سہیل احمد قیصر
سیاسی جماعتوں میں رقابت ایک فطری امر ہے لیکن جب اس چپقلش کی بنیاد مذہب کو بھی بنا لیا جائے تو عداوت کا رخ لامحالہ مذہب کی طرف مڑ جاتا ہے۔ آج کے بھار ت میں بادی النظر میں یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ افسوس کی بات ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ بھارت میں آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے تناظر میں اس منافرت کو مزید بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت پاکستان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ دوستی چاہتا ہے تو اْسے سیکولر بننا پڑے گا۔ دوسری طرف سیکولر بھارت میں جو کچھ اقلیتوں، خصوصاً مسلم اقلیت کے ساتھ کیا جارہا ہے اِسے معلوم نہیں سیکولر ازم کی کون سی شکل قرار دیا جائے گا؟ ہمارے ملک میں بھی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر انگلیاں اْٹھائی جاسکتی ہیں لیکن یہ صورتِ حال بہرحال ویسی نہیں جیسی بھارت میں پیدا ہوچکی ہے۔ سرحد کے اُس پار ہونے والے اقلیت کش یا زیادہ آسان الفاظ میں مسلم کش فسادات تو اب معمول بن چکے ہیں۔ دراصل بی جے پی نے میدانِ سیاست میں مذہب کے نام پر بہت کامیاب سیاسی تجربات کئے ہیں۔ ان تجربات کی کامیابی کے باعث اِس نے مذہبی منافرت کو گویا باقاعدہ ایک سائنس بنا دیا ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب وہاں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، ایک مرتبہ پھر انہیں تجربات سے استفادہ کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات کو بغور جائزہ لیں تو کہیں نہ کہیں منافرت کی یہ آنچ سلگتی ہی نظر آئے گی۔ گزشتہ سال رام نومی تہوار کے موقع پر بھارت کی مختلف ریاستوں میں جو کچھ ہوا اْس نے ایک مرتبہ پھر سیکولر بھارت کی بنیادیں ہلائیں۔ یہ چاہے مغربی بنگال کے شہر ہوں یا پھر بہار کے علاقے اْڑیسہ ہو یا پھر اُترپردیش کے اضلاع سب مقامات پر ایک ہی طرز پر اس تہوار کے جلوس نکلے، ایک ہی طرح کے ملبوسات پہنے، ہاتھوں میں تلواریں لئے افراد نے ان میں شرکت کی اور ایک ہی طریقے سے مسلمانوں کو اشتعال دلایا جاتا رہا۔ ان جلوسوں میں ایسے گانے بجائے گئے جن کے باعث فضا کشیدہ ہوئی، اگر آپ یوٹیوب پر ان گیتوں کو سنیں تو شاید سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہی ان کو سن کر آپ کو غصہ آنے لگے گا۔ حیرت انگیز طور پر بیشتر مقامات پر ان واقعات میں مماثلت پائی گئی۔ ریاست بہار کے علاقے اورنگ آباد میں مسلمانوں کی عیدگاہ پر شدت پسند ہندو جماعت بجرنگ دل کا پرچم لگایا گیا۔ جلوس کو مسلمانوں کے گنجان آباد علاقے سے گزارنے کی کوشش کی گئی۔ کشیدگی پیدا ہوئی تو پھر چن چن کر مسلمانوں کی دکانیں جلائی گئیں۔ ہندو مذہب میں چیتی درگاہ کے نام پر بھی سالانہ پوجا ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس تہوار پر بھی وہی کچھ دہرایا گیا جو کچھ رام نومی تہوار پر کیا گیا تھا۔ نواڈا میں مورتی توڑنے کا الزام لگا کر اور روسٹرا میں مسجد پر حملہ کرکے کشیدگی بڑھائی گئی اور ان علاقوں میں بھی مسلمانوں کی دکانیں جلائی گئیں۔
یہ ہے مختصر طور پر وہ صورتِ حال جو انتخابات کی آمد پر سیکولر بھارت میں پیدا کردی گئی ہے اور مشورے پاکستان کو سیکولر ہونے کے دیئے جارہے ہیں۔ اس صورتِ حال پر دوسرے تو انگلیاں اْٹھا ہی رہے ہیں، خود بھارت میں متعدد حلقوں کی طرف سے ایسے خدشات کا اظہار سامنے آرہا ہے کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے، صورتِ حال مزید خراب ہوتی جائے گی یا خراب کردی جائے گی۔ یہ بھی انتخابات کی آمد کے باعث ہی ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے مسئلے کو پھر پورے زور و شور سے اْٹھایا گیا ہے۔ سخت گیر ہندو رہنما جابجا اپنے بیانات میں ہندوؤں کو اْکسا رہے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یہ سب کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مسلم ناموں والے علاقوں کے نام تبدیل کرنے کی مہم کو بھی عروج پر پہنچا دیا گیا ہے۔ بمبئی کا ممبئی ہونا، مدراس کا چنائے بن جانا یا پھر کلکتہ کو کولکتہ بنا دیا جانا، تو پرانی بات ہوچکی اور شاید ہمارے ہاں زیادہ لوگ بھی انہیں شہروں کے ناموں کی تبدیلی سے آگاہ ہوں گے لیکن بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ انتخابات کے تناظر میں اس سال ناموں کی تبدیلی کا آغاز اُترپردیش سے کیا گیا تھا، جہاں برطانوی دور کے مشہور ریلوے اسٹیشن مغل سرائے کا نام تبدیل کرکے دین دھیال اپادھائے کے نام منسوب کردیا گیا۔ مشہور شہر الہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا۔ ہندو بھگوان رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے مشہور شہر فیض آباد کو ایودھیا کا نام دے دیا گیا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں 1992ء میں بابری مسجد کے معاملے پر خوفناک فسادات ہوئے تھے، جن میں قریباً 2 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ تاج محل کے میزبان آگرہ اور گجرات کے دارالحکومت احمد آباد کے نام تبدیل کرنے کا بھی ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ اس کو اگر تاریخ سے مسلمانوں کا کردار ختم کرنے کا نام نہ دیا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کافی فراخ دلی سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں بھی ناموں کی تبدیلی والے مقامات کی ایک طویل فہرست ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ نہ تو بھارت اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی ایسے مضبوط شواہد ملتے ہیں کہ ناموں کی تبدیلی سے کسی جماعت کے ووٹ بینک میں بہت اضافہ ہوا ہو یا اس پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے ہوں۔ اصل میں تو عام آدمی کی سماجی بہبود کے پروگرام ہی ووٹرز کے لئے طمانیت کا باعث بنتے ہیں تو پھر معلوم نہیں کیوں تاریخ کو بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ شاید ایسے ہی رویوں کا نتیجہ ہے کہ آج اُس خطے میں چرچوں، مساجد اور مندروں کو سیکورٹی کی ضرورت ہے، جہاں ہندو راجے مساجد تعمیر کرا دیا کرتے تھے، تو مسلمان راجوں کی طرف سے تعمیر کروائے جانے والے بے شمار مندر خطے میں جابجا ملتے ہیں۔ برصغیر کے طاقتور ترین مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی مذہبی رواداری کی تو آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے علاوہ دیگر مغل بادشاہوں نے بھی مذہبی آزادیوں کو ترجیح دی لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد سے صورتِ حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ دیکھنا تو یہ ہوگا کہ اب کیا ہوسکتا ہے اور کیا کیا جارہا ہے؟ شدت پسندی چاہے مذہب میں ہو یا سیاست میں، اس کے اچھے نتائج کبھی بھی برآمد نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی صورتِ حال بہت مثالی تو قرار نہیں دی جاسکتی لیکن جس راستے پر بھارت چل نکلا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے۔ اقتدار میں آنا ہر سیاسی پارٹی کا حق ہوتا ہے لیکن اس کے لئے اپنی اقلیتوں کو نشانہ بنانا، اکثریت کو خوش کرنے کے لئے غلط اقدامات اُٹھانا اور پھر خود کو سیکولر بھی کہلانے کو قول و فعل میں تضاد ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بے شک بھارتی آئین سب شہریوں کو بلاامتیاز مذہب و نسل، برابر قرار دیتا ہے لیکن عملاً صورتِ حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے کچھ لکھنے یا کہنے سے یقیناً سرکاروں کے رویوں میں تبدیلی تو نہیں آئے گی۔ وجہ یہ ہے کہ جس ایجنڈے کو لے کر اقتدار کی سیڑھیاں طے کی جاتی ہیں اُسے بغیر نتائج حاصل کئے ترک کردینا سہل نہیں ہوتا۔ ایک ایسی جماعت جو اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہو، جس کے دورِحکومت میں ہر روز 25 سے 30 کسان خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوچکے ہوں۔ شائننگ انڈیا کا خواب دم توڑتا نظر آرہا ہو۔ خود وزیراعظم نریندر مودی رافیل طیاروں کے اسکینڈل میں پھنس چکے ہوں اور پاکستان دشمنی کو ہوا دینا، جس جماعت کی حکمت عملی کا بنیادی نقطہ ہو۔ ان سب حقائق کے پیش نظر بیشتر صورتوں میں یہ بات تقریباً طے ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے انعقاد تک تو اْس کی طرف سے کسی خیر کی خبر کی توقع رکھنا عبث ہے۔
اب آجا کے انتخابات میں کامیابی کا خواب مذہبی منافرت کو ہوا دے کر اور پاکستان کو بُرا بھلا کہہ کر ہی کامیابی کے امکانات کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اور یہی کیا جارہا ہے۔ شاید مفادات کی جنگ میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی کہ پاکستان تو انشااللہ قائم ہی رہے گا لیکن مذہبی منافرت کو بھڑکا کر جو کھیل کھیلا جارہا ہے اْس کا نقصان بہرحال بھگتنا ہی ہوگا اور یہ بات سب کے ہی سمجھنے کی ہے۔