منیر احمد بلوچ
DRDO بھارتی فوج اس وقت چکی کے جن دو پاٹوں میں پھنستی جا رہی ہے ان میں سے ایک بھارت کی
کی تیارکردہ دھنوش نامی وہ توپیں ہیں جن کے متعلق بھارت نے 2015ء سے دُنیا بھر میں شور مچا رکھا ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی بھی اسلحہ ساز ادارہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی نمائش دنیا بھر کے فوجی اور سفارتی نمائندوں کی موجودگی میں اس سال 26 جنوری کو نئی دہلی میں بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر بلند باگ دعوؤں کے ساتھ کی گئی تھی، لیکن جب ان توپوں کی عملی نمائش کی گئی تو… سب کے پسینے چھوٹ گئے۔ کسی بھی توپ کا گولہ چلاتے وقت اس طرح جھٹکا لگتا ہے کہ بیرل کا منہ اوپر کی جانب اٹھ جاتا ہے اور یہ معمول کی بات ہے، لیکن دھنوش کو تیار کرنے والے اس کے بیرل کی لمبائی اور فائرنگ کے وقت لگنے والے جھٹکے سے ٹارگٹ کی نشاندہی کے معاملے کو مدنظر رکھنا بھول گئے۔ ساتھ ہی یہ ہوا کہ فائر کے بعد بیرل جب پیچھے کی جانب آیا تو اسے کنٹرول کرنے کے لئے تیل اور گیس کے مکسچر سے کام کرنے والی SEAL یہ جھٹکا برداشت نہ کرسکی اور پھٹ گئی۔ بھارتی انجینئرز اسے معمولی خرابی سمجھتے ہوئے ان توپوں کو 14ویں کور کے ہیڈکوارٹر لے گئے لیکن دو ماہ تک دن رات ایک کرنے کے باوجود بھارت کی یہ مشہور زمانہ دھنوش توپیں، جنہیں سویڈن کی بوفورس کا متبادل کہا جا رہا تھا، ابھی تک ندامت سے سر جھکائے خاموش کھڑی ہیں۔ چکی کا دوسرا پاٹ ذات پات اور مذہب کی وہ تفاوت ہے، جس نے ٹروپس کے درمیان دوریاں ہی نہیں بلکہ نفرتیں پیدا کر دی ہیں۔ اروناچل پردیش کے علاقے توانگ میں 30 مئی کو مارٹر گنز کی فائرنگ پریکٹس کے دوران ایک نائک کی غلطی سے ایک جانب کھڑے ہوئے بھارتی فوج کے دو جوان ہلاک اور چار شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کی کورٹ انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس سے دو دن پہلے رونما ہوا، جس میں مارٹر گن فائرنگ کی غلطی سے تھوڑی دور کھڑے ہوئے تین بھارتی جوان مارے گئے۔ بھارتی فوج کے جوانوں کے ہلاک ہونے کے یہ واقعات اتفاقیہ تھے یا اس کے پس پردہ کوئی اور کہانی ہے؟ کل تک بھارتی آرمی چیف کی زبان پر یہ الفاظ ہوا کرتے تھے کہ ہم پاکستان کو سبق سکھا دیں گے، ہم سرجیکل اسٹرائیکس کریں گے، لیکن 30 مئی کی دوپہر اچانک ٹائمز آف انڈیا کے ایک سوال کے جواب میں اسی آرمی چیف کی زبان سے یہ الفاظ کس طرح نکلنا شروع ہوگئے کہ پاکستان سے کسی بھی قسم کی محدود جنگ کا دور دور تک کوئی امکان نہیں؟ یک دم یہ یْو ٹرن اپنے اندر کیا معنی رکھتا ہے؟ اس پر غور کرنا ہوگا کہ آیا بھارت واقعی امن کے لئے سنجیدگی سے سوچنا شروع ہوگیا ہے؟ یہ اس لئے ناقابل یقین ہے کہ نریندر مودی اگلے الیکشن میں پاکستانی سرحدوں کے آر پار کچھ کرنے سے ہی کامیابی حاصل کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ جس قسم کی آگ اور نفرت بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ نے گزشتہ چند سالوں میں اپنی جنتا کے دلوں میں پاکستان کے خلاف بھڑکائی ہے، اس پر مزید تیل نہ پھینکا گیا تو ان کے لئے دوبارہ کامیابی حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ 30 مئی کو بھارت کے آرمی چیف بپن راوت کی میڈیا سے کی گئی گفتگو کے پیچھے پاکستان سے تعلقات کی بہتری کی خواہش ہے۔ ممکن ہے پس پردہ کچھ اور وجوہ ہوں جنہوں نے بھارتی فوج کا اپنا امن و سکون چھین لیا ہے۔ پاکستان کے لئے یقین کرنا بہت ہی مشکل ہوگا کہ مودی سرکار نیکی کی راہ پر چلنا شروع ہوگئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی وقتی پسپائی کے پیچھے ان کا کوئی اپنا سیاپا ہو؟ کیونکہ اس وقت بھارتی فوج کی بیرکوں اور فوجی چھاؤنیوں کے فیملی کوارٹرز سے جو خبریں باہر آ رہی ہیں، وہ اس لئے پریشان کن ہیں کہ ہر دس پندرہ روز بعد ایمبولینسوں میں رکھے ہوئے چار پانچ تابوت ان کوارٹرز سے ملحق چھاؤنیوں سے باہر نکلتے ہوئے اکثر دیکھے جا رہے ہیں۔ ان تابوتوں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انہیں متعلقہ جوانوں کے آبائی گھروں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج نے انہیں چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن مقبوضہ کشمیر کے بارڈر پر تعینات بارڈر سیکیورٹی فورس کے حوالدار تیج بہادر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے واقعے کے بعد اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور واٹس ایپ جیسے کسی نہ کسی ذرائع سے چھاؤنیوں کے اندر کی خبریں باہر نکلنا شروع ہوچکی ہیں۔ جو معاملہ بھارتی فوج کی یونٹوں اور پلٹنوں میں اس بے چینی کی سب سے بڑی وجہ ہے، وہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز میں ذات پات کا وہ نفرت اور حقارت آمیر رویہ ہے، جو اب باقاعدہ بیرکوں اور جوانوں کے لنگر خانوں میں لڑائی جھگڑوں اور گالم گلوچ کا باعث بنتا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مختلف بہانوں سے ہر کمپنی اور بریگیڈ میں شامل یہ لوگ ایک دوسرے کو نفرت اور حقارت کا نشانہ محض لفظوں سے نہیں بلکہ گولیوں سے بھی بنانا شروع ہو گئے ہیں اور اس کے لئے نشانہ بازی اور چاند ماری کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی افواج میں ہتھیاروں کی مہارت اور مشقوں کے دوران اس قسم کے واقعات کا ہونا کوئی اچنبھا نہیں، لیکن جب یہ ’’حادثات‘‘ تواتر سے ہونا شروع ہوجائیں تو پھر دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کی وجہ کچھ اور تو نہیں؟ اور بھارتی فوج میں اس سال جنوری میں 81 ایم ایم کے مارٹر مشقوں والے حادثے سے لے کر اب تک ایک دو نہیں بلکہ ہر پانچ دس روز بعد ’’فرینڈلی فائرنگ‘‘ یا گن اور مارٹر کا نشانہ چوک جانا کچھ تو معنی رکھتا ہے اور بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس اسے اچھی طرح جان چکی ہوگی… کیونکہ جس ذات کے لوگ اتفاقیہ طور پر مار دیئے جاتے ہیں وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے موقع کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ یہ معاملہ بھارتی جنرلز کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ مودی جی کے کہنے پر کل کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی جنگی مہم شروع کی گئی تو انہیں خدشہ ہے کہ یہ آپس کے بدلے کہیں سرحدوں پر ہی شروع نہ ہو جائیں جہاں ایسے کاموں کے لئے میدان کھلا ہوتا ہے۔ ابھی دو دن ہوئے راجستھان کے علاقے گنگا کرشن میں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کو چاند ماری اور کچھ نئے ہتھیاروں کی تربیت دی جا رہی تھی کہ اچانک ٹھاکر قوم سے تعلق رکھنے والے ایک جوان نے گرتے ہوئے اپنی گن کا رخ کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے ان ہندو سپاہیوں کی جانب کردیا، جس سے بارڈر سکیورٹی کے سات جوان شدید زخمی ہو گئے۔(دنیا، 17 جون)
# امریکی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات میں پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے وفد نے سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور اسے سراہا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کے وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ وفد میں لنزے گراہم، شیلڈن وائٹ ہاؤس، الزبتھ وارین، ڈیوڈ پرڈیو اور امریکی ناظم الامور برائے پاکستان مسٹر جوناتھن بھی شامل تھے۔ اس موقع پر وفد کو افغانستان سمیت خطے کی مجموعی سیکیورٹی کی صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا جبکہ خطے کے امن و استحکام کے لئے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے مثبت اقدمات پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کا دورہ کرنے، موجودہ چیلنجز اور سیاسی و جغرافیائی صورتِ حال کے حوالے سے باہمی سمجھوتے کی کوششیں کرنے پر امریکی وفد کا شکریہ ادا کیا۔ سربراہ پاک فوج نے وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ مسائل کے باوجود پاکستان نے خطے کے امن و استحکام کے لئے ہرممکن کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا البتہ اس مقصد کے حصول کے لئے پاک امریکا سیکیورٹی تعاون انتہائی اہم ہے۔ امریکی وفد کے سربراہ سینیٹر جان مکین نے اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کاوشوں اور قربانیوں کا اعتراف کیا اور اسے سراہا۔ امریکی وفد نے پاک افغان سیکیورٹی تعاون اور ہم آہنگی کی اہمیت سے بھی اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ سینیٹر جان مکین کی قیادت میں امریکی وفد پاکستان کے دورے پر ہے اور قبل ازیں وفد نے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی تھی۔