Wednesday, July 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارتی جنگی جنون۔۔ خطے کے ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی

سید سمیع اللہ

یوں تو انسان کی فطرت رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرنے کی سعی کرتا ہے اور خود کو ہر طرح سے محفوظ بنانے کے لئے کبھی کانٹوں سے باڑ بنا کر تو کبھی لوہے سے زرہ و ڈھال تخلیق کرکے اطمینان کی سانس لیتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے انفرادی طور پر یا ریاست کی شکل میں اجتماعی طور پر اس ضرورت کو جنون بنا کر سر پر سوار کیا تو نہ صرف وہ دوسروں کی بقا کے لئے خطرہ بنا بلکہ اپنی سلامتی کی راہیں بھی مسدور کر ڈالیں۔
اس ضمن میں پڑوسی ملک بھارت کے روایتی جنگی جنون اور روس سے حالیہ معاہدہ کا جائزہ لیا جائے تو علاقائی بلکہ بین الاقوامی امن کو لاحق خطرات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خوف اس بات کا نہیں کہ ایک ریاست اپنی حفاظت کی خاطر خود کو اسلحہ سے لیس کررہا ہے بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اسلحے کا ڈھیر بھارت جیسے غیرذمہ دار ملک کو ایک قیامت خیز آتش فشاں میں تبدیل کررہا ہے۔5 اکتوبر 2018ء کو روس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق بھارت کو 2020ء تک ایس-400 (ملٹی -لییرد ڈیفنس سسٹم) کی فراہمی شروع کردی جائے گی۔ ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم سے خریدا جانے والا یہ میزائل ڈیفنس سسٹم بھارت کی پہلی اور آخری کاوش نہیں بلکہ اسی سال اکتوبر ہی کے مہینے میں بھارت نے اسرائیلی کمپنی آئی اے آئی  اِسْرائِیل ایروسپاکی انڈسٹریز) کے ساتھ بھی ایک معاہدہ پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسرائیل 2020ء سے 2023ء تک بھارت کو سات باراک-8 کے لونگ رینج (زمین سے ہوا میں مار کرنے والے) میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرے گا جسے بھارت اپنی پروجیکٹ 17-کلاس فریگیٹ میں نصب کرنے کا خیال رکھتا ہے۔2006ء میں پیڈ (پرتھوی ایئر ڈیفنس سسٹم) اور 2007ء میں اڈ (آشون یا ایڈوانسڈ ایئر ڈیفنس سسٹم) کے ہائی اور لو الٹیٹیوڈ کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم (بی ایم ڈی) سے سفر شروع کرنے والا بھارتی درڈو (ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن) آج نسبتاً زیادہ جدید اور بہتر ایئر ڈیفنس سسٹم ایس-400 کا حامل تو بن چکا مگر خطے کے ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی بجا چکا ہے۔ پاکستان کا اگرچہ روز اول سے موقف رہا ہے کہ وہ خطے میں لگی اسلحے کے کسی دوڑ میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا مگر اپنی دفاع اور سلامتی کے حوالے سے پوری طرح مستعد اور صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال میں بین الاقوامی برادری کی خاموشی نہایت پُراسرار ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت مغربی ممالک کے لئے ایک پُرکشش مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے مگر کیا یورپی ممالک بشمول امریکہ اپنے تجارتی فوائد کی بنا پر بین الاقوامی امن پر اتنا بڑا سمجھوتہ کرسکتے ہیں؟ عقلاً جواب یقیناً نفی میں ہوگا مگر جو کچھ آنکھیں دیکھ رہی ہیں یا جو کچھ کانوں کو سنائی دے رہا ہے وہ بہت مایوس کن ہے۔ بین الاقوامی برادری کو خطے میں غیریقینی صورتِ حال سے دوچار توازن طاقت کا ادارک کرنا ہوگا ورنہ یہ چنگاریاں کسی بھی وقت بھڑک کر سب کچھ خاکستر کرسکتی ہیں۔

مطلقہ خبریں