سید عاصم محمود
خانہ جنگی، قحط اور بھوک میں مبتلا کروڑوں افغانوں کی مدد کرنے کے بجائے امیرکبیر امریکیوں نے اُن پر کاری ستم ڈھا دیا
یوکرین پر روس کے حملے سے یہ سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ دُنیا یک قطبی نہیں رہی۔ کوئی عالمی طاقت اب کرہ ارض کی ٹھیکے دار نہیں کہلا سکتی۔ پچھلے تیس سال سے امریکا کو اکلوتی سپرپاور ہونے کا اعزاز حاصل تھا مگر امریکی حکمران طبقہ بطور عالمی قوت اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام نہیں دے سکا۔ خاص طور پر عالم اسلام میں اس نے دیگر مغربی طاقتوں کی مدد سے جنگوں اور سازشوں کا جمعہ بازار لگا دیا۔ انسانی حقوق و جمہوریت کا خودساختہ چمپئن ہونے کے باوجود اسلامی ممالک میں انہی کو پیروں تلے کچلتا رہا۔ اس امر کی تازہ مثال پچھلے دنوں سامنے آئی۔
سچ یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے کا طرزعمل دیکھ کر بانیانِ امریکا مثلاً بنجمن فرینکلن، تھامس جیفرسن، ابراہام لنکن کی روحیں تلملا رہی ہوں گی۔ انہوں نے تو ایسے امریکا کا خواب دیکھا تھا جہاں سچائی، انسان دوستی، ہمدردی، امن اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوگا مگر اس مملکت کے خصوصاً حکمران اپنے مفادات کے غلام بن چکے۔ اگر اخلاقیات اور قانون ان کے مفادات کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائیں تو وہ انہیں روندتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ افغانستان میں ان کا عمل یہی امر عیاں کرتا ہے۔
ہمارا پڑوسی، افغانستان پچھلے پانچ عشروں سے متحارب گروہوں کی لڑائیوں اور اغیّار کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے ملک تباہ حال ہوچکا اور عوام بھی۔ فی الوقت طالبان نے سرزمینِ افغاناں کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ مغربی حکمران شدت پسندانہ اسلامی نظریات رکھنے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے، وہ اگست 2021ء کو برسراقتدار آئے تو انہوں نے اپنے مالیاتی اداروں میں محفوظ افغان سینٹرل بینک (دا افغانستان بینک) کے ذخائر زرمبادلہ منجمد کردیئے۔ مدعا یہ تھا کہ طالبان انہیں کام میں لا کر اپنی حکومت معاشی طور پر مستحکم نہ کرسکیں۔ افغان کرنسی فرانس اور پولینڈ سے چھپ کر آتی تھی۔ امریکا نے نئی کرنسی کی آمد روک دی۔ مزید براں کرنسی کا ترسیل کا عالمی نظام، سوئفٹ بھی افغانستان میں منجمند کردیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے طالبان حکومت کے پاس نقد رقم کم ہوگئی۔ اس کے پاس اتنی کرنسی نہیں رہی کہ سبھی سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دے سکے۔ چنانچہ اسکولوں اور اسپتالوں میں استاد و ڈاکٹر نہ ہونے سے کام ٹھپ ہوگیا۔ بینکوں کے پاس بھی اتنی کرنسی نہیں رہی کہ گاہکوں کی مانگ پوری کرسکیں۔ غرض طالبان حکومت بنتے ہی وہ شدید معاشی مسائل کا شکار ہوگئی اور مغربی طاقتیں یہی چاہتی تھیں تاکہ اسے ناکام بنایا جاسکے۔ اس سارے ڈرامے سے مگر افغان عوام ہی اذیت و کرب میں مبتلا ہوئے۔ دسمبر 2001ء سے اگست 2021ء تک تقریباً بیس سال امریکا و یورپی ممالک کے حمایت یافتہ افغان حکمران افغانستان پر حکومت کرتے رہے۔ اس حکومت کو مغرب نے بلامبالغہ اربوں ڈالر فراہم کئے تاکہ افغانستان ترقی پذیر، جمہوری، روشن خیال اور خوشحال مملکت میں ڈھل جائے، مگر خود امریکی ماہرین اقرار کرتے ہیں کہ بیشتر امداد افغان حکمران طبقے اور مغربی ٹھیکے داروں (نجی کنٹریکٹرز) کی تجوریوں میں پہنچ گئی۔ بہت کم رقم سے افغان عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے بن پائے۔ یہی وجہ ہے کہ عام افغان کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی کروڑوں افغان بدحال، غریب و بھوک کا شکار ہیں۔ امریکی و یورپی ممالک اب بھی افغان حکومت کو ہر سال چار ارب ڈالر سے زائد رقم دے رہے تھے تاکہ وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ افغان حکومت کے ”80 فیصد“ اخراجات اسی غیرملکی امداد سے پورے ہوتے۔ پھر افغانستان میں کئی غیرملکی سماجی تنظیمیں بھی سرگرم عمل تھیں۔ وہ غریب افغانوں کو خوراک اور تعلیم و صحت کی سہولیات مہیا کرتی تھیں۔ جب طالبان آئے تو انہیں ناکام بنانے کی خاطر مغربی ملکوں نے ساری امداد روک لی۔ بیشتر غیرملکی تنظیموں نے بھی کام روک دیا۔ ان تبدیلیوں نے افغان معیشت کو کافی نقصان پہنچایا۔ بدقسمتی سے افغانستان کے کئی صوبے چند برس سے قحط کا شکار ہیں۔ اس قدرتی آفت نے صورتِ حال کو مزید سنگین اور تشویش ناک بنا دیا۔ امریکا و یورپی یونین نے امداد ہی بند نہ کی بلکہ مغربی کمپنیوں کو طالبان حکومت کے ساتھ لین دین کرنے سے بھی روک دیا۔ جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے افغان قوم کی حالت زار اُجاگر کی اور واویلا مچایا، تب محدود لین دین کی اجازت دی گئی۔ اس حکمت عملی سے بہرحال طالبان سے زیادہ افغان عوام کو نقصان پہنچا کیونکہ رقم نہ ہونے سے جاری عوامی منصوبے ٹھپ ہوگئے۔ حکومت انہیں سستے داموں یا مفت خوراک نہیں دے سکی۔ اسپتالوں میں ڈاکٹر نہ رہے اور ادویہ ختم ہوگئیں۔ اسکولوں میں تعلیم دینے کا عمل رک گیا۔ غرض افغان عوام کو کچھ سہولتیں دینے والا جو نظام جیسے تیسے چل رہا تھا، امریکا و یورپی یونین کے منتقمانہ بلکہ عیّارانہ اقدامات سے بالکل ہی بیٹھ گیا۔
اقوام متحدہ، ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر ممتاز سماجی تنظیموں نے مغربی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ طالبان حکومت کا معاشی مقاطع نہ کریں کیونکہ اس سے افغان عوام متاثر ہورہے تھے، مگر سنگ دل امریکی و یورپی حکمرانوں نے اپیل پر دھیان نہ دیا، بلکہ امریکا میں ایک انوکھے ڈرامے کا آغاز ہوگیا۔ انسانی تاریخ نے انسانیت کی تضحیک کرنے اور مفادات پانے کی خاطر اتنے اونچے پیمانے کھیلا جانے والا سرکاری کھیل کبھی نہیں دیکھا۔ اس کھیل کا آغاز حادثہ نائن الیون سے ہوتا ہے۔ امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ القاعدہ تنظیم نے کرایا جس میں تقریباً تین ہزار لوگ مارے گئے۔ بعدازاں کئی مقتولین کے ورثا نے القاعدہ کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمے دائر کر دیئے۔ وہ تنظیم سے ہرجانہ لینے کے متمنی تھے۔ بعض کیسوں میں طالبان، ایران اور دیگر ”اسلامی دہشت گرد“ تنظیموں کو بھی فریق بنایا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ بھی القاعدہ کے حامی ہیں۔ ان مقدموں میں ایک مقدمہ ”ہولیش“ کے نام سے معروف ہوا۔ یہ مقدمہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 47 مرد و زن کے ڈیڑھ سو لواحقین نے داخل کیا۔ دسمبر 2011ء میں نیویارک کے ساؤتھرن ڈسٹرکٹ سے منسلک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج، جارج بینجمن نے فیصلہ سنایا کہ القاعدہ، طالبان اور ایران وغیرہ ہولیش گروپ کو چھ ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کریں۔ دوران مقدمہ القاعدہ، طالبان اور ایران کی طرف سے کوئی وکیل صفائی پیش نہیں ہوا۔ لہٰذا امریکی جج نے یکطرفہ فیصلہ سنا ڈالا۔ یہ امریکی عدلیہ کے ہاتھوں عدل وانصاف کا پہلا خون تھا۔ اس وقت تک القاعدہ تتّربتّر ہوچکی تھی۔ طالبان بھی منتشر تھے۔ صرف ایرانی حکومت کا وجود باقی تھا، لہٰذا ہولیش گروپ کے وکلا نے یورپی عدالتوں میں ایرانی حکومت کے خلاف مقدمے ٹھونک دیئے۔ مقصد یہ تھا کہ ان ملکوں میں ایران کے جو اثاثہ جات ہیں، وہ بطور ہرجانہ ہولیش گروہ کے سپرد کر دیئے جائیں۔ وسط اگست 2021ء میں جب طالبان نے افغانستان کی باگ دوڑ دوبارہ سنبھال لی تو ہولیش گروپ پھر سرگرم ہوگیا۔ وجہ یہی کہ اس کے وکلا جانتے تھے، افغان سینٹرل بینک کے منجمند شدہ دس ارب ڈالر میں سے سات ارب ڈالر امریکی سینٹرل بینک، فیڈرل ریزرو کی نیویارک شاخ میں محفوظ تھے۔ اس کے باعث گروپ کے وکلا نے پھر ڈسٹرکٹ کورٹ سے اپیل کی کہ وہ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو حکم دے، افغان سینٹرل بینک کی ملکیت سات ارب ڈالر بطور ہرجانہ اسے ادا کر دیئے جائیں۔ عدالت نے 2011ء میں فیصلہ دیا تھا اور اب سود ملا کر ہرجانے کی رقم سات ارب ڈالر ہوچکی تھی۔ ڈسٹرکٹ کورٹ آف ساؤتھرن نیویارک نے ہولیش گروپ کے وکلا کی درخواست قبول کرلی۔ چنانچہ اس نے بذریعہ رٹ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو حکم دیا کہ وہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم جو سات ارب ڈالر سے زائد تھی، ہولیش گروپ کو دینے کی خاطر کارروائی کا آغاز کر دے۔ اسی دوران حادثہ نائن الیون سے متعلق دیگر مقدمات کے وکلا نے بھی ڈسٹرکٹ کورٹس سے رابطہ کرلیا۔ وہ بھی اپنے مدعیوں کو ہرجانے کی رقم کا حصے دار بنانا چاہتے تھے۔ غرض ریاست افغاناں کی ملکیتی رقم پر امریکی چیل کوؤں کی طرح جھپٹ پڑے اور اسے ہڑپ کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ سات ارب ڈالر مگر ایک غیرملکی ریاست کے بینک کی ملکیت تھے۔ اس لئے ڈسٹرکٹ کورٹ اور فیڈرل ریزرو، دونوں نے وفاقی وزارتِ خارجہ سے رابطہ کیا تاکہ معاملے کے سلسلے میں اس کی رائے لے سکے۔ یوں معاملے میں بائیڈن حکومت بھی شامل ہوگئی۔ حکومت کے بڑے مسئلے پر غوروخوص کرنے لگے۔ امریکی حکومت نے آخر منجمد شدہ رقم دو برابر حصّوں میں تقسیم کر کے افغان قوم کی دن دیہاڑے حق تلفی کردی، بلکہ مجبور و مظلوم افغانوں پر ظلم ڈھایا۔ حتیٰ کہ کئی باضمیر امریکی دانشوروں نے اس فعل کو بجاطور پر ”افغان قوم کا قتل عام“ قرار دیا۔
اس سارے انوکھے قضیے کے دو پہلو… اخلاقی اور قانونی سب سے نمایاں ہیں۔ یہ درست ہے کہ حادثہ نائن الیون کی وجہ سے مقتولین کے ورثا کو جذباتی، ذہنی اور مالی طور پر تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ اگر یہ حملہ کسی اسلامی تنظیم کے رہنماؤں نے کرایا تو یہ ناجائز فعل تھا۔ اسلامی جنگی اصول نہتے شہریوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے، مگر آج مقتولین کے سبھی ورثا آرام وآسائش کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کو امریکی حکومت اور انشورنس کمپنیاں کروڑوں روپے ادا کرچکیں، انہیں ضرورت کی ہر شے دستیاب ہے جبکہ بیشتر افغان بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھا پاتے ہیں۔ انہیں کوئی آسائش و سہولت میّسر نہیں۔ تباہ حال افغان قوم کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی حالت زار دیکھتے ہوئے امریکی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم جاری کردیتی، جبکہ مقتولین کے ورثا ہرجانے کی رقم لینے کے دعویٰ سے دستبردار ہوجاتے مگر امریکیوں نے ہمدردی و رحم کے اعلیٰ جذبات نہ دکھاتے ہوئے بے چارے افغانوں کی رقم پر ہلّہ بول دیا۔ پیٹ بھرے ہونے کے باوجود وہ پیسے کے لالچ و ہوس میں گرفتار ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق آج ”95 فیصد“ افغان والدین اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ اس لئے لاکھوں بچے بھوک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ خانہ جنگیاں اور استعمار کے حملے 95 فیصد افغانوں کو غربت کے دہانے تک پہنچا چکے۔ افغانستان میں ایک عام آدمی کی زندگی بہت کٹھن و مشکل ہوچکی۔ بھوک، بیماری اور ناخواندگی نے انہیں اپنا نشانہ بنا رکھا ہے اور پاکستانیوں کے علاوہ کوئی ان کی مدد نہیں کررہا۔
افغان قوم کے دکھ درد دیکھ کر امریکیوں میں انسانیت کی ذرا سی بھی رمق ہوتی تو وہ ان کی رقم ہڑپ کرنے کے منصوبے نہ بناتے۔ مگر انہوں نے تمام تر اخلاقیات اور جذبہئ انسان دوستی بھول کر صرف اپنے مالی مفاد کو مدنظر رکھا۔ بعض امریکیوں کی سوچ یہ ہے کہ بھوکے ننگے افغانوں کے پاس دس ارب ڈالر کہاں سے آ گئے؟ یہ رقم تو مغربی ممالک ہی نے انہیں فراہم کی تھی، لہٰذا امریکا و یورپ ہی رقم کے اصل مالک ہیں۔ ایک نقطہئ نظر اینڈریو مالونی نے بیان کیا۔ موصوف ایک لا فرم، کرینڈلر اینڈ کرینڈلر کے مالکوں میں شامل ہے۔
یہ فرم بھی حادثہ نائن الیون کے مقتولین کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ ”افغان سینٹرل بینک کی رقم نائن الیون کے متاثرین اور امریکی وکلا ہی کو ملنی چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ افغان عوام نے طالبان کا بالکل مقابلہ نہیں کیا۔ انہوں نے آسانی سے مملکت پر قبضہ کرلیا، لہٰذا افغان عوام نے مصیبت کو خود دعوت دی اور اب انہیں اس کو بھگتنا ہوگا۔“ مگر امریکی سماجی تنظیموں کی رپورٹیں یہ افشا کرتی ہیں کہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم میں عام افغانوں کی رقومات بھی شامل ہیں۔ یہ رقوم انہوں نے ”بُرے وقت“ میں کام آنے کی خاطر بینکوں میں جمع کرائی تھیں مگر اس پر امریکا، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کی حکومتوں نے زبردستی قبضہ کرلیا۔ یہ حکومتیں اور ان کے ”باشعور“ اور ایک کتے کی حالت زار دیکھ کر مضطرب ہوجانے والے امیر عوام بھوک و پیاس میں مبتلا سسکتے افغانوں کو نظرانداز کرکے ڈالروں کے پیچھے دوڑ پڑے۔ مادی اشیا کی ہوس مغربی دنیا کا طرّہ امتیاز بن چکی۔ اس سارے سنگین معاملے کا ایک نمایاں غیراخلاقی پہلو یہ ہے کہ ہولیش گرہ کے وکلا بہت اثرورسوخ کے مالک ہیں۔ بیشتر وکلا جینر اینڈ بلاک نامی لا فرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس فرم کا سربراہ تھامس پریلی امریکا کا سابق ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل ہے۔ ایک اور اہم وکیل لی وولسکی بائیڈن حکومت کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کا مشیر خاص تھا۔ اسی کی زیرنگرانی افغانستان سے امریکی انخلا انجام پایا۔ جنوری 2022ء میں وہ استعفیٰ دے کر جینر اینڈ بلاک میں شامل ہوگیا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان بااثر وکلا نے بائیڈن حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ افغانستان کے منجمد شدہ ذخائر زرمبادلہ کا آدھا حصّہ ہولیش گروہ کو دے ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری میں صدر بائیڈن نے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر کے 3.5 ارب ڈالر کی خطیر رقم ہولیش گروپ کو دے ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ امریکی وکلا نے افغان سینٹرل بینک کے ملکیتی ڈالروں کو تقسیم کرنے پر کیوں زور دیا؟ وجہ یہ ہے کہ ساڑھے تین ارب ڈالر میں سے کم از کم ”تیسرا حصہ“ مقدمہ لڑنے والے وکلا کو بھی ملے گا۔ کثیر تعداد میں ڈالر دیکھ کر ہی امریکی وکلا کی رال ٹپک پڑی اور وہ رقم پانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے۔ ہوس میں آ کر انہوں نے انسانیت کی سبھی حدیں پار کردیں اور محض اپنا مالی فائدہ سامنے رکھا۔ بائیڈن حکومت نے بھی قانون وانصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے اور ہویلش گروپ کے وکلا کے دباؤ کا شکار ہوگئی۔ جب امریکی میڈیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا زرِکثیر صرف ڈیرھ سو مردوزن کو بخش دیا گیا تو نائن الیون کے دیگر متاثرین میں غم وغصّہ پھیل گیا۔ انہوں نے احتجاج کیا کہ ڈیرھ سو افراد کو کیوں منظور نظر بنایا گیا؟ یہ ساری رقم سب متاثرین میں برابر تقسیم ہونی چاہئے۔ یہ عمل انجام دینے میں قانونی مسئلہ یہ ہے کہ صرف ہویلش گروپ نے طالبان کے خلاف مقدمہ جیتا ہے، لہٰذا یہی گروپ قانونی طور پر ساڑھے تین ارب ڈالر وصول کرسکتا ہے۔
اب آئیے کیس کے قانونی پہلوؤں کی طرف! 2012ء میں نیویارک کے ساؤتھرن ڈسٹرکٹ سے وابستہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں جو مقدمہ چلا، اس میں ریاست افغانستان کو فریق نہیں بنایا گیا تھا۔ مقدمہ چلانے والوں نے صرف طالبان کو فریق بنایا۔ ویسے بھی ایک ملک کی عدالت میں دوسرے ملک یا اس کے کسی سرکاری ادارے کو کئی قانونی مراحل طے کرنے کے بعد ہی فریق بنانا ممکن ہے۔ ایران کو امریکی عدالت میں امریکا کے ایک قانون ”ٹی آر آئی اے“ ) کی وجہ سے فریق بنانا مکن ہوسکا۔ یہ قانون 2002ء کو بنایا گیا تھا۔ اس قانون کی رو سے اگر کوئی امریکی ”دہشت گرد“ ملک، تنظیم یا فرد کا نشانہ بنے تو وہ متعلقہ فریق کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ امریکا نے ”دہشت گرد“ ممالک، تنظیموں اور افراد کی فہرستیں بنا رکھی ہیں۔ ان پر مختلف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ افغانستان اور طالبان، کبھی ان فہرستوں کا حصہ نہیں رہے۔ البتہ طالبان کا ایک گروہ، حقانی نیٹ ورک 2012ء سے دہشت گرد تنظیموں کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں فی الوقت کیوبا، ایران، شام اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ ہولیش مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے صرف ایک مملکت، ایران کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا، تاہم فیصلے میں ایک جگہ طالبان کا ذکر کرتے ہوئے گروہ کو یوں بھی لکھا گیا: ”طالبان بہ معنی اسلامی امارات افغانستان۔“ اس جملے سے لگتا ہے کہ امریکی عدالت نے کم از کم اسلامی امارات افغانستان کو بھی فریق بنا لیا۔ مگر پورا عدالتی فیصلہ پڑھا جائے تو اس سے عیاں ہوتا ہے کہ فریق صرف طالبان ہیں ریاست افغانستان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیصلے کے بعد ہولیش گروپ کے وکلا نے برطانیہ، اٹلی اور لکسمبرگ کی عدالتوں میں مملکتِ ایران کے خلاف مقدمے ٹھونک دیئے مگر ریاستِ افغانستان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس فیصلے میں مدعا علیہان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول خودمختار اور دوسرا غیرخودمختار ۔ خودمختار سے حکمران یا حکومت مراد ہے۔ اس گروہ میں ریاست ایران، آیت اللہ خامنہ ای، حزب اللہ اور دیگر ایرانی شخصیات کو شامل کیا گیا۔ غیرخودمختار کے گروہ میں القاعدہ، طالبان اور اسامہ بن لادن رکھے گئے۔ گویا خود عدالتی فیصلے سے عیاں ہے کہ ریاست افغانستان اور طالبان… یہ دو مختلف اور علیحدہ قوتیں ہیں۔
درج بالا تینوں یورپی ممالک کی عدالتوں میں امریکی وکلا نے یہ موقف اختیار کیا کہ امریکی عدالت ایران کو حادثہ نائن الیون کا شریک مجرم قرار دے چکی۔ لہٰذا ان ملکوں میں ریاست ایران کے جو اثاثہ جات ہیں، انہیں ضبط کرلیا جائے تاکہ ہولیش گروپ کو ہرجانے کی رقم ادا ہوسکے۔ ان مقدمات میں ایرانی حکومت کے وکلا نے یہ قانونی موقف اختیار کیا کہ امریکا نے القاعدہ تنظیم کو سرکاری طور پر حادثہ نائن الیون کا موجب قرار دیا ہے۔ لہٰذا ایک تنظیم کی اچھی یا بُری سرگرمیوں کا ذمے دار ایک ریاست کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ انٹرنیشنل لا کمیشن کے آرٹیکل 8 اور 11 اس سلسلے میں قانونی اصطلاح ”نسبت“ کی واضح طور پر تشریح کرتے ہیں اور اسی تشریح کی رو سے کسی تنظیم (مثلاً القاعدہ) کی سرگرمیوں کو کسی ریاست سے نسبت نہیں دی جاسکتی۔ مارچ 2019ء میں لکسمبرگ کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے ریاست ایران کے وکلا سے اتفاق کیا کہ ایک تنظیم کی سرگرمیوں کو کسی ریاست کے سر پر زبردستی منڈھا نہیں جاسکتا، چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی! لہٰذا لکسمبرگ عدالت نے امریکی ہویلش گروپ کا مقدمہ باہر پھینک دیا۔ یوں امریکی مقدمے باز لکسمبرگ میں موجود ایران کے اثاثہ جات پر قبضہ نہیں کرسکے۔ برطانیہ اور اٹلی میں ریاست ایران کے خلاف ہولیش گروپ کی قانونی جنگ جاری ہے۔
جب اگست 2021ء میں افغانستان میں تبدیلی آئی اور حکومت طالبان نے سنبھال لی تو ہولیش گروپ کی حکمت عملی بھی تبدیل ہوگئی۔ 27 اگست کو گروپ کے وکلا نے نیویارک ساؤتھرن ڈسٹرکٹ کورٹ سے استدعا کی کہ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں افغان اسٹیٹ بینک کے جو سات ارب ڈالر موجود ہیں، وہ بطور ہرجانہ ہولیش گروپ کو ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔ امریکی جج کی قلابازی ملاحظہ فرمائیے، اس نے فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو تحریری رٹ دیتے ہوئے لکھا: ”ماہ اگست سے افغانستان کا کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے مملکت کا نام اسلامی امارات افغانستان رکھ دیا جوکہ طالبان کا اپنا نام ہے۔“ گویا امریکی عدالت نے بڑی چالاکی سے طالبان اور ریاست افغانستان کو ہم مترادف بنا دیا۔ رٹ میں مزید لکھا گیا: ”طالبان اور اسلامی امارات افغانستان اُس مملکت کے سربراہ بن چکے جو پہلے افغانستان کہلاتا تھا۔ اس مملکت کے جتنے بھی اثاثہ جات ہیں اور جتنی بھی جائیداد ہے، اس کے مالک اب طالبان بن چکے۔ اور اس اثاثہ جات میں افغان سینٹرل بینک کی ملکیت ذخائر زرمبادلہ بھی شامل ہیں۔“ رٹ کے اختتام پر لکھا گیا: ”2011ء میں طالبان کے خلاف جو فیصلہ سنایا گیا تھا، اس کی تعمیل کا وقت آ پہنچا۔ طالبان اب بطور اسلامی امارات افغانستان کام کررہے ہیں۔ لہٰذا فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں ان کے جتنے بھی اثاثہ جات ہیں، انہیں ضبط کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔“
بائیڈن حکومت اگر قانون و انصاف کی پرستار ہوتی تو عدالت میں یہ موقف اختیار کرتی کہ طالبان اور ریاست افغانستان دو الگ قوتیں ہیں مگر اس نے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے افغان سینٹرل بینک میں موجود افغانوں کی رقم دو حصوں میں بانٹ دی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا بقیہ 3.5 ارب ڈالر افغان قوم کو مل سکیں گے؟ کیونکہ حکومت امریکا عموماً صرف امریکی یا مغربی سماجی تنظیموں اور کنٹریکٹرز کو مالی امداد دیتی ہے تاکہ اس کا بیشتر حصّہ واپس آ جائے۔ امریکی حکمران طبقے کی تاریخ اور سازشوں سے عیاں ہے، افغان سینٹرل بینک کو شاید ہی اپنے منجمد شدہ ذخائر واپس مل سکیں۔ افغان قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا دعویٰ کرنے والے مغربی حکمرانوں کا اصل مکروہ روپ یہ واقعہ سامنے لے آیا۔