Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارتی جنگی جنون اور عالمی جنگ

اقوام متحدہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے محض اظہارِ مذمت کے بجائے ٹھوس کردار ادا کرے تاکہ خطے میں قیامِ امن کیلئے دی گئی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جاسکے، اگر دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پورے کرۂ ارض کی تباہی پر منتج ہوگی
نسیم الحق زاہدی
بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے ساتھ سرحد پر کشیدگی بڑھانا روز کا معمول بنایا ہوا ہے، لہٰذا اگر دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پورے کرۂ ارض کی تباہی پر منتج ہوگی، یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے محض اظہارِ مذمت کے بجائے ٹھوس کردار ادا کرے تاکہ خطے میں قیامِ امن کے لئے دی گئی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جاسکے۔ دُنیا کی طاقتور اقوام مصلحتوں کے لبادہ اوڑھنے کے بجائے کشمیریوں کو ان کے استصواب کا مسلمہ حق دلوانے کے لئے بھرپور ساتھ دیں۔ مودی سرکار درحقیقت ہندوتوا کے فاشٹ نظریہ کے تابع عالمی اور علاقائی امن و سلامتی غارت کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی میں پوری انسانیت کی تباہی کی راہ پر گامزن ہے، اگر کشمیریوں کا قتل عام نہ روکا گیا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بھارت یو این قراردادوں سے منحرف ہو کر مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ پاکستان کا شروع دن سے ہی اصولی موقف رہا ہے کہ سلامتی کونسل کے ودیعت کردہ کشمیریوں کے استصواب کے حق کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا آبرومندانہ، مستقل اور پائیدار حل نکالا جائے، اگر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو امن مقصود ہے تو انہیں مسئلہ کشمیر کی یو این قراردادوں کے مطابق حل کے لئے بہرصورت عملیت پسندی کا مظاہری کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے چار مرتبہ ثالثی کی پیشکش کی، یورپی و برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس نے اپنی اپنی قراردادوں کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالا مگر ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والی مودی سرکار نے کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور لداخ کی سرحد پر چین کے ساتھ بھی چھیڑچھاڑ شروع کردی۔ بی جے پی سرکار جہاں بھارت میں ہندو انتہاپسندی کو فروغ دے کر اس کا جمہوری چہرہ داغدار کررہی ہے وہیں پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی نت نئے خطرات پیدا کئے جارہے ہیں۔ پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے متعدد ڈوزیئر جن میں بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی کے بھارتی جرائم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں پیش کئے، لیکن مقام افسوس ہے کہ اقوام متحدہ جو پوری دُنیا میں انسانی حقوق کی بحالی کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہوئے، اسے لائن آف کنٹرول پر ”را“ اور ”آر ایس ایس“ کے گھناؤنے کارنامے، کشمیر کی خون آلود جھیلیں، جلتے چنار، بلکتے بچے، چیختی عورتیں، گمنام قبریں، سنسان بازار، لاشوں سے بھری گلیاں اور ویران بازار نظر نہیں آرہے۔ مودی کے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہیں اور اب تو وقت نے یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ اس کے پاس موجود ایٹمی ٹیکنالوجی محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہی اور اگر اقوام عالم نے اس سلسلے میں مزید غفلت کا مظاہرہ کیا تو یہ پوری دُنیا کے امن و سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں بشمول سکھوں کی زندگیاں محفوظ نہیں، منفی شبیہ سازی اور تعصبات کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف بھی امتیازات میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے کشمیر اور بھارت میں خوف کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے اقوام عالم سے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک نئی جنگ روکنے کے اقدامات اٹھانے کا جو اشارہ کیا ہے اس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرکے فوری موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے، کیونکہ اس کے بغیر خطے میں پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت کی گھناؤنی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ مودی حکومت نے جارحانہ عزائم کے پیش نظر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں پر جہاں بعث حلقے اطمینان اور خوشی کا اظہار کررہے ہین وہیں امریکا، بھارت اور دیگر ممالک اقتصادی راہداری کی تعمیر پر تشویش کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہی ہیں۔ ایک طرف بھارت ورکنگ باؤنڈری، کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کرکے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان اور ایران کے راستے خطے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں سے ”را“ کے کلبھوشن سمیت مختلف ممالک کے ایجنٹس کی گرفتاری سے یہ حقیقت کھل کر سامنے بھی آ چکی ہے کہ ملک دشمن عناصر مکمل طور پر پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے درپے ہیں۔ ایران کی بندرگاہ ”چابہار“ میں اربوں ڈالرز مالیت کے دیگر منصوبوں میں بھارتی سرمایہ کاری کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور خطے میں چین کی بالادستی کو نقصان سے دوچار کرنا ہی تھا۔ ایل او سی پر جارحیت، بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے مقاصد پاکستان کو کشمیریوں کی استصوابِ رائے کے بنیادی حق کی حمایت سے دستبردار کرانا اور سی پیک منصوبے کو روکنا ہی تھا۔ پاکستان نے علاقائی اور عالمی امن کی خاطر بھارت سے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے رکھے، لیکن اوڑی اور پلوامہ دہشت گردی کا ڈھونگ رچا کر انڈین فوج نے ناصرف کنٹرول لائن اور شہری آبادیوں پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کرکے سرحدی کشیدگی کو پروان چڑھایا بلکہ کشمیریوں پر بھی مظالم کا سلسلہ بھی تیز کردیا تاکہ حق خودارادیت کی آواز کو دبایا جاسکے۔ 9 مارچ کو بھارت کے علاقے سورت گڑھ سے ”سپر سانک میزائل“ کا پاکستان میں داخل ہو کر 250 کلومیٹر سفر طے کرکے میاں چنوں کے قریب زمین پر گرنے سے شہری املاک کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کو جو خطرات لاحق ہوئے وہ ناقابل بیان ہیں۔ پاکستان کا فضائی حدود کی خلاف ورزی پر سخت احتجاج اور اس سلسلے میں بھارتی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری بیان میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہنا کہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طورف پر فائر ہوا انتہائی افسوسناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام عالم اس سلسلے میں پاکستان کی بھرپور مدد کرتے ہوئے بھارت سمیت ایسے ممالک اور گروہوں پر کڑی نظر رکھیں جو خطے کے امن کو ایک مرتبہ پھر سے داؤ پر لگا رہے ہیں۔ عالمی برادری محض بیانات پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے بھرپور مدد کرے، اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو افغانستان کا عدم استکام صرف پاکستان کے لئے ہی مسائل کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے اور اس سلسلے کے اثرات مغرب تک بھی پہنچیں گے۔ افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بیک وقت ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کڑیاں پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی جاری سازشوں کے ساتھ ملتی نظر آتی ہیں، جسے اب خطے میں امن کی بحالی ہضم نہیں ہورہی۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت عالمی دہشت گرد تنظیم ”داعش“ کی بھی اسی مقصد کے تحت سرپرستی کررہی ہے، لہٰذا کابل اور قندوز میں ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات میں بھارتی سرگرمیوں اور عزائم کو فوکس کرنا ناگزیر ہے۔ ہمیں بھارت کے مقابہ سینہ سپر ہونا پڑے گا، ورنہ بقول ونسٹن چرچل ”وارمونگرز (یُد کے پجاری) کی جارحیت میں اس وقت اضافہ ہوگا جب ملکی اشرافیہ نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے“۔ اُمید ہے کہ ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے اس پر غوروفکر کیا ہوگا۔ فیلڈ مارشل آکن لک کی پیش گوئی نہ بھولئے کہ ”جب بھارت راجستھان میں مواصلاتی نظام قائم کرے گا تو وہ بلاتاخیر حیدرآباد پر حملہ کردے گا“۔ آئندہ جنگ میں عین ممکن ہے کہ بھارتی افواج پیش قدمی کرکے سندھ کے کچھ حصہ پر قابض ہو جائے کیونکہ بھارتی ایکسرسائز براس ٹیک میں زیادہ سندھ کی فتح پر زور دیا گیا۔ سندھ پر بھارت کی کم از کم تین کوروں کا حملہ متوقع ہے۔ جنگ کے دوران اگر بھارتی افواج سندھ کے کچھ حصہ پر قابض ہوجائے تو پاکستانی افواج کا فولادی ہاتھ مشرقی پنجاب اور کشمیر پر پڑنا چاہئے۔ فیلڈ مارشل منٹگمری کتاب میں لکھتے ہیں ”شکست اس فوج کا مقدر بن جاتی ہے جس کے اندر جارحانہ روح سلب کرلی جائے اور جو نفسیاتی طور پر غیرمتحرک دفاعی پالیسی اپنا لے“۔ فیلڈ مارشل لکھتے ہیں ”تاریخ گواہ ہے کہ دشمن کو صلح کن اقدام سے جارحیت سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔ امن معاہدوں کی پیشکشوں سے صرف اس کے جارحانہ حوصلے بلند ہوتے ہیں اور جنگی ہوس بڑھتی ہے۔ امن معاہدے جنگ کو قلیل عرصہ کے لئے ملتوی تو کرسکتے ہیں روک نہیں سکتے۔

مطلقہ خبریں