رضوان احمد
بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں پاک فوج کے 11 جوان وطن پر قربان ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 25 اور 26 جنوری کی درمیانی شب دہشتگردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشتگرد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 3 دہشتگرد گرفتار کر لئے گئے جبکہ علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ دریں اثناء ایک اور اطلاع کے مطابق چمن بائی پاس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے لیویز کا ایک اہلکار محمد نعیم شہید ہوگیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دہشتگردوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے آپریشن جاری رہے گا اور مسلح افواج ملک سے دہشتگردی کے خاتمہ اور ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں نے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت پر گہرے رنج و غم اور شہداء کے لواحقین سے اظہارہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ جوانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ ملک کے تحفظ کا ضامن ہے، بزدل دشمن کو ایک مضبوط قوم سے سامنا ہے جس نے پہلے بھی دہشتگردی کو شکست دی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ نے تصدیق کی کہ ملک میں دہشتگرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز پھر سرگرم ہوئے ہیں، جن سے نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ افغان طالبان سے متعلق شیخ رشید نے کہا کہ طالبان حکومت مثبت کردار ادا کررہی ہے، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان میں کارروائیوں سے باز رہیں مگر ٹی ٹی پی والے کہیں نہ کہیں دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہوچکا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگرد دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی مذاکرات کی شرائط پوری ہونا ممکن نہیں تھیں۔ طالبان سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پر افغان طالبان کا بھی زور نہیں چلتا۔ وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ آئندہ دو ماہ میں ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشتگردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔ جیساکہ وزیرداخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے، بلوچستان کے حالیہ واقعات سے قبل بھی اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور لاہور میں تسلسل سے دہشتگردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں مسلح افواج کے علاوہ عام لوگوں کو بھی خاصا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ توقع یہ کی جارہی تھی کہ افغانستان سے امریکا کی ذلت آمیز شکست، اس کی افواج کے انخلا، امریکی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمہ اور وہاں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کو دہشتگردی سے نجات مل جائے گی۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ عرصہ تک حالات قدرے بہتر بھی رہے۔ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، طالبان حکومت کے تعاون سے حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے مگر بدقسمتی سے فریقین اس معاہدہ میں توسیع پر متفق نہ ہوسکے، مبصرین کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ دہشتگردی کی یہ تازہ لہر جنگ بندی میں اس عدم توسیع کا نتیجہ ہے تاہم اس ضمن میں یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بلوچستان میں کافی عرصہ سے جاری تخریبی سرگرمیوں کے پس پشت قوم پرستی کے نام پر منظم کئے گئے گروہ سرگرم رہے ہیں جن کی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے پشت پناہی کسی سے پوشیدہ نہیں، خصوصاً ان حالات میں کہ لاہور کے تاریخی انارکلی بازار میں چند روز قبل ہونے والی دہشتگردی کی واردات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے نہیں بلکہ بلوچ نیشنل آرمی نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس لئے حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کو اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی قوم پرست تنظیموں کی سرکوبی اور ان کو بھارت سے ملنے والی ہر طرح کی امداد و سرپرستی روکنے کا اہتمام کرنا چاہئے، دوسری جانب افغان طالبان کے تعاون سے ٹی ٹی پی کے انتہاپسند عناصر کے بھی افغانستان سے پاکستان داخلہ اور یہاں تخریب کاری کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات لازمی ہیں، یہاں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیرداخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ ہمیں افغان طالبان سے کوئی شکوہ نہیں، گویا حکومت پاکستان نئی افغان طالبان حکومت کے طرزعمل سے مطمئن ہے، ضرورت ہے کہ اس دوطرفہ خیرسگالی کے جذبہ کو مزید فروغ بھی دیا جائے اور اسے قومی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ملک میں دہشتگردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں کے قلع قمع میں بھی کام میں لایا جائے، اس کے ساتھ یہ عرض کرنے میں بھی شاید کوئی حرج نہیں کہ عالمی سطح پر درپیش صورتِ حال کے پیش نظر ہمیں اپنے دشمنوں میں کمی اور دوستوں میں اضافہ پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہئے کیونکہ کسی سے بھی مذاکرات کے دروازے بند کرنے کی بجائے مفاہمت اور مصالحت سے معاملات کا حل نکالنا ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔