ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
بھارت میں ہندوؤں کی مسلم دشمنی ہر آئے دن نئی حد عبور کررہی ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ستیش گوتم کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ یونین ہال میں لگی بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کو ہٹانے کا مطالبہ اس کا ایک اظہار ہے۔ یہ مطالبہ صرف ایک رکن پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ اسے پورا کرنے کے لئے ہندو احیا پسند تنظیمیں بھی ستیش گوتم کی پشت پر ہیں۔ ان تنظیموں ہندو جاگرن منچ، ہندو یووا واہنی اور بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی کے کارکنوں نے ستیش گوتم کی تحریک پر مسلم یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا۔ اسی دوران لکھنو کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کو وہاں سے ہٹنا چاہئے کیونکہ جناح ہمارے لیڈر نہیں بلکہ ہمارے دشمن تھے۔
ہندو لیڈروں کے اس مسلم دشمن رویے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شرپسندوں کا ہدف بننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقبوضہ کشمیر کے بعد اب پاکستان اور قائداعظم کے حق میں نعرے مسلمانوں کے سب سے بڑے اور تاریخی تعلیمی مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی لگائے جارہے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین ہال میں 1938ء سے آویزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے تاحیات رکن تھے اور یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔ یہاں قائداعظم کی تصویر یونین کے اسی پروٹوکول کے تحت لگائی گئی کہ یونین یونیورسٹی میں جس کا بھی خیرمقدم کرتی ہے اس کی تصویر آویزاں کرتی ہے۔ یونین ہال میں گاندھی جی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سمیت متعدد رہنماؤں کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ کیا اب دوسرے مسلم رہنماؤں کی تصویریں بھی یہاں سے ہٹائی جائیں گی اور خدانخواستہ بتدریج یونیورسٹی کا مسلم نام اور تشخص بھی ختم کردیا جائے گا۔
اس خدشے کا سبب قائداعظم کے بعد یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کی تصویر پر بھی ہونے والا ہنگامہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستانی محمد علی جناح کی تصویر پر ہنگامہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ یونیورسٹی کی بانی ایک اور شخصیت کی تصویر پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ علی گڑھ کے خیر قصبے میں موجودہ پی ڈبلیو ڈی کے گیسٹ ہاؤس سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کی تصویر ایک مقامی ہندو لیڈر کے کہنے پر ہٹا دی گئی جبکہ یہاں پر مہاتما گاندھی، ڈاکٹر بھیم راو امبیدکر اور لال بہادر شاستری کی تصاویر آویزاں ہیں۔ بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے فکری رہنما ایم ایس گول والکر نے لکھا ہے کہ بھارت میں رہنے والے غیرہندو عناصر کے لئے دو ہی راستے ہیں کہ یا وہ ہندو مذہب میں اپنے آپ کو ضم کریں، ہندو ثقافت کو اپنائیں اور اپنے تشخص سے دستبردار ہوں یا مقامی لوگوں کے رحم و کرم پر تب تک زندہ رہیں جب تک وہ انہیں اس کی اجازت دیں۔ ان کے لئے اس کے علاوہ ایک اور راستہ بھی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ ان کے مفاد میں اور دلیل پر مبنی حل یہی ہے۔ گول والکر بھارت کے تمام غیر ہندو عناصر کو دشمن اور غدار قرار دیتا ہے۔ وہ ہندوستان میں رہنے والے غیرہندوؤں کو ہندوؤں کے مماثل دیئے گئے آئینی حقوق کو بھی درست تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنی جائیداد کی تقسیم میں بچوں کے ساتھ چوروں کو بھی شامل کر لے۔
مسلم دشمنی بھارت کے مقتدر حلقوں میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ انہیں اسے بطور حکومتی پالیسی کے بیان کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ یو پی بھارت کا وہ صوبہ ہے جس کی آبادی سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کے برابر یعنی 22 کروڑ ہے۔ یو پی میں کٹر ہندو دہشت گرد سیاست دان آدیتا ناتھ یوگی وزیراعلیٰ بن گیا۔ یوگی کا وزیراعلیٰ بننے کا عمل بھارت کے انتخابی عمل پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ یہ کیسی شفاف جمہوریت ہے جہاں اکثریتی مسلم صوبے میں ایک انتہا پرست ہندو لیڈر وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے۔ یعنی بی جے پی نے بھارت کے انتخابی نظام کو بھی مختلف حربوں سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یوگی کے نزدیک بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں کسی اور مذہب کے پیروکاروں کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ وزیراعلیٰ یوگی نے اپنی ایک دھرمی فوج یوہاوا ہنی بنا رکھی ہے جس کا ایجنڈا پورے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا ہے۔ یوہاواہنی نے منظم مہم کے ذریعے سینکڑوں عیسائیوں کو ہندو بنایا۔ 2013ء میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم شروع کردی گئی۔ یو پی میں مسلمانوں کی جان اور املاک کو تباہ کرنے کی کتنی ہی بار یوہاوا ہنی نے منظم مہمیں چلائیں جس سے انتظامیہ نے آنکھیں بند رکھیں اور یوہاوا ہنی کے خلاف کبھی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ یو پی میں محرم کے جلوسوں پر حملے، مساجد کو جلانا اور مسلمان مسافروں کی ٹرینوں کو نذر آتش کر دینا یوہاوا ہنی کی معمول کی سرگرمیاں ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی یہ حالت زار صرف نمونے کا بیان ہے۔ قومی زندگی میں ترقی کا حصہ بننا بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک خواب ہے۔ کسی بھی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں عملاً وہ بھارت میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں جن کے لئے اکثریتی آبادی کوئی ہمدردی یا ان کی مشکلات کے ازالے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی بنیادوں پر بھی بھارتی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے بارے میں کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کے سیکولر حلقے بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں لب کشائی تک کے روادار نہیں۔ پارلیمنٹ سے کارنر میٹنگوں تک انسانی حقوق کی رٹ لگانے اور انسانی حقوق کی آڑ میں پاکستان دشمنی کا زہر اگلنے والے سیاستدانوں اور دانشوروں کو بھارتی مسلمانوں کے لئے چند الفاظ تک کہنے کے توفیق نہیں ہوسکی۔ پاکستان کا قیام بھارت کے ہندو مظالم کے شکار موجودہ مسلم عوام کے اجداد کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ بطور پاکستانی شہری ہم ہندو دشمنی کی اس منظم مہم سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ پاکستانی مسلمان تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ہوں گے اگر وہ اپنی اس تاریخی ذمہ داری سے چشم پوشی کریں گے۔ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل صرف اور صرف اسلام کی آفاقی دعوت کو پھیلانے میں ہے۔ بھارت کے ہندو معاشرے میں جہاں گائے کے حقوق ہیں مگر ان انسانوں کے حقوق نہیں جن کا جرم صرف اسلام ہے۔ یہ حقیقت بھارت نواز سیکولر حلقے قبول نہیں کریں گے مگر پاکستان قائم نہ ہونے کی صورت میں بھارت میں ہماری حالت زار کا مداوا کیا ہوتا، اس سوال کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ پاکستان کے عوام کو مذہی اور سیاسی افتراق میں اپنی قومی زندگی کو ضائع کرنے کی بجائے برصغیر کے ان انسانی مسائل کے حل کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا جو ہندو ذہن کی غیرانسانی طبقاتی سوچ اور انسانی حرمت کی پامالی کا نتیجہ ہیں۔ ہندو ذہن کی غیرانسانی طبقاتی سوچ کا جواب صرف اور صرف اسلام کی دعوت اور ہندو جبر کے شکار عوام کو اسلام کی آفاقی انسانی اقدار سے آشنا کرنا ہے۔