہ گئے۔ پھر سارا معاملہ ریورس ہوگیا۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے لوگوں کی ناصرف امیدیں ختم کردیں بلکہ وہ سرعام عمران کی حکومت کو بُرا بھلا کہنے لگے۔ سب سے بڑی کمزوری جس نے عمران کی بہت سی منفرد خوبیوں کو ملیامیٹ کردیا۔ وہ ان کے وہ ساتھی تھے جو ناصرف کم صلاحیت کے حامل تھے بلکہ انہوں نے اپنے وزیراعظم کو متعدد بار وہی غلط مشورے دیئے جس سے عمران خان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بہرطور اب عمران خان اپنی تمام تر کارکردگی کے ساتھ عوام کی عدالت میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ بھٹو کی طرح دباؤ کا شکار ہوکر بہت سے پاپولر فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے حکمران کے طور پر وہ اس لڑائی کو جیتنے کی کوشش کررہے ہیں جو بتدریج اپنی شہرت کھوتا جارہا ہے۔ اب آتے ہیں عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی حکمت عملی کی طرف جو ہر صورت میں عمران کو دھکیل کر رنگ کے کارنر میں لے جاکر مات دینا چاہتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اختیار اور اقتدار کی تمام کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں کو بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ انہیں کئی محاذوں پر اپوزیشن سے چومکھی لڑائی لڑنی پڑرہی ہے۔ ان کے علاوہ پارٹی میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو عوام میں مقبول عام ہو۔ وہ پارٹی کا نیوکلیئس بھی ہیں اور اصل طاقت کا منبع بھی ہیں۔ اس لئے تحریک انصاف کا حقیقی اثاثہ وہی ہیں۔ اگر وہ غور کریں تو دو باتیں سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا متکبرانہ رویہ اور ان کی کمزور صلاحیتوں کے وزراء اور مشیر۔ اگر وہ پیچھے مڑ کر سنجیدگی سے دیکھیں تو انہیں بھی وہی جواب ملے گا۔ جیسے مشرف نے ایک بار کہا تھا کہ گہرے تالاب میں انہیں دھکا کس نے دیا تھا۔ کیونکہ یہی تیراکی سیکھنے کا اچھا طریقہ ہے، کیونکہ اگر نہیں تیریں گے تو ڈوب جائیں گے۔ اب عمران کو پہلی بار یہ احساس ہورہا ہوگا کہ وہ تالاب میں گر پڑے ہیں۔ وہ تیریں گے تو نکلیں گے، ورنہ ڈوب جائیں گے۔ کیونکہ اگر غرور اور تکبر ان کی کمزوریاں ہیں تو آخر تک فائٹ کرنا ان کی خوبی ہے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اتحادی جو ساڑھے تین سال سے ان کی حکومت کو انجوائے کررہے تھے اب پوری جرأت اور ہمت سے ان کے ساتھ کھڑا ہونے میں ہچکچا کیوں رہے ہیں۔ روزانہ نت نئی بولیاں بول رہے ہیں۔ پوری مضبوطی سے ہاتھ پکڑانے کے بجائے بچ نکلنے کی تدبیر کررہے ہیں اور یہ منطق پیش کی جارہی ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ق) ساری صورتِ حال کو انجوائے بھی کررہی ہے اور اپنا بھاؤ بھی بڑھا رہی ہے، اس لئے لگتا ہے کہ وزیراعظم کو بھی ابھی تک اس بات کا پورا یقین نہیں کہ اتحادی ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ حکومت کے ناصرف کان کھڑے ہوگئے بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں گھبراہٹ نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے اس لئے آج پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو مشاورت کیلئے اسلام آباد طلب کرلیا ہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کس صوبے میں کتنے کتنے ارکان اسمبلی اپنی نشستوں کی قربانی دینے، ماضی کو بھول کر مستقبل کی فکر میں تحریک انصاف سے ہاتھ چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے آپ کچھ بھی کہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان مخالف کیمپ میں چھلانگ لگانے کیلئے کمربستہ ہیں۔ مختلف حلقے ان کی تعداد مختلف بتارہے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ اگر اتحادیوں نے یہ دیکھا کہ بازی اپوزیشن کے حق میں پلٹ رہی ہے تو وہ ذرا برابر دیر لگائے نئے حکمرانوں کی طرف کود پڑیں گے۔

مطلقہ خبریں