افتخار گیلانی
بیسویں صدی کے اولین عشروں میں جہاں جنوبی ایشیا میں تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لئے رائے عامہ منظم ہوچکی تھی، وہیں کئی طبقات میں یہ احساس بھی قوی تر ہوتا جا رہا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ دوسرے استعمار یعنی ہندو اعلیٰ ذاتوں خصوصاً برہمنوں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور پاور اسٹرکچر میں ان کی حصہ داری محض خواب ہی رہ جائے گی۔ اس کے سدباب کے لئے جن تین لیڈروں نے آواز بلند کی ان میں قائداعظم محمد علی جناح، جنوبی بھارت میں دراوڈ تحریک کے خالق ای وی راما سوامی عرف پیریار اور معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر شامل تھے۔ 8 جنوری 1940ء کو بمبئی میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے ان تینوں لیڈروں کی ایک میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ اس سے قبل 1938ء میں کرپس کمیشن کے سامنے پیریار نے تامل، تیلگو، ملیالم، کنڑا اور تولو زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت کے مطالبہ کو لے کر ایک میمورنڈم بھی دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی لوگ ہندوستان کے اصل باشندے ہیں، جن کو صدیوں پہلے آرین ہندو حملہ آوروں نے جنوبی بھارت کی طرف محدود کرکے ان سے ان کی تہذیب و شناخت چھین لی ہے۔ یہی نظریہ کم و بیش امبیدکر کا بھی تھا، جو دلتوں کو ہندو نچلی ذات کے بجائے ایک علیحدہ قوم تصور کرتے تھے۔ گو کہ بمبئی کی اس میٹنگ کی بہت کم تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں مگر یہ طے ہے کہ مسلم لیڈروں کی کج فہمی اور مہاتما گاندھی کی آڑ میں برہمنوں کی روایتی سیاسی کاریگری نے دراوڈ، دلت اور مسلم اتحاد کی یہ بیل منڈھے چڑھنے نہیں دی۔ اس کے چند ماہ کے بعد ہی مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوگئی۔ قیاس ہے کہ اس اتحاد کی کونپل کو پھوٹنے سے قبل ہی برہمنی نظام نے ایک بے دست وپا پاکستان کے قیام کے مطالبہ پر آمادگی ظاہر کی، تاکہ بھارت کو بلکنستان یعنی مزید تقسیم درتقسیم سے بچا کر اپنی بالادستی اور برتری قائم رکھی جائے۔ خیر فی الوقت بھارت کی انتہائی جنوبی ریاست اور دراوڈ سیاست کے مرکز تامل ناڈو میں سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ گو کہ 1940ء میں اٹھی علیحدہ دراوڈہ ناڈو کی چنگاری کب کی سرد ہوچکی ہے مگر بھارت کے خفیہ اداروں کے حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو ابھی بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ ان کی داخلی سیاست میں بیرونی عوامل کارفرما رہتے ہیں اور ان میں نئی دہلی سے بیزاری اور علیحدگی پسندی کے رجحانات بھی نمایاں ہیں۔ 20 ماہ کے قلیل عرصے میں اس خطے کے دو اہم لیڈروں اور سابق وزرائے اعلیٰ جے للتا اور ایم کروناندھی کی موت سے ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جو نہ صرف صوبہ بلکہ بھارت کی قومی سیاست پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اس صوبے کی سیاست کا سری لنکا کے تامل مسئلہ سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تامل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔ 7 اگست کو کروناندھی کی موت کے بعد بھارت کی دو قومی جماعتیں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے اس صوبے کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں تاکہ ایک تو تامل یا دراوڈ علیحدگی پسند رجحان کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جائے نیز مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس صوبہ کی 39 لوک سبھا کی نشستوں پر دعویٰ مضبوط کیا جائے۔ پیریار کے بعد دراوڈ تحریک کی قیادت ان کے شاگرد سی نٹراجن اناً درائی نے سنبھالی تھی، جنہوں نے شیخ عبداللہ کی طرز پر تامل خودمختاری کے مطالبہ سے دستبردار ہو کر حق خوداختیاری یعنی آٹانومی کا نعرہ دے کر 1967ء میں اپنی پارٹی دراوڈ کھزگم کو بھاری اکثریت دلا کر وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد دراوڈ کھزگم دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ دراوڈ منیتر کھزگم یعنی ڈی ایم کے کی قیادت ایم کروناندھی نے سنبھالی اور انًا دراوڈ منیتر کھزگم (انًا ڈی ایم کے) کی کمان مشہور تامل فلم اسٹار ایم جی راماچندرن کے حصہ میں آئی۔ 1987ء میں رام چندرن یا ایم جی آر کی موت کے بعد فلمی دنیا میں ان کی ہم سفر اور محبوبہ جے جیہ للتا نے ان کی اہلیہ جانکی راماچندرن کو خاصی طویل اور پیچیدہ جدوجہد کے بعد شکست دے کر ان کی میراث پر قبضہ کرکے پارٹی پر کنٹرول حاصل کیا۔ 68 سالہ جیہ للتا دسمبر 2016ء میں انتقال کر گئی۔ وہ ایک پُراسرار شخصیت تھی۔ ان تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھتی تھیں، مگر ان کی کارکردگی پر ہمیشہ ان کی نظریں رہتیں۔ 1967ء کے بعد سے یہ دو جماعتیں باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی آئی ہیں۔ اس وقت آنجہانی جیہ جے للتا کی پارٹی اناً ڈی ایم کے، لوک سبھا کی 37 نشستوں پر قابض ہے۔ اس طرح یہ بی جے پی اور کانگریس کے بعد پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی ہے۔ من موہن سنگھ کی سابق کانگریسی حکومت ڈی ایم کے کی بیساکھیوں پر ٹکی تھی، اسی وجہ سے ان کو تامل پارٹیوں کے وزیروں کی بدعنوانیوں اور اسکینڈلوں کو نظراندازکرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی بھی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود انًا ڈی ایم کے کو خوش رکھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ ایوان بالا میں جہاں وزیراعظم مودی کی حکومت اقلیت میں ہے، کو اکثر قانون سازی کے لئے ان کی مدد درکار رہتی ہے۔ اگرچہ جیہ للتا ایک دراوڑ یعنی برہمن مخالف پارٹی کی سربراہ تھی، مگر وہ خود برہمن تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ جب برہمن کسی تحریک کو دبا نہیں پاتا تو عمر بھر اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کو اپنا کر اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس تھیوری کے ماننے والے ان تامل پارٹیوں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور بے انتہا دولت کے حصول کی تگ و دو کو اسی حکمت عملی کا حصہ بتاتے ہیں۔ 321 قبل مسیح میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے چندر گپت موریہ نے جب اقتدار سنبھالا تو پہلے تو برہمنوں نے اس کی مخالفت کی، مگر بعد میں ایسا اثرورسوخ حاصل کیا کہ عملاً حکومت ایک برہمن کوٹلیہ یا چانکیہ کے سپرد ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جیہ للتا نے جو اپنے پیشروؤں کے برعکس ذاتی طور پر مذہبی خاتون تھی، ہمیشہ ہندو انتہاپسندوں کے ساتھ دوری بنائے رکھی۔ بسا اوقات مرکز میں بی جے پی کے ساتھ سیاسی رشتوں کے باوجود اس نے صوبے میں ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو پنپنے نہیں دیا۔ گو کہ دونوں تامل پارٹیاں اپنے صوبہ کو حق خوداختیاری تو نہیں دلا سکیں، مگر انہوں نے اس کو خوشحال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صوبہ کو وسائل مہیا کروانے کے لئے انہوں نے دہلی میں اپنے اثرورسوخ کا بھرپور استعمال کیا۔ اقتصادی لحاظ سے تامل ناڈو اس وقت بھارت کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے۔ زراعت میں خود کفالت کے علاوہ یہاں صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ بھارت کی دو ٹریلین ڈالر کی معیشت میں اس کا حصہ 210 بلین ڈالر ہے۔ بھارت میں جہاں اوسط فی کس آمدن 86 ہزار سالانہ ہے، وہیں اس صوبہ میں یہ ایک لاکھ 28 ہزار ہے۔ مگر خوشحالی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی یہ صوبہ سرفہرست ہے۔ انتخابات میں یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ جے جیہ للتا کے انتقال کے بعد ان کی قریبی سہیلی وی کے ششی کلا کے بھتیجے ٹی ٹی وی دھیناکرن نے ان کی اسمبلی سیٹ سے قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ان کی پارٹی نے ان کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ایک دیگر لیڈر کو میدان میں اتار کر اس کو پارٹی کا آفیشل نشان دلایا۔ الیکشن کمیشن نے دھینا کرن کو آزاد امیدوار کے بطور پریشر کوکر چناوی نشان تفویض کیا۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے پورے علاقہ میں پریشر کوکر بانٹنے شروع کئے۔ کئی علاقوں میں پریشر کوکروں میں پانچ تا دس ہزار تک کے کوپن بھی تھے، جن کی ادائیگی امیدوار کی جیت کے ساتھ مشروط تھی۔ چنانچہ دھینا کرن نے پارٹی کے آفیشل امیدوار کو چاروں شانے چت کردیا۔ اب سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پریشر کوکر کے بجائے دھینا کرن کو کوئی بھاری بھرکم نشان تفویض کیا جائے، جس کو وہ ووٹروں میں تقسیم نہ کرنے پائے۔ جے للتا کے برعکس کروناندھی پیریار اور انًا درائی کی طرح آخری دم تک ہندو ازم خاص طور پر برہمن واد کے مخالفین میں سے تھے۔ وہ کئی ناولوں، کہانیوں کے تخلیق کار کے علاوہ فلموں کے لئے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ ان کی مشہور ناول پاراسکتی برہمن واد اور اس کے ذریعے جکڑے نظام پر ایک کاری وار ہے۔ اسی نام سے اس پر ایک تامل فلم بھی بنائی گئی تھی، جو خاصے ہنگامے اور سنسر کے بعد 1952ء میں ریلیز ہوگئی تھی۔ وہ سری لنکا میں تامل علیحدگی کے حامی بھی تھے۔ 1997ء میں ایک جوڈیشل کمیشن نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کے قتل میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے سربراہ پربھاکرن کی معاونت کی تھی۔ کروناندھی کی پارٹی اس وقت اندر کمار گجرال کی قیادت میں مرکز کی مخلوط یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ میں شامل تھی اور اس کے کئی لیڈران وزارتی کونسل میں تھے۔ کانگریس نے اس جوڈیشل رپورٹ کو بنیاد بنا کر اس وقت کی گجرال حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ بعد میں ایک دن پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں انہوں نے چند صحافیوں اور اراکین پارلیمان کی معیت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آخر کانگریس یا دیگر پارٹیاں کس منہ سے ان کو سری لنکا کے تامل باغیوں کی حمایت کے الزام سے نوازتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 1984ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈو کو مستقر بنا کر تامل انتہاپسندوں کو گوریلا جنگ کے لئے تیار کرنا شروع کردیا تھا اور پھر 1987ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں کسی طرح وزیراعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی موجودگی میں 40 لاکھ روپے سے بھرا ایک سوٹ کیس پربھاکرن کے حوالے کیا۔ کروناکرن رک رک کر انگریزی میں گفتگو کررہے تھے۔ بیچ میں وہ بے تکان تامل بولنا شروع کرتے تھے، تو ان کے دست راست اور مرکزی وزیر ٹی بھالو اس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے۔ ان کو شکایت تھی کہ سری لنکا کو آگ کے حوالے کرنے اور وہاں کی تامل آبادی میں علیحدگی پسند رجحانات کو آتش دینے کے بعد قومی پارٹیوں کے لیڈران ہمیں ایل ٹی ٹی ای کی حمایت کا الزام دیتے ہیں۔ 2009ء میں سری لنکا کی فوج کی طرف سے ایل ٹی ٹی کے خلاف آل آوٹ آپریشن، پربھاکرن کی ہلاکت اور اس پر بھارتی حکومت کی خاموش رضامندی سے وہ خاصے ناراض تھے۔ کروناندھی کی موت کے بعد سے اب تک ان کے 21 حامیوں نے غم کی شدت سے خودکشی کرلی ہے۔ دسمبر 2016ء میں جیہ للتا کا انتقال ہوا تو اسی طرح ریاست بھر میں خود سوزی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دنیا شاید اس جذباتیت کو مضحکہ خیز یا حیرت انگیز محسوس کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں سیاست دانوں اور غریب و کمزور طبقہ کے درمیان رشتہ دوستی کا ہوتا ہے نہ کہ شمالی بھارت کی طرح مفاد پرستی اور استحصال کا۔ شمالی بھارت میں لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف ناپسندیدگی بلکہ بسا اوقات نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ قصہ مختصر تامل ناڈو کی سیاست اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ کرو ناندھی کے جانشین اور صاحبزادے ایم کے اسٹالن جنہوں نے فی الحال پارٹی کا کاروبار سنبھالا ہوا ہے، بھی کسی موذی مرض کا شکار ہیں۔ صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورتِ حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ 60 کی دہائی کے بعد جس طرح دراوڑ پارٹیوں نے تامل قوم پرستی کو ایڈریس کرتے ہوئے حکومت سازی کرکے علیحدگی پسند رجحانات پر لگام لگا کر رکھ دی تھی، قومی پارٹیوں کے آنے سے یہ رجحانات دوبارہ پنپ سکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال جموں و کشمیر ہے۔ چاہے 1987ء ہو یا 2008ء یا پھر 2010ء یا 2016ء بھارت کی قومی پارٹیوں کی مداخلت سے دبی ہوئی چنگاریاں آگ میں تبدیل ہوتی رہی ہیں، جن کو مقامی پارٹیاں شیخ عبداللہ یا مفتی سعید کی صورت میں دبا کر رکھتی ہیں۔