Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔۔؟

صوبے میں جاری لسانی کشیدگی کے پُرامن حل تک یہاں معاشی ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اس حوالے سے حکومت کو بلوچستان میں جاری کشیدگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا، یہاں جنوبی بلوچستان میں ایک کم پیمانے کی لسانی شورش جاری ہے جبکہ وسطی اور شمالی بلوچستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسندی نظر آتی ہے
رفیع اللہ کاکڑ
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کئی پالیسی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان میں یہ عزم بھی شامل تھا کہ صرف پنجاب کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خود پر سے ”پنجاب کی پارٹی“ ہونے کی چھاپ ختم کرنے کے لئے زبانی دعوؤں سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اگرچہ 2008ء کے بعد سے خود مسلم لیگ (ن) نے بھی اس چھاپ کو ختم کرنے اور ایک وفاقی شبیہہ کے اظہار کی کوشش کی لیکن اس جماعت نے علاقائی سیاست کو بھی اختیار کیا اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کو مستحکم کرنے کے لئے ملکی سیاست کو قربان کیا۔ چھوٹے صوبوں کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ مقامی اشرافیہ کو خوش رکھا جائے اور چھوٹی علاقائی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ اتحاد بنائے جائیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے دبدبے کی تو کامیابی سے مزاحمت کرتی رہی لیکن اشرافیہ پر مرکوز اس کی حکمتِ عملی سے عوام کی طرزِ زندگی بہتر نہیں ہوئی۔ نتیجے کے طور پر پنجاب کے باہر مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کی جماعت ہونے کا تاثر اب بھی مضبوط ہے۔ پنجاب کے باہر بھی عوامی حمایت کے حصول کے لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والی موجودہ حکومت کو چھوٹے صوبوں خاص طور پر سابقہ فاٹا اور بلوچستان کی معاشرتی و معاشی ترقی کو ترجیح دینا ہوگی۔
بلوچستان کے حوالے سے حکومت کا منصوبہ کچھ اس طرح کا ہونا چاہئے
سب سے پہلی ترجیح تو سیاسی مفاہمت اور قیامِ امن کو دینی چاہئے۔ صوبے میں جاری لسانی کشیدگی کے پُرامن حل تک یہاں معاشی ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے حکومت کو بلوچستان میں جاری کشیدگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہاں جنوبی بلوچستان میں ایک کم پیمانے کی لسانی شورش جاری ہے جبکہ وسطی اور شمالی بلوچستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسندی نظر آتی ہے۔
اس منظرنامے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلوچستان میں بحالی امن کے لئے ایک جامع اور مختلف حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
مذہبی اور فرقہ وارانہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے قومی سلامتی پالیسی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمارے سیکیورٹی ماہرین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے بغیر بلوچستان اور خیبرپخونخوا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہماری موجودہ افغان پالیسی تو افغانستان کو ایک اور علاقائی پراکسی جنگ کا میدان بنا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سعودی عرب کی جانب جھکاؤ کے بجائے ایک توازن قائم کرنا ہوگا اور آخری بات یہ کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دینی ہوگی۔
بلوچستان میں لسانی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔ 17 سال سے جاری شورش سے یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ جابرانہ اقدامات اور دکھاوے کے ڈیولپمنٹ پیکیج دونوں ہی ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پُرتشدد تنازعات کا دوبارہ سر اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف سیکیورٹی پر توجہ دینے سے امن کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا، اس کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:
حکومت بلوچ شورش پسندوں سے رابطے کے لئے ایک جامع حکمتِ عملی تشکیل دے۔ اس حکمتِ عملی میں قدآور سیاسی شخصیات شامل ہوں جو مذاکرات کی قیادت کریں اور اعتماد سازی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ ان اقدامات میں فوجی آپریشن کی روک تھام، مخصوص علاقوں سے ایف سی کا انخلا، تمام لاپتہ بلوچوں کی رہائی اور ماورائے عدالت قتل کئے گئے لوگوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی شامل ہوسکتے ہیں۔ محض معافی کی پیشکش یا تشدد کو ترک کرنے کی نصیحتیں یہاں مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔
مجوزہ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مدد بھی ضروری ہے۔ فوج کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سخت گیر رویہ زیادہ سے زیادہ عارضی امن کو ہی یقینی بنا سکتا ہے اور یہ کہ سیکیورٹی کے حوالے سے چاہے کوئی بھی قدم اٹھا لیا جائے زیرِزمین شورش غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے۔ یہ شورش ریاست کو دفاعی حکمتِ عملی اپنانے، بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کو ان مصنوعی رہنماؤں کی سرپرستی بھی ترک کردینی چاہیے جو خود ریاست نے ہی بنائے ہیں۔ اس شورش کا سب سے زیادہ فائدہ انہی لوگوں کو ہوتا ہے جس وجہ سے شورش کا باقی رہنا ان کے مفاد میں ہے۔
ماضی میں بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات 2 وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مفاہمتی کوششیں اور جبر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے والے بامعنی پیشکش کرنے کی نہ تو ساکھ رکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس کی آزادی تھی۔
دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ قدرتی اور ساحلی وسائل کے حوالے سے بلوچوں کے خدشات دُور کئے جائیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ:
آئین کے آرٹیکل 172(3) اور 158 پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے اچھی ساکھ رکھنے والے بلوچ اراکین پارلیمنٹ کی سربراہی میں ایک طاقتور پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے۔ وفاق کے زیرانتظام تیل اور گیس کمپنیوں کی ملکیت، انتظام اور آمدن میں بلوچستان کو اس کا جائز حصہ دیا جانا چاہئے۔ ساتھ ہی قدرتی گیس کی قیمتوں، ٹیکسوں اور تقسیم کے حوالے سے صوبے کے خدشات کو بھی دُور کیا جانا چاہئے۔
آغاز حقوق بلوچستان پیکیج میں کئے گئے وعدے کے تحت سینڈک کاپر-گولڈ منصوبے کی ملکیت بھی حکومتِ بلوچستان کو منتقل کی جاسکتی ہے۔
ریکوڈک معاہدے کو پبلک کیا جائے اور صوبے میں ریفائنری کا قیام یقینی بنایا جائے۔ کارپوریٹ مینجمنٹ اور بورڈ کے ساتھ چاغی میں اس کا قیام ضروری ہے۔ کمپنی کے منافع کے 2 فیصد، وفاقی منافع کے 2 فیصد اور رائلٹی ادائیگیوں کی نصف رقم پر مشتمل کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (سی ایس آر) فنڈ بھی اسی کے اختیار میں ہونا چاہئے تاکہ مقامی آبادی کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔
جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو پاکستان کو مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق، وقار اور ترقیاتی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے، سمندری ماحولیات کا احترام کرتے ہوئے اور مقامی ذریعہ معاش کو فروغ دینے کے لئے مزید جامع ترقیاتی حکمتِ عملی کو اختیار کرنا چاہئے۔ غیرضروری چیک پوسٹوں کو ختم کیا جائے اور پینے کے پانی کے منصوبوں کو تیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ ساحلی پٹی کے ساتھ ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموسس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے ایک پبلک سیکٹر کمپنی بنائی جائے۔ گوادر بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بلوچستان کو حصہ دیا جانا بھی ضروری ہے۔
تیسری اہم بات یہ کہ غربت کے خاتمے اور سرحد پر باڑ لگانے سے لوگوں کے ذریعہ معاش پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ:
افغانستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ موجود بلوچستان کے تمام اضلاع میں تجارتی گزرگاہیں ضروری ہیں۔ ان میں تمام متعلقہ سہولیات اور تجارتی لاجسٹکس کی فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہئے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بلوچستان کا حصہ بڑھا کر کم از کم 10 فیصد کیا جاسکتا ہے۔ اس کا موجودہ حصہ تقریباً 4 فیصد ہے جو کُل آبادی میں بلوچستان کے حصے سے بھی کم ہے۔ یہ ناانصافی ہے، اس اضافے سے ناصرف غربت بلکہ شورش میں بھی کمی آئے گی۔ مزید یہ کہ بلوچستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامی صلاحیت اور وسائل کو بہتر کیا جائے جبکہ صوبے کے نمائندوں کو گورننگ باڈی کے ساتھ ساتھ منصوبے کی انتظامی ٹیم کا رکن بھی بنایا جائے۔

مطلقہ خبریں