Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارتی معیشت اور مودی کی سیاست

خالد بھٹی

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ معاشی ترقی کے دعوؤں اور معیشت کی صحت کو لے کر صرف پاکستان میں ہنگامہ کھڑا ہے تو آپ یقیناً غلط سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ معیشت کی حقیقی صورتِ حال کو لے کر جس طرح کے سوالات کا سامنا پاکستانی حکومت کررہی ہے اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو بھی ہے۔ معیشت کو لے کر ہر حکومت بہت حساس ہوتی ہے اور اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ تصویر کا صرف وہ رُخ پیش کرے اور عوام کو دکھائے جوکہ روشن اور مثبت ہو۔ جب سے دنیا پر آزاد منڈی کی معیشت اور نیولبرل معاشی پالیسیوں نے غلبہ اور تسلط حاصل کیا ہے اس وقت سے معاشی ترقی کا تصور، سوچ اور خیالات بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب ماہرین معیشت اور حکومتی نمائندے سارا زور اس بات پر صرف خرچ کرتے ہیں کہ معاشی ترقی کی شرح بلند ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے متعین کردہ اصولوں، پیمانوں اور اعشاریوں کی روشنی میں معیشت کی صحت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، سارا زور اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ حکمران نے اس بات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے کہ محنت کش عوام کو تعلیم، صحت، روزگار، رہائش سمیت بنیادی ضروریات زندگی میسر ہیں۔ ان کی حقیقی آمدنیوں اور اجرتوں میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی واقع ہورہی ہے۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں یا پھر وہ ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے نوکریوں کے حصول کے لئے دھکے کھا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ کم ازکم اجرت کے نام پر جو مذاق انہوں نے محنت کشوں کے ساتھ کیا ہوا ہے اسے ختم ہونا چاہئے۔ محنت کشوں کی کم ازکم اجرت اتنی تو ہونی چاہئے جس میں چار یا چھ افراد کا خاندان اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے۔ حکمرانوں کو اگر معاشی اعشاریے اور اعدادوشمار درست کرنے اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے فرصت ملے تو وہ عام لوگوں کی حالت کو سدھارنے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے بارے میں سوچیں۔
اسی لئے جب بھی کوئی انہیں اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بڑھک اٹھتے ہیں۔ انہیں غصہ آجاتا ہے اور وہ تنقید کرنے والے لوگوں پر ہی برس پڑتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی آج کل اسی قسم کی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سے بی جےپی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر جسونت سنہا نے بھارتی معیشت کی صحت اور صورتِ حال کے بارے میں ایک اخبار میں مضمون لکھا ہے اور حکومتی معاشی پالیسی پر تنقید کی ہے تب سے مودی کا پارہ بہت چڑھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقاد غلط تاثر پیدا کررہے ہیں۔ ایک سہ ماہی کی معاشی گراوٹ یا سست روی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق صورتِ حال اتنی خراب نہیں جتنی بتائی جارہی ہے۔ وزیراعظم مودی دراصل یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ معاشی ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے منفی اثرات پورے سماج پر پڑرہے ہیں۔ خاص طور پر محنت کش عوام اور نوجوان بُری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
حقائق کو تسلیم کرنے اور پھر ان حقائق کی ترجیحات اور پالیسیوں میں تبدیلی نہ لانے کے مرض میں صرف ترقی پذیر ممالک کے حکمران ہی مبتلا نہیں ہیں بلکہ مغربی ممالک کے حکمران بھی اپنے تئیں ایسی ہی کوشش کرتے ہیں مگر جب پکڑے جائیں تو تھوڑا بہت شرمندگی اور خفت کا اظہار کرتے ہیں مگر ہمارے جیسے ممالک میں تو شرمندگی اور خفت حکمرانوں کی لغت میں موجود ہی نہیں ہیں۔ بھارت کے مرکزی ریاستی بینک سے لے کر آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں تک سب یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ بھارت کی معیشت سست روی اور گراوٹ کا شکار ہے مگر بھارتی وزیراعظم یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بھارتی معیشت کو عروج اور ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانے کے دعوے پر برسراقتدار آئے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ کانگریس کے مقابلے میں معیشت کو مضبوط بنائیں گے، غربت کا خاتمہ کریں گے اور بھارت کو ایک بڑی معاشی طاقت بنائیں گے۔ اس وقت بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہو کر 5.7 فیصد تک آچکی ہے۔ جبکہ سابق وزیرخزانہ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کو زیادہ دکھانے کے لئے پیمانے تبدیل کیے گئے ہیں۔ ان کے خیال میں معاشی ترقی کی رفتار گزشتہ سہ ماہی میں 3.7 فیصد کے قریب رہی ہے۔ یہی صورتِ حال پاکستان میں بھی ہے جہاں پر حزب مخالف کے اراکین اور چند ماہرین معیشت وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت کی صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلا موقع ہے کہ نجی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ زراعت کا شعبہ دباؤ کا شکار ہے۔ برآمدات گر رہی ہیں۔ بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرنے والا تعمیرات کا شعبہ بھی گراوٹ کا شکار ہے۔
سب سے پریشان کن صورتِ حال ملازمتوں کے کم ہوتے مواقعوں کے حوالے سے ہے۔ مودی نے 2014ء کے انتخابات کی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرے گا۔ مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوسکا۔ بھارت میں آئی ٹی (آئی ٹی) سے لے کر مالیاتی شعبے اور دیگر صنعتوں میں ملازمتوں کے مواقع تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں نوجوانوں کے لئے ملازمت حاصل کرنا، پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا جارہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کو بھارت میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا مگر اب اس شعبے میں بھی ملازمت کا حصول خواب بنتا جارہا ہے۔
بھارت میں ہر سال ایک کروڑ 20 لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ان نوجوانوں میں سے آدھے سے کچھ زائد ہی ملازمت حاصل کر پاتے ہیں۔ بھارت کا شمار دنیا کے ان ممالک میں کیا جاسکتا ہے جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے جوکہ بے شمار سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ اگر معیشت کی صورتِ حال یہی رہی تو مسائل مزید بڑھیں گے۔ بھارت کے صنعتی شعبے کی صورتِ حال بھی اچھی نہیں ہے۔ خاص طور پر مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 30 سے 40 فیصد ملازمتیں کم ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں نے کسانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مسلسل احتجاج کی حالت میں رہیں۔ وہ پولیس کی لاٹھیاں اور گولیاں کھانے کے باوجود بھی احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زراعت کا بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ کسانوں کو اس بات پر شدید غصہ ہے کہ مودی سرکار نے ان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ مودی سرکار معاشی مسائل کو مذہبی انتہاپسندی کے پھیلاؤ اور مذہب کے نام پر سیاست کو فروغ دے کر چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار آزاد منڈی اور نیولبرل معاشی پالیسیوں پر کاربند رہتے ہوئے ان مسائل کو حل کرسکتی ہے، تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ مودی سرکار دراصل بھارتی سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بھارت کے صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومت ہے جو اپنے معاشی چہرے اور پالیسیوں کو ہندو انتہاپسندی کے پیچھے چھپاتی ہے۔ مودی سرکار مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ اگر بھارتی معیشت کی گراوٹ اور سست روی جاری رہی تو اس کے نہایت بھیانک نتائج بھارت کے سماج پر مرتب ہوں گے۔
بیروزگار نوجوانوں کو جب ملازمت ملنے کی امید نہیں رہے گی تو اپنا غصہ نکالنے کے لئے تشدد کا راستہ چنیں گے۔ اس کی ابتدائی اثرات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ گائے کے گوشت کے نام پر نوجوان بلوائیوں کے مسلمانوں پر بڑھتے حملے اس کی واضح مثال ہیں۔ اگر معیشت کی صورتِ حال مزید خراب ہوئی تو اس کے بھارت کے سماج پر بے پناہ اثرات مرتب ہوں گے جوکہ مودی سرکار کے سیاسی زوال کی وجہ بن سکتے ہیں۔ چمکتے بھارت کا نعرہ جب زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھے گا تو اس کے نتیجے میں محنت کش عوام میں ردعمل جنم لے گا۔ اسلئے مودی سرکار کی پریشانی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

مطلقہ خبریں