میر افسر امان
بھارتی ریاست کرناٹک میں حجاب کی وجہ سے مسکان نامی کالج کی طالبہ کو آر ایس ایس کے غنڈوں کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسکان ایک نہتی لڑکی کالج کی طرف جا رہی ہے۔ آر ایس ایس کے غنڈے ہاتھوں میں لال جھنڈے پکڑے مسکان کو ہراساں کررہے ہیں۔ ”جئے شری رام جئے شری رام“ کے نعرے لگاتے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر اس بہادر شیرنی نے اس کے جواب میں ”اللہ اکبر اللہ اکبر“ کے نعرے بلند کئے اور اپنی کالج کی طرف بڑھی رہی ہے۔
بھارت کے این ڈی ٹی وی جو مودی کے ظلم کے خلاف پروگرام کرتا رہا ہے کا انگلش پروگرام بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ٹی وی پروگرام میں کالج کی طلبہ مسکان کو بلایا گیا۔ اینکر نے سوال کیا کہ اس ہجوم میں کالج سے باہر کے کتنے لڑکے تھے تو مسکان نے بتایا کہ 90 فیصد باہر کے لڑکے تھے۔ ٹی وی اینکر نے مسکان کی بہادری کی تعریف کی اور اپنے مذہب اور روایات پر کاربند رہ کر پردہ کرنے والی کالج کی لڑکی مسکان کو ہراساں کرنے والے لڑکوں کی مذمت کی۔ مسکان نے ٹی وی اینکر کو بتایا کی کالج کی انتظامیہ نے مسلمان لڑکیوں کو پردہ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، یہ چند شرپسند کالج کے لڑکے باہر کے غنڈوں کے ساتھ مل کر کالج کی لڑکیوں کو پردہ کرنے سے روکتے ہیں۔ اخبارات نے بھی ایک تصویر لگائی جس میں ایک صاحب مسکان کو شیرنی کا تحفہ پیش کررہے ہیں۔ اسی تصویر میں مسکان کے والد مسکان کے سر پر دستِ شفقت رکھے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بھارت سمیت پوری دُنیا ”اللہ اکبر“ کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ پوری دُنیا میں بہادر بیٹی کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے جبکہ دہلی، کرناٹک، حیدرآباد، مدھیہ پردیش، کلکتہ، تامل ناڈو سمیت کئی ریاستوں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ ہندو انتہاپسندی کے خلاف سوشل میڈیا پر کئی ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ کرناٹک واقعہ پر جامع کراچی سمیت ملک بھر کی جامعات میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی خواتین کی رہنما اور حلقہ خواتین کی سیکریٹری جنرل دردانہ صدیقی نے بیان دیا کہ بھارت سمیت دُنیا بھر میں حجاب کے خلاف مہم قابل مذمت ہے۔ بہادر مسلمان بیٹی مسکان دُنیا میں جرأت کا نشان اور مسلم بچیوں کے لئے مشعل راہ بن گئی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی دفترخارجہ نے بھارتی ناظم الامور کو طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ٹھیک ہے یہ ایک رسم ہے جو ہماری حکومت نے ادا کی ہے۔ بھارت کی مودی قوم پرست ہٹلر قوم صفت حکومت سے ہزاروں دفعہ ایسے احتجاج کئے جا چکے ہیں مگر بھارت کے مسلمانوں کو دبا کے رکھنے کے ہزاروں واقعات رونما ہوچکے اور آئندہ بھی مودی قوم پرست حکومت سے یہی توقع ہے۔ اس کا حل احتجاج کے ساتھ ساتھ عملی اقدام کی بھی ضرورت ہے۔ بھارت میں ہجوم کسی بھی مسلمان کو گھیر کر زبردستی اُس سے ”جئے شری رام جئے شری رام“ کے نعرے لگواتے ہیں، انکار کی صورت میں انہیں مار مار کر ظلم و سفاکیت سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کسی بھی مسلمان پر گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر اسے شہید کر دیتے ہیں جبکہ خود مودی حکومت دُنیا میں سب سے زیادہ گائے کا گوشت بیرون ممالک میں فروخت کرتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں ایک مسلمان پر فریج میں گائے کا گوشت رکھنے پر شہید کردیا گیا۔ جب مودی حکومت نے تحقیق کی تو وہ گائے کی بجائے بکرے کا گوشت نکلا۔ نام نہاد سیکولر بھارت میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل دہلی کے مسلم کش فسادات ہوئے، مودی حکومت ہزاروں سال سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے ڈومیسائل طلب کرتی ہے، کیا اسے تاج محل، لال قلعہ، اجمیر میں مسلمانوں کے دینی مراکز اور دہلی کی جامع مسجد نظر نہیں آتی۔ پھر ہندوستان پر محمد بن قاسم ثقفی ؒ سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کی حکمرانی کا ڈومیسائل نظر نہیں آتا۔
اصل میں بھارت نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی ہوئی ہے۔ یہ وہی پرانا طریقہ ہے جو آریوں نے ہندوستان کی قدیم آبادی دراوڑوں کے ساتھ روا رکھا تھا، پہلے انہیں جنگ میں شکست دی پھر محکوم بنا لیا، قدیم آبادی کی زمینیں زبردستی سے چھینی، ان کو مار مار کے آبادیوں کے باہر مضافات میں منتقل کردیا، ان کو ذات پات کے سب سے نچلے درجے میں شودر بنا دیا، انہیں سڑکوں پر صفائی کرنے اور لیٹرینیں صاف کرنے پر لگا دیا، اعلیٰ ذات کے ہندو ان کو مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتے، ان کے سارے انسانی حقوق ہڑپ کر لئے گئے۔ یہ ذات پات بھارت میں اب بھی ہے، کچھ عرصہ پہلے مودی حکومت میں سڑک پر ایکسیڈنٹ میں ایک شودر مر گیا اور اس وقت کے وزیردفاع نے کہا تھا کہ ایک کتا مر گیا تو کیا ہوا۔ یہی کچھ ہٹلر صفت مودی نے گجرات کا وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے کیا تھا۔ ہزاروں مسلمانوں کو آر ایس ایس کے غنڈوں اور ریاستی پولیس سے قتل کروایا۔ لوگوں کو ان کے آبائی گھروں سے نکال دیا۔ وہ مضافات میں جھونپڑیاں بنا کر رہنے پر مجبور ہوئے، جہاں پانی اور سیوریج کے نظام کا کوئی انتظام نہیں، اسی سفاکیت پر امریکا نے ہٹلر صفت مودی کو امریکا میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگائی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوتوا پر گامزن مودی بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی پر اُتر آیا ہے۔ نسل کشی کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ نے کچھ دن پہلے مودی حکومت کی اس نسل کشی کی رپورٹ جاری کی تھی۔ بھارت کے مسلمانوں کو متحد ہو کر اس پر تحریک چلانی چاہئے، اگر بھارت کے مسلمان اپنی حفاظت کے لئے اُٹھ کھڑے نہیں ہوں گے تو قوم پرست ہٹلر صفت متعصب مودی مسلمانوں کو دڑاوروں کی طرح نجلی ذات بنا دے گا۔ مسلمان بیٹی مسکان نے بھارت کے مسلمانوں کو جرأت کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو یک جان ہو کر اپنی مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ نظر آرہا ہے کہ بھارت کے مسلمان بھارت سے علیحدہ ایک اور پاکستان بنانے کے راستے پر ڈالے جارہے ہیں۔ بھارت میں دیوبند کے علمائے کرام نے شیرنی مسکان کے لئے اس بہادری ہر پانچ لاکھ انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ بھارت میں سیکولرزم کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کو قائداعظمؒ کی سوچ کی طرف پلٹنا چاہئے۔ جبکہ پاکستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنا چاہئے تاکہ بھارت کے مسلمانوں کی طرف آر ایس ایس کے غنڈے نظر اُٹھا کر نہ دیکھ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت میں زندہ رہیں اور زندہ رہنے کے اصولوں پر ہندو اور مسلمان عمل کریں، ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں، یہی آج کل کی جمہوری دُنیا کا طریقہ ہے۔