نصرت مرزا
پاک بحریہ 71 برسوں سے بہت نظرانداز ہوتی رہی، اگرچہ ساری دُنیا کو معلوم ہے کہ جو کوئی بھی ملک سمندر پر حکمرانی کرے گا وہی دُنیا پر حکمرانی یا اہمیت حاصل کر لے گا۔ چنانچہ امریکا، روس، برطانیہ، فرانس کی مثال سامنے ہے اب چین جس تیزی سے نیلگوں بحریہ کے حصول میں جتا ہوا ہے وہ جلد یہ مقام حاصل کرلے گا کہ وہ اپنے بحری راستوں اور اپنے تجارتی جہازوں کو دُنیا بھر میں محفوظ بنا لے چاہے وہ زمانہ امن ہو یا زمانہ جنگ، پاکستان کی بحریہ پہلے سے ہی اپنے وسائل کے اعتبار سے ایک مضبوط اور منظم بحریہ تھی، اس نے زمانہ امن میں خلیج عدن سے کراچی اور اس سے ذرا آگے نیلگوں بحریہ کی حیثیت حاصل کر رکھی تھی، اس نے پورے خطے میں مشکلات میں گھری ایرانی اور دیگر ملکوں کے ساتھ بھارتی کشتیوں کو ڈوبنے سے بچایا تاہم چین پاکستان اقتصادی راہداری نے پاک بحریہ کی ذمہ داریوں کو بڑھا دیا ہے اور اس کی اہمیت کا احساس اُجاگر کیا چنانچہ پاکستان نے 13/14 دسمبر 2016ء کو گوادر بندرگاہ پر ایک خصوصی ٹاسک فورس 88 کے قیام میں لایا جو ہر طرح کے جدید ہتھیاروں سے مسلح ہے اور ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لئے مستعد ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے گشتی کشتیوں کی ایک کھیپ تیار کرلی، 9 اگست 2018ء کو ایک اور کشتی سمندر میں لانچ ہوئی اور اس سے پہلے بھی کئی کشتیوں کو سمندر میں اتارنے کی تقریب کو ہم خود دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان یہ پیٹرولنگ کشتیاں چین کی مدد سے بنا رہا ہے یا سامانِ حرب یا پیٹرول یا شفاخانہ کی سہولت سے آراستہ ایک جہاز مددگار ملک ترکی کی مدد سے سمندر میں اتار چکا ہے، وہ چین و ترکی کے علاوہ بلغاریہ اور ہالینڈ کی مدد سے کئی کشتیاں حاصل کررہا ہے، مقصد یہ ہے کہ وہ جلد سے جلد پاکستان کو دستیاب ہوجائیں کیونکہ ہمیں برق رفتاری سے اپنی بحری ہتھیاروں اور جہازوں کو تیار کرنا ہے تاکہ ہمارے بہ وقت ضرورت کام آئے اور دشمن کی بڑھتی ہوئی بحری سرگرمیوں کے مدمقابل آسکیں، اسی طرح پاکستان چین کی مدد سے آٹھ آبدوزویں بھی تیار کررہا ہے، چار آبدوزویں چین میں اور چار پاکستان میں تیار ہورہی ہیں تاہم یہ کافی نہیں ہیں، ہمیں مزید جدید ہتھیاروں اور جہازوں کی ضرورت ہوگی، ہم نے اپنی سرگرمیوں اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے، ہمارا جہاز اتصلات جس پر ہم ایک ڈنر گوادر میں کھا چکے ہیں۔ روس کے دوردراز خیرسگالی کے دورے پر گیا جس سے پاکستان روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا اظہار ہوا، بھارت کا طیارہ بردار جہاز روسی ساختہ ہے اور اُس کو چلانے میں احتیاط سے کام نہ لینے کی وجہ سے اس وقت وہ مرمت کے مراحل سے گزر رہا ہے، ہمیں طیارہ بردار جہاز کی یقیناً ضرورت ہوگی مگر ہم وہ کس سے حاصل کریں گے یہ ابھی معلوم نہیں، ممکن ہے روس سے ہی لے لیں کہ اُن کے پاس طیارہ بردار جہاز وافر مقدار میں فاضل پڑے ہوئے ہیں، روس اُس کو کوڑیوں کے دام بیچ سکتا ہے مگر اُس کے پرزہ جات بہت مہنگے ہیں وہ اس کی قیمت پرزہ جات سے نکالے گا۔ دوسری طرف پاکستان بحریہ افواج کی تربیت دینے میں خصوصی توجہ دے رہا ہے، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے 109 ویں مڈشپ مین اور 18 ویں شارٹ سروس کورس کی پاسنگ آؤٹ کے موقع پر کہا کہ پاکستان اپنے قومی مفادات اور دفاعی خودمختاری کے حصول کے لئے بحرہند میں ریجنل میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بلیو واٹر نیوی کی طرف بڑھتا ہوا پہلا انقلابی قدم ہے۔
کمیشننگ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے پاک بحریہ کے سربراہ نے پاس آؤٹ ہونے والے افسران سے کہا کہ پاک بحریہ کے جوانوں کی روحانی جنگی قوت میں مزید اضافہ کرنے کے لئے پہلی مرتبہ شارٹ سروس کورس میں دینی تعلیم و ترغیب کے آفیسرز کمیشن حاصل کررہے ہیں تاکہ پاک بحریہ کے آفیسرز و جوانوں اور ان کے اہل خانہ کو سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے مذہبی رہنمائی فراہم کی جائے۔ سیکورٹی کی موجودہ صورتِ حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن دوستی کا خواہاں ہے اور عالمی برادری کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی کا خواہشمند ہے تاہم امن کی اس خواہش کو ہماری کمزور سمجھنا غلطی ہوگی، ہم ملکی سالمیت کے خلاف ہونے والی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیول چیف نے دفاع وطن کے لئے مسلح افواج کے بھرپور عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے قومی عزم کی علمبردار ہیں اور اس ضمن میں پاک بحریہ پاکستان کے ساحل اور علاقائی سمندروں میں سماج دشمن عناصر کی غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے سیکورٹی کے فرائض پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے ادا کررہی ہے۔ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے پاک بحریہ کی نئی حکمت عملی کا ذکر بھی کیا جس کے تحت ریجنل میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اس سے قبل پاک بحریہ یہ آپریشنز کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کی زیرنگرانی کمبائنڈ ٹاسک فورسز 150 اور 151 میں شرکت کے ذریعے سرانجام دیتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی خودمختاری کے ساتھ اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہم نے بحرہند میں ریجنل میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بحر ہند میں حساس سمندری راہداریوں اور تنگ مقامات پر قومی اور بین الاقوامی جہاز رانی کو بحری دہشت گردی اور بحری قذاقی سے تحفظ فراہم کرنا اور منشیات، اسلحے اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ پاس آؤٹ ہونے والے افسروں کو نصیحت کرتے ہوئے نیول چیف نے کہا کہ وہ اپنی شخصیت میں جذبۂ ایمانی، پیشہ ورانہ مہارت، وفا شعاری، جرأت و بہادری اور اعلیٰ کردار کے اوصاف پیدا کریں جو ایک حقیقی لیڈر کی ناگزیر خصوصیات ہیں۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ نیول اکیڈمی میں دوست ممالک کے افسران کو بھی تربیت دی جارہی ہے جو اپنے اپنے ممالک کی بحریہ میں شامل ہو کر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے۔ نیول چیف نے مذہبی اور تحریک کے حامل افسران کو کمیشن حاصل کرنے والے افسران کا ذکر کیا، اس لئے حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا ایک خط کا متن تحریر کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ ’’میں آپ کو اور آپ کے تمام فوجیوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اللہ کا خوف ہی دشمن کے خلاف بہترین ہتھیار ہے اور جنگ جیتنے کی سب سے مضبوط چال ہے۔‘‘
پاک بحریہ اِن اصولوں پر چلے گی تو وہ ایک دفاع کے حوالے سے ایک خوفناک ترین فوج بن کر سامنے آئے گی اور اپنے ملک کی دفاع کے لئے وہ خدمات سرانجام دے گی۔ اس نے دوارکا کو 65ء کی جنگ میں تباہ کرکے اور وکرم اور دہلی نامی جہازوں کو ممبئی سے نکلنے نہیں دیا تھا وہ بحر عرب اور بحر ہند میں حکمرانی کررہی تھی، اب بھی اُس کی کشتیاں دور دراز علاقوں کا سفر کرتی رہتی ہیں اور اگر دشمن کی آبدوز ہمارے سمندروں کے قریب آجائے تو اُسے پکڑ لیتی ہے۔ یہ تاریخ ساز کارنامہ اس وقت ہوا جب پاکستان سے ایک چینی سامان چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے لے جانے کی کوشش کی تو بھارتی بحریہ ہمارے سمندری حدود سے باہر سانس لینے کے لئے پانی سے اوپر آئی تو اس کی نشاندہی کرلی گئی اور نشاندہی کسی بھی آبدوز کی موت ہوتی تھی اس لئے اسے بے نیل مراد واپس لوٹنا پڑا، کیونکہ ہمارے بحری فلیٹ اور اس کا کمانڈر چاک و چوبند اور مستعد تھا۔ بھارت سے ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا سے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کے حصول کے درپے ہے۔