Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بحرالکاہل میں بالادستی یا سلامتی کی جدوجہد

اس سمندر کے ساتھ 42 ممالک کے ساحل جڑے ہوئے ہیں، جن میں چین، آسٹریلیا، جاپان، امریکا، انڈونیشیا، ملائیشیا، میکسیکو، فلپائن، ویت نام اور دیگر شامل ہیں، 1948ء سے 1958ء تک امریکا نے 67 سے زائد جوہر ی تجربات بحرالکاہل میں کئے
ظفر محی الدین
دُنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل کے خطے میں اپنی اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے خطے کے ممالک چین، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن دیگر ملکوں نے اپنی اپنی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ اس خطے میں کشیدگی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ چین کی عسکری اور تجارتی پالیسی ہے۔ ایک عرصے سے چین بحیرہ جنوبی چین میں اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کرنے، بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیرہ تعمیر کرنے، خطے میں بحری قوت میں اضافہ کرنے اور تائیوان کو اپنا اٹوٹ اَنگ قرار دینے کی وجہ ہے۔ بحرالکاہل دُنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے، اس کا مجموعی رقبہ 6 کروڑ 38 لاکھ مربع میل ہے جبکہ گہرائی اوسطاً 14 ہزار فٹ سے زیادہ ہے، اس کے مغرب ایشیا آسٹریلیا اور مشرق میں امریکا ہے۔ بحرالکاہل کی دریافت کا سہرا بھی پرتگالی اور ہسپانوی جہاز رانوں کے سر ہے جو سولہویں صدی میں اس سمندر اور چند جزائر دریافت کئے۔ انہی جہاز رانوں نے اس سمندر کو پُرامن سمندر کہا۔ بعدازاں عربوں نے اس کو کاہل کا تعصب دیا اور یہ بحرالکاہل کہلایا۔ اس سمندر کے ساتھ 42 ممالک کے ساحل جڑے ہوئے ہیں، جن میں چین، آسٹریلیا، جاپان، امریکا، انڈونیشیا، ملائیشیا، میکسیکو، فلپائن، ویت نام اور دیگر شامل ہیں۔ 1948ء سے 1958ء تک امریکا نے 67 سے زائد جوہر ی تجربات بحرالکاہل میں کئے۔ اس دوران امریکا کے بہت سے جوہری ہتھیار اس سمندر میں گر کر غرق ہوگئے۔ اس کے علاوہ چین، روس نے بھی اس خطے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے بحرالکاہل کے خطے پر توجہ کم کردی، اس کی توجہ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کی طرف مبذول ہوگی۔ ایسے میں چین نے رفتہ رفتہ بحرالکاہل میں اپنا اثر بڑھانا شروع کردیا۔ خاص طور پر گزرے عشرے ڈیڑھ عشرے میں چین نے جنوبی بحیرہ چین تا بحیرہ جاپان اور بحر ہند تک اپنا عسکری اور تجارتی اثر بڑھانا شروع کیا۔ اس کا سب سے پہلے سابق امریکی صدر باراک اوباما ایڈمنسٹریشن نے نوٹس لیا، پھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بحرالکاہل اور بحرہند کے معاملات کا نوٹس لیا کہ چین نے اس خطے میں اپنی دفاعی صلاحیت بہت بڑھالی ہے تب واشنگٹن میں اس حوالے سے سرگرمیاں نظر آئیں۔
امریکا نے مشرق وسطیٰ افغانستان سے توجہ ہٹا کر ساری توجہ جنوبی بحیرہ چین اور ملاکا اسٹریٹ پر مبذول کردی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ عجلت امریکا کو افغانستان سے نکلنا پڑا تھا۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں بحرالکاہل بحرہند کے خطے اب اہم ہیں۔ واضح رہے کہ بحرالکاہل اور بحرہند کو ملانے والی کھاڑی ملاکا اسٹریٹ جو انڈونیشیا اور ملائیشیا کے قریب سے گزرتی ہے دُنیا کی تجارت کی اہم گزرگاہ ہے، یہاں سے دُنیا کی 34 فیصد تجارت عمل میں آتی ہے۔ بحرالکاہل میں واقع تمام اہم ممالک سمیت چین کی تجارت کا بھی بڑا دارومدار اس بحری گزرگاہ سے ہے۔ چین نے اس ملاکا اسٹریٹ کے قرب و جوار میں اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ ایسے میں مشرق بعید کے ممالک فلپائن، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور تھائی لینڈ کو بھی شدید تشویش ہے کہ خطے میں کوئی بڑا تنازع نہ کھڑا ہوجائے، کیونکہ یہ تمام ممالک چین کی توسیع پسندانہ اور کسی حد تک جارحانہ پالیسی سے پریشان ہیں، مگر چین گزشتہ پانچ سات برسوں میں خطے میں اپنی سرگرمیاں بڑھاتا جا رہا ہے۔ بیشتر دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ دُنیا کا اب سے ہاٹ اسپاٹ جنوبی بحیرہ چین اور بحرالکاہل کا خطہ ہے۔ مزید یہ کہ چین کے بحری لڑاکا جہاز جاپان کے اطراف بھی چکر لگا رہے ہیں، ایسے میں جاپان نے بھی اپنی نیوی کو الرٹ کردیا ہے۔ ویسے جاپان میں امریکا کے 50 ہزار میرینز تعینات ہیں اور امریکی بحری جہاز بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے برطانیہ نے گزشتہ دنوں آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز دی تھی جس پر چین نے بہت احتجاج کیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال بھارت اور ویت نام کی نیوی نے بحیرہ جنوبی چین کے قریب علاقے میں بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا تھا جبکہ دو سال قبل امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت نے ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا تھا جس پر چین بہت ناراض ہے، تاہم چین نے اس حوالے سے بنگلہ دیش، میانمار، مالدیپ اور بھوٹان سے بھی دفاعی معاہدے کئے ہیں۔ تب بھارت کی نیوی نے ویت نام کے ساتھ مشقیں کی تھیں۔ چین نے حال ہی میں فلپائن کو بھی دھمکی دی تھی کہ وہ چینی علاقے میں مداخلت نہ کرے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق بحرالکاہل میں تیل قدرتی گیس سمیت دیگر معدنیات کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہیں مگر ان کی تلاش میں خرچ بہت آتا ہے۔ پھر بھی آسٹریلیا، جاپان اور چین یہ کام کررہے ہیں۔ امریکا، بحرالکاہل کے ساحلوں سے تیل گیس نکالنے کا کام پہلے ہی شروع کرچکا ہے لیکن جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کے پاس سعودی عرب سے کچھ زائد تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں اور چین گزشتہ دو برسوں سے وینزویلا اور امریکا کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں۔ اب چین، امریکا کے اطراف میکسیکو، وینزویلا، جزائر عرب الہند جن کو ویسٹ انڈیز بھی کہا جاتا ہے۔ ان ملکوں سے تجارت اور سرمایہ کاری کے طور پر تعلقات بڑھا رہا ہے۔ امریکی مبصرین کی رائے میں چین کی یہ پالیسی اس لئے خطرناک ہے کہ امریکا کو اس کی سرحدوں کے قریب آکر چیلنج کرنے والی بات ہے۔ ایسے میں امریکا جنوبی بحیرہ چین کی تائیوان کی حمایت ضرور کرے گا۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا تائیوان پر چین کے حملے کا جواب دے گا اور امریکا اس مسئلے میں تائیوان کے ساتھ کھڑا ہے۔ بحرالکاہل کے خطے میں درحقیقت سب سے نازک مسئلہ تائیوان کا ہے امریکا نے ابتدا سے تائیوان کی حمایت کی ہے۔ امریکا تائیوان کے مختلف معاہدے بھی ہیں۔ تائیوان پر چین اپنا حق جتا رہا ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے یہ ہے کہ تائیوان پر چین اس لئے قبضہ کرنا چاہتا ہے کہ خطے میں اس کی مزید دھاک بیٹھ جائے اور کوئی آنکھ نہ ملا سکے۔ دوسرے اہم بات یہ ہے کہ آج کی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اہم ترین حصہ وہ چیپ ہے جس کو سبھی کنڈیکٹر کہا جاتا ہے جو دنیا کے ٹیکنالوجی کا اہم ترین پارٹ ہے اور اس میں تائیوان بہت آگے ہے۔ اس کے بعد امریکا وغیرہ ہیں جبکہ چین چھٹے ساتویں نمبر پر آتا ہے، اگر چین تائیوان پر قبضہ کرلیتا ہے تو، کنڈیکٹر چین کے ہاتھ آجائیں گے اور امریکا یورپ کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لئے ماہرین کہتے ہیں امریکا کو تائیوان کی زیادہ فکر ہے اور چین کو تائیوان کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس تناظر میں بحرالکاہل یا بحیرہ جنوبی چین اور ملاکا اسٹریٹ کا علاقہ زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ دن بدن تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس تمام مسئلہ میں بحرالکاہل کا ایک ملک اور چین کا دست راست شمالی کوریا جس نے جوہری صلاحیت اور جدید میزائل ٹیکنالوجی ناصرف حاصل کر رکھی بلکہ وہ جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے تجربات بھی کر چکا ہے، شمالی کوریا کے صدر کم سن ان نے امریکا کو کئی بار دھمکی دی ہے کہ اس کے میزائل براہ راست امریکا کے شہر واشنگٹن کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس منظم فوج ہے، مہلک ہتھیار دوربین براعظمی میزائل ہیں، مگر قوم بھوکی ہے، معیشت بدحال ہے، مہلک ہتھیاروں کا سحر ہے۔ شمالی کوریا پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں مگر بتایا جاتا ہے کہ چین نے ہمیشہ اس کی درپردہ مدد کی۔ کوریا کے عظیم انقلابی رہنما کم آل سنگ کا یہ پوتا ہے۔ اس کی سوچ انتہاپسندی پر مائل ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کم جنگ ان سے مذاکرات کرنا گویا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے چھ صدور بھی ناک آؤٹ ہوگئے، شمالی کوریا سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس تمام تر تناظر میں بحرالکاہل کا خطہ دُنیا کا خطرناک ترین خطہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف چین اور دوسری طرف شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور اس مسئلہ پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو تشویش ہے کہ بحرالکاہل میں امریکا کے جوہری ہتھیار کم ہیں، اگر ان میں ایک بھی لپٹ گیا تو پھر اس خطے کا اور اس خطے میں واقع ممالک اور جزائر کا کیا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ بحرالکاہل میں درجن سے زائد جزائر آباد ہیں جن پر ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 کروڑ افراد آباد ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ اس خطے میں سب کے لئے باعث تشویش ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں چین کے لڑاکا ہوائی جہاز پرندوں کی طرح اُڑتے ہیں، اس کے جواب میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے لڑاکا طیارے بھی تائیوان کے اطراف پرواز کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی طیارہ کسی دوسرے ملک کے طیارہ سے ٹکرا جائے یا گر جائے تب کیا ہوگا؟ یہ بڑا ہولناک سوال ہے، اس وقت بحیرہ جنوبی چین اور بحرالکاہل کے جنوب مغرب میں جو کشیدہ صورتِ حال ہے ایسے میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر خطے کے ممالک کی خطے میں اپنی اپنی دسترس کی دوڑ الگ، بلاشبہ بحرالکاہل ملاکا اسٹریٹ بحیرہ جنوبی چین کا علاقہ مخدوش ترین خطہ ہے۔ اس تشویشناک اور خطرناک صورتِ حال میں خطے کے ممالک کا فکرمند ہونا اور اپنی اپنی سلامتی کو یقینی بنایا سب پر لازم ہوجاتا ہے۔ اس لئے جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، ویت نام و دیگر اپنے اپنے طور پر اپنے خطے میں بالادستی استحکام اور آزادی کو یقینی بنانے کے لئے ہرممکن کوشش میں مصروف ہیں۔ بالخصوص یورپ میں روس کے یوکرین پر ہولناک حملے اور جنگ کے بعد دیگر ممالک بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ روس نے یوکرین میں جس طرح جارحانہ عمل جاری رکھا یہ پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے۔ اسی طرح چین بھی اگر تائیوان کے ساتھ یہی سلوک کرے، جس کے وہ بار بار اشارہ دے چکا ہے تو خطے میں صورت انتہائی مخدوش ہوسکتی ہے۔ فرض کریں واقعی چین تائیوان پر قبضہ کرلیتا ہے تو اس کے جواب میں امریکا مداخلت کرتا ہے تو غور کریں جنوبی بحیرہ چین کا خطہ کیا بن جائے گا۔ ہرچند کہ اس خطے اور اسی کے اطراف چین کا پلہ بھاری ہے، یہاں چین کی بحری طاقت، بری قوت اور ہوائی طاقت پوری طرح موجود ہے اور چاق چوبند ہے جبکہ امریکا کو دور سے آنا ہوگا۔ لازمی طور پر ایسے میں امریکا اپنے مغربی ساحلوں کی طرف جواب دے گا، پھر شمالی کوریا سمیت دیگر ممالک کا کیا رویہ اور پالیسی ہوگی؟ اس طرح کے سوالات اس خطے کے ممالک میں بھی گردش کررہے ہیں، اس لئے ہر ملک اپنی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانے کی جدوجہد شروع کرچکا ہے۔

مطلقہ خبریں