Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارتی فوجیوں کی ریکارڈ خودکشیاں

محمد شاہد محمود
بھارتی وزارت دفاع کے اعدادوشمار کے مطابق خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات بھارتی فوج میں رونما ہوتے ہیں، جہاں ایک دہائی میں ایک ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے واقعات منظرعام پر آچکے ہیں۔ ہر سال سو سے زیادہ فوجی کشیدگی کی وجہ سے خودکشی اور ساتھیوں کے قتل جیسے اقدامات کررہے ہیں۔ گزشتہ 12 برسوں میں 1362 فوجیوں کی خودکشی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، ساتھ ہی 2000 سے لے کر تاحال اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں دوسرے فوجی اہلکاروں کی زندگیوں کا خاتمہ بھارتی فوج میں نظم و ضبط کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگ کی تھکان (وار فٹیگ) سے فوجی اہلکاروں میں نفسیاتی تبدیاتیاں رونما ہوجاتی ہیں، جس سے وہ جلدی مشتعل ہوجاتے ہیں اور کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ کسی جنگ زدہ علاقے میں طویل عرصہ تک تعینات رہنے اور گھر والوں سے دوری کے سبب اہلکار چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی پریشانی میں کم تنخواہیں، بنیادی سہولتوں کا فقدان اور بعض اوقات افسروں کی طرف سے بھی توہین آمیز سلوک شامل ہے۔ پچھلے چند برسوں میں خودکشی اور آپس میں لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلسل، طویل اور تھکا دینے والی ناجائز جنگ سے بھارتی فوجی سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی ساتھیوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دینے کے بعد خودکشی کرلینے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔
اب بھارت کی نئی نسل کے لئے عسکری شعبے میں کوئی کشش باقی نہیں رہی، چنانچہ خصوصاً بھارتی بری فوج میں افسروں اور جوانوں کی کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کے بیشتر یونٹوں میں افسروں کی تعداد دس تا بارہ ہے جبکہ معمول کے مطابق 22 تا 27 ہونی چاہئے۔ افسروں کی کمی کے باعث بچے کھچے افسر جوانوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ افسروں اور جوانوں کے درمیان دْوریاں بڑھ رہی ہیں، یہ ایک بڑی خرابی ہے جو بھارتی فوج کے پیشہ ورانہ امور پر یقیناً اثرانداز ہوگی۔
فوجی اسپتالوں کے بیڈ ایسے افراد سے بھرے پڑے ہیں، جنہیں اس کارروائی کے بعد بچا لیا گیا، گویا حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ ان کی اکثریت ان یونٹوں سے متعلق ہے جن کی تعیناتی کشمیر میں ہے، یہ وہ فوجی ہیں جنہوں نے کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا اور ان پر یہ قدرت کی طرف سے قہر نازل ہورہا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق 2001ء سے اب تک 1300 سے زائد بھارتی فوجی اپنے ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرچکے ہیں۔ کشمیریوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی نسبت خودکشی کرنے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد زیادہ ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارتی حکومت جن فوجیوں کا قتل کشمیری مجاہدین پر تھوپ دیتی ہے، وہ بھی اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں ہی جہنم واصل ہوتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے سب اقدامات لاحاصل ثابت ہوئے ہیں اور خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بھارتی فوج کے ایک سینئر افسر نے ان حالات کا ذمے دار بھارتی عسکری قیادت کو قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر ارونا بروتا جو بھارتی فوج میں بطور ماہر نفسیات کام کررہی ہیں، انہیں جب خودکشی کے ان واقعات کی نفسیاتی تحقیق پر مامور کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے مطمئن نہیں، جس کے باعث ذہنی تناؤ انہیں آخری اقدام پر مجبور کرتا ہے۔ بھارتی فوج کے ایک ادارے ڈیفنس انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی ریسرچ کے مطابق اس طرح کے واقعات پْرامن علاقوں میں تعینات فوجیوں میں زیادہ ہوتے ہیں، جس کی متعدد وجوہ اس ادارے نے پیش بھی کی ہیں۔ مذکورہ ریسرچ سینٹر نے کم و بیش 200 فوجیوں سے ایک سوال نامے پر درج معلومات کے اندراج کے ذریعے یہ سروے منعقد کروایا اور دوسری تجویز پیش کی کہ سینئر اور جونیئر افسروں کے درمیان ہم آہنگی کی بہت کمی ہے، اسے دْور کیا جائے۔
ایک اور ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوج میں 38 فیصد ذہنی مریض ہیں۔ 14.17 فیصد شراب کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں اور 9.8 فیصد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت اپنے فوجیوں کے تحفظ کیلئے جتنے چاہے اقدامات کر لے جب تک کشمیریوں پر ظلم کا سلسلہ نہیں تھمے گا، مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بھارتی آرمی چیف کا اعترافی بیان میں کہنا ہے کہ بھارتی فوج میں ہر سال خودکشی کے سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر واقعات کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے، انہوں نے بتایا کہ ہلاکتوں کے واقعات غلطی سے فائرنگ اور دوسرے واقعات کے علاوہ ہیں۔ بھارتی جنرل کے مطابق خودکشی کی شرح مقبوضہ وادی اور اس سے ملحقہ شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی یہ انتہائی اقدام دباؤ، خوف یا پریشانی کے باعث کرتے ہیں۔
ایک بھارتی اخبار کے مطابق کشمیر میں جاری تحریک کے باعث بھارتی فوج کا مورال دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ اخبار نے سری نگر میں تعینات بھارتی فوج کے ایک ترجمان کا بیان شائع کیا، جس میں کہا گیا کہ ہم ایک ایسی جگہ پر کام کررہے ہیں جہاں نہ تو ہمیں اپنی زندگی کے اگلے لمحے کا پتا ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل کی خبر۔ اخبار کے مطابق بھارتی حکومت نے فوج کے اندر اسی بڑھتے ہوئے خطرناک رجحان کے پیش نظر فوجی قوانین میں نرمی کی اور ان فوجیوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا تھا جو یا تو انتہائی حساس علاقوں میں تعینات ہیں یا پھر دشوار گزار علاقوں میں۔
بھارت میں فوجیوں کی ہزیمت کا یہ عالم ہے کہ اب انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے مدد لینا پڑتی ہے اور بھارتی عدالت عظمیٰ بھی اپنی افواج کو حق نہیں دلوا سکتی۔ 1973ء تک بھارتی افواج علیحدہ پے کمیشن یا تنخواہوں کے تعین کا نظام رکھتی تھی۔ اس کمیشن کے تحت فوجی افسر اور فوجیوں کی تنخواہیں خاصی معقول تھیں مگر افسر شاہی یا بیورو کریسی کو پسند نہیں آیا، چنانچہ 1973ء میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو فوج کے خلاف اتنا بھڑکایا کہ انہوں نے فوجی پے کمیشن ہی ختم کردیا۔ اسی دوران افسر شاہی چوتھا پے کمیشن تیار کرچکی تھی جو بیورو کریسی اور افواج دونوں پر لاگو ہوا جبکہ بھارتی افسر شاہی نے چال چلتے ہوئے فوجیوں کی تنخواہیں کم کردیں۔ آخر 1996ء میں یہ افشا ہوا اور کیرالہ ہائیکورٹ میں حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا تاکہ فوجیوں کی تنخواہوں میں بھی سالانہ اضافہ ہو۔ بعدازاں ہزاروں ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی عدالت میں کیس دائر کردیئے۔ 8 مارچ 2010ء کو ریٹائرڈ فوجیوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا۔ ابھی تک یہ معاملہ عدالت میں زیرالتوا ہے۔
مذکورہ حالات و واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ایشیا میں بالادستی کا خواب دیکھنے والے بھارت کی فوج نفسیاتی و ذہنی اعتبار سے اس قدر کمزور ہوچکی ہے۔ اب بھارت سرکار کو چاہئے کہ وہ اربوں روپے اسلحہ کی بھٹی میں جھونکنے کے بجائے ان میں سے چند لاکھ روپے اپنی فوجیوں کی بہبود پر بھی خرچ کرے۔

مطلقہ خبریں