Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارت کی مسلسل ناکامیاں

نصرت مرزا

بھارت کے 38000 کلومیٹر سے زیادہ کا رقبہ چین نے قبضہ کرلیا ہے، تبت کے علاقے میں چین پانی کا ڈیم بنا رہا ہے
انڈیا اور چین کے درمیان جو کشیدگی ہے اس میں انڈیا کو مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ بھارت کے 38000 کلومیٹر سے زیادہ کا رقبہ چین نے قبضہ کرلیا ہے۔ تبت کے علاقے میں چین پانی کا ڈیم بنا رہا ہے، اس کے علاوہ ارون چل پردیش کی ریاست کو چین اپنا حصہ 2006ء سے قرار دیتا رہا ہے اور دیگر علاقہ جات پر چین کی نظر ہے۔ چین نے نیپال کو بھارت کے خلاف کردیا، اس نے بھوٹان کو اپنے ساتھ ملا لیا، اس کے علاوہ بنگلہ دیش کو بھی بھارت سے دور کردیا، اس طرح بھارت کو زبردست سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گلوان وادی کے علاوہ دولت بیگ اولڈی کے ملٹری اڈے کے اوپر کی چوٹیوں پر بھی چینی فوج آکر براجمان ہوگئی ہے۔ بھارت کے سینکڑوں فوجیوں کو مار ڈالا، درجنوں کو گرفتار کیا اور پھر گفتگوکاری کے بعد رہا کردیا، اس کے بعد بھارت کے ایک جنرل جو سیاچن میں تعنیات رہا ہے کا کہنا تھا کہ چینی سرد علاقوں میں جنگ کا تجربہ نہیں رکھتا، اس نے یہاں تک کہا کہ پاکستان 1984ء سے اب تک بھارت کو سیاچن سے نہیں نکال سکا جو غلط بات ہے کیونکہ بھارت اچانک سیاچن میں داخل ہوا مگر اس کے بعد پاکستان نے اس کے آگے بڑھنے نہ دیا۔ اس ساری ناکامیوں کے پیچھے جہاں بھارتی انٹیلی جنس کی خامیاں اور ناکامیوں کے بعد بھارت کا یہ کہنا تھا کہ چین فوج سرد علاقے میں نہیں لڑ سکتی ہیں، وہاں ان کے جواب میں کھسیانی بلی کھمباں نوچے کے مصداق ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ چین سردیوں میں جنگ لڑنے کی تربیت کینیڈا سے حاصل کررہا ہے۔ یہ اطلاع کینیڈا کے ایک نیو نیٹ ورک جسے ریبل نیوز کہا جاتا ہے، یہ خبر دی ہے۔ اس نے 34 صفحات پر مشتمل چین کی فائل یا چائنا فائلز سے یہ خبر نکال کر دُنیا کو مطلع کیا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کینیڈا کی کنکٹسن انسٹیٹیوٹ جو اونتاریو میں واقع ہے اور دوسرے کینیڈا کی افواج کا کالج ٹورنٹو میں ہے، وہاں کے سردیوں میں جنگ کی تربیت لے رہے ہیں۔ ایک بھارتی لیفٹیننٹ جنرل سنجے کلکرنی کا کہنا تھا کہ چین کو سردیوں میں جنگ لڑنے کا تجربہ نہیں ہے، سو وہ نہ صرف تربیت حاصل کررہے ہیں بلکہ اس طرح وہ تجربہ بھی کررہے ہیں۔ وہ کینیڈین فورسز سے سردیوں میں ہائی الٹیٹیوڈ یا اونچے مقام پر جنگ لڑنے کے طریقے سیکھ رہے ہیں جہاں برف جمی ہو وہاں کیسےٹیکٹکس اور تکنیک کو بروئے کار لا کر جنگ میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ شدید سردی کے علاقے اور اونچے مقام پر جنگ لڑنے کے الگ انداز ہوتے ہیں جو سرد ملکوں سے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے سو چینی یہ کام 2018 ء سے کررہے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اکتوبر 2019ء میں چین کے شہر وہان میں ہونے والی ٹریننگ میں کینیڈا کے 200 فوجیوں نے حصہ لیا تھا اور پھر کینیڈین نیوی نے چین کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر کوئن ڈھاؤ (قینڑھاؤ) کے مقام میں بھی شرکت کی تھی۔ کینیڈا اور چین کے درمیان تعلقات کافی بڑھ گئے ہیں، اگرچہ دو کینیڈین کو جنہوں نے پکڑا ہوا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں اور نریندر مودی نے بھی کینیڈا کے وزیراعظم کے دورۂ بھارت کے موقع اپنے مہمان کے ساتھ بُرا سلوک کیا تھا، اس لئے کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو چین کے ساتھ گرم جوش تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس کا اظہار برملا کررہے ہیں۔ اس طرح وہ چین کو سردیوں میں جنگ کرنے کی صلاحیت کی آگاہیکنوو هوو دینے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
ریبل نیوز
نے کچھ سیکریٹ دستاویز بھی حاصل کی ہیں، جس کی رو سے جو تربیت کینیڈین فورسز چنیوں کو دے رہی تھی، وہ ایک وقت میں وہاں کے سی اواے نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ مگر پھر اس کو یہ کہہ کر جاری کردی گئی، یہ ٹریننگ بغیر پرونے کونسل کے حکمنامے کے نہیں روکی جا سکتی۔ اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہے کہ چین 2018ء سے سردیوں خصوصاً -40 سینٹی گریڈ اور اونچے مقام ہائی الٹیٹیوڈ پر لڑنے کی تربیت حاصل کرتا رہا ہے۔ یوں جنرل کلکرنی کا یہ کہنا غلط ہے کہ چینی ہائی الٹیٹیوڈ پر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور کینیڈا کے درمیان معاشی تعلقات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور اس کا اظہار چین اور امریکا معاشی ریویو سیکیورٹی کمیشن کی رپورٹ جو یکم دسمبر 2020ء کو جاری کی گئی کے مطابق آٹھ ماہ کی انڈیا اور چین کے درمیان ایل اے سی پر کشیدگی کے موجودہ دور کی سب سے بڑی کشیدگی یا اسٹینڈ اوفکہا جاسکتا ہے اور امریکا تو ہمیشہ کی طرح ایک جانبدارانہ رائے رکھنے والا ملک ہے، اس کے مطابق چین اس کا ذمہ دار ہے جو غلط ہے۔ یہ انڈیا ہے کہ موجودہ کشیدگی کا ذمہ دار ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر و لداخ کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے پاکستان اور چین کے علاقہ جات پر قبضہ جمانے کا ارادہ کا اعلان کیا اور اس کے لئے انڈیا اِن علاقہ جات میں ہیکل اساس امریکا کی شہ اور مدد سے بنا رہا تھا اور اب ایسے کاموں میں تیزی آ گئی ہے کیونکہ امریکا اس کی مدد کو آ گیا ہے اور اُسے امداد دینے میں بھی پیش پیش ہے مگر امداد دینے کے لئے کرونا کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اسی طرح وہ تائیوان کی مدد بھی کررہا ہے۔ پھر امریکا نے دی ایڈوانٹیج سی ڈاکٹرائن کا اعلان 19 دسمبر 2020ء کو کردیا کہ وہ اپنی بحری قوت جس میں اُس کو بہت برتری حاصل ہے اُس کو بروئے کار لائے گا۔ امریکا یہ الزام بھی لگا رہا ہے کہ چینی وزیردفاع نے گلوان وادی کے تصادم سے دو ہفتے پہلے انڈیا کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ امریکا سے دوستی کی طرف بڑھا تو اُس کو سخت ترین سزا کے مرحلے سے گزارا جائے گا۔
امریکی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ انڈیا کو گلوان وادی میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس نے نہ تو امریکا سے تعلقات ختم کئے اور نہ ہی انفرااسٹرکچر بنانے میں کسی کوتاہی یا سستی سے کام لیا۔ تیزی سے امریکا سے تعلقات بڑھا رہا ہے اور چین کے اطراف انفرااسٹرکچر کو بھی بنانے میں تندہی سے جتا ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں اور نہ ہی چین فائلز ٖ میں ایسے شواہد ملے جو ثابت کرسکیں کہ چین لداخ پر قبضہ کرنے کا کوئی طے شدہ منصوبہ رکھتا تھا۔ یہ سب کچھ 5 اگست 2019ء سے شروع ہوا جب بھارت نے اپنے عزائم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کے آزاد کشمیر اور چین کے اسکائی چین اور لداخ پر اپنا حق رکھتا ہے اور اس نے اس کا برملا اظہار اپنے ہی دستور کی شق 370 کو ختم کرکے کیا۔ تو انڈیا نئی دُنیا کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار قرار پائے گا۔ آسٹریلیا سڈنی لووی انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر سارے معاملے کو میریٹ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو انڈیا ہی اِس کشیدگی کا ذمہ دار اور اس کشیدگی کے پگلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کیونکہ چین اور بھارت کے ٹینک کلاش علاقہ میں ایک دوسرے سے 20 میٹر کے فاصلے پر آمنے سامنے پوزیشن لئے کھڑے ہیں، چینیوں نے بھارت اور چین کے تعلقات کی سترویں سالگرہ کے موقع پر یادگاری پوسٹل ٹکٹ جاری کرنا روک دیا، چین اور بھارت کے درمیان بات چیت کے عمومی اور طے شدہ مذاکرات کے دروازے بند ہوگئے ہیں جبکہ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت اور چین آپس میں لڑیں تو اس کی بالادستی دنیا پر قائم ہو۔

مطلقہ خبریں