قائداعظم کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے۔۔؟
محفوظ النبی خان
تاریخ شاہد ہے کہ کرۂ ارض پر ممالک کا قیام اور ریاستوں کی تشکیل، سلطنتوں کے حدود اربعہ کا وجود عسکری قوت کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشرہ کے بالادست طبقات نے اپنی ریاستوں میں توسیع کے لئے ہمیشہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے لیکن 20ویں صدی میں پاکستان کا قیام کسی فوجی طاقت کے استعمال کے بغیر ہوا۔ محض پُرامن آئینی اور قانونی حربے اور طریقہئ کار اس کے وجود کا باعث تھے۔ اس پُرامن آئینی اور قانونی جدوجہد کی قیادت اور تاریخ کے پانسے کو اپنے نصب العین کے حصول کے لئے موڑنے کا سہرا جس عظیم شخصیت کے سر ہے وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں، جن کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی انتہائی باصلاحیت ٹیم نے 7 سال کی طویل عرصہ کی عملی جدوجہد کے ذریعے دنیا کے نقشے پر سب سے بڑے اسلامی ملک کو وجود بخشا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نتائج ہمیشہ جماعت مرتب کرتی ہے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ وہ جماعت تھی جس نے قائداعظم کے راہ نمائی میں برصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کی کامیاب جدوجہد کی اور بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کرلیا گیا۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصور سب سے پہلے سرسید احمد خان نے پیش کیا تھا اور دو قومی نظریہ کو متعارف کرایا تھا جو بعدازاں داغ دہلوی، خیری برادران، عبدالحلیم شرر، علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال، سندھ مسلم لیگ میں شیخ عبدالمجید سندھی کی قرارداد، 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور اور 1946ء ہندوستان کے تمام قانون ساز اسمبلی اراکین کے کنونشن میں حسین شہید سہروردی کی پیش کردہ قرارداد کا سفر طے کرتے ہوئے اس نہج پر آیا تھا جو قبل ازیں قرارداد لاہور میں واضح طور پر شمال مغربی اور ہندوستان کے مشرقی علاقوں پر دو ریاستوں پر مشتمل دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن پر منتج ہوا۔ راقم الحروف کو ایک عمر رسیدہ شخصیت نے جو انگریزی اور اُردو زبان میں بینرز لکھنے کے پیشے سے وابستہ تھے، بتایا تھا کہ 1936ء میں قائداعظم کی ہندوستان واپسی پر برصغیر کے مختلف شہروں میں قائداعظم کے لئے جو استقبالیہ پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے، ان پر قائداعظم کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی تصویر بھی نمایاں تھی اور ان بینرز پر تحریر تھا ”ملا تخت سیاست، محمد علی سے محمد علی کو۔“ برصغیر کے ان دو عظیم راہ نماؤں کے اسمائے گرامی محمد علی تھے۔
تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے آخری اجلاس کے شرکاء کا بیان ہے کہ اجلاس میں واضح ہوگیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم سربراہ مملکت اور لیاقت علی خان سربراہ حکومت کا منصب سنبھالیں گے۔ اس پر مسلم لیگ کی کونسل کے اراکین کو مکمل اعتماد تھا، چنانچہ قیامِ پاکستان کے بعد 15 اگست کو قائداعظم نے بحیثیت گورنر جنرل اور لیاقت علی خان نے بحیثیت وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ بعدازاں قائداعظم نے اپنی ناسازی طبع اور کمزوری کے باوجود ریاست کو تمام رہنما اصول مہیا کئے۔ اس مضمون میں ہم بطور خاص ان نکات کا جائزہ لیں گے جو بعض عاقبت نااندیش عناصر نے قائداعظم سے منسوب کئے ہیں۔ حقیقتاً یہ سب بے بنیاد ہیں اور ان کی مفروضوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔
معاشرے کے بعض طبقات میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے بھی ہیں۔ اس جملے کو قائد سے منسوب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ٹیم کے ارکان کے بارے میں منفی تاثر عام کیا جائے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظم نے کبھی اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کئے تھے۔ اس کے برعکس انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی قائدین کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد تھا اور یہ ٹیم ان کے اعتماد پر پوری اتری تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں مسلم لیگی قیادت کا ہر فرد اپنی ذات میں انجمن تھا۔ خواہ وہ خواجہ ناظم الدین ہوں، لیاقت علی خان ہوں، حسین شہید سہروردی ہوں، سردار عبدالرب نشتر ہوں، چوہدری خلیق الزماں ہوں، مولوی ابوالقاسم فضل الحق ہوں، آئی آئی چندریگر ہوں، قاضی عیسیٰ ہوں، ابو الحسن اصفہانی ہوں، نواب اسماعیل خاں ہوں، سر عبداللہ ہارون ہوں یا سید عبدالرؤف شاہ۔ ان سب کا کردار اپنی اپنی جگہ اہمیت کا حامل تھا۔ قائداعظم اور مسلم لیگی قیادت کے بارے میں بعض مخصوص حلقے یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کو آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بنا دیا جاتا تو شاید تقسیم ہند کے نتیجے میں بعض ناانصافیاں نہ ہوتیں۔ شاید ان حلقوں کا اشارہ پنجاب کے ضلع گرداس پور اور مشرقی بازو میں بعض علاقوں کی جانب تھا، لیکن تحقیق سے اس تاثر میں کوئی وزن نظر نہیں آتا۔ اس کے برخلاف ہندوستان کی انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت تو سراسر قیام پاکستان اور تقسیم ہند کی مخالف تھی لیکن بالآخر اسے بر صغیر کی تقسیم پر آمادہ ہونا پڑا۔ ظاہر ہے کہ ایک طرف پورے ہندوستان کی تقسیم کے عزائم کو شکست ہوئی جو انڈین نیشنل کانگریس کا بنیادی موقف تھا جبکہ دوسری جانب پاکستان کو محض چند تحصیلوں پر مبنی چھوٹے علاقے کی صورت برطانوی حکومت کی غیرمنصفانہ پالیسی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے مخالف موقف کی ناکامی پر کانگریسی قیادت پر کوئی انگشت نمائی نہیں کرتا۔ اسی طرح ہندوستان کی اعلیٰ ترین قیادت جس میں پنڈت جواہر لعل نہرو جیسی شخصیت بھی شامل تھی، نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ پاکستان 6 ماہ سے زائد عرصے قائم نہیں رہ سکے گا، لیکن قائداعظم اور لیاقت علی خان کی مدبرانہ قیادت کے سامنے انہیں نامرادی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں یہ حقیقت بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان کی قیادت پاکستان سے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور اہل ثروت ہندوؤں اور سکھوں کی ہندوستان ترک سکونت کی وجہ سے سمجھتی تھی کہ نوزائیدہ ملک اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے گا، لیکن ان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ ہندوستان کے طول و عرض سے پاکستان میں آباد ہونے والے مسلمان مہاجرین ان تمام صلاحیتوں سے بدرجہ اتم مزین تھے جو پاکستان میں ان تارکین وطن ہندوؤں اور سکھوں کی کمی کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا جب ایک جانب آدم جی داؤد، حبیب فیملی، ولیکا فیملی و دیگر نے پاکستان کے تجارت و صنعت کے شعبے کو پروان چڑھایا۔ دوسری جانب سینئر سرکاری افسران سید ہاشم رضا، ایم بی احمد، اکرام اللہ، ایس ایس جعفری، سید کاظم رضا، اے ٹی نقوی، اختر حسین، اے آر خان وغیرہ نے پاکستان کی بیوروکریسی میں اپنا شاندار تاریخی کردار ادا کیا جبکہ پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی وغیرہ نے سائنس اور تدریس کے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور ہندو رہنماؤں کی خواہشات و توقعات پر پانی پھیر دیا۔
قائداعظم کے تناظر میں بعض صاحبان اقتدار اور سرکاری اہلکاروں کا سارا زور اس امر پر رہا ہے کہ وہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیان فاصلوں کی من گھڑت کہانیوں کے تانے بانے بنتے رہیں۔ انہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر مشہور کیا گیا کہ اس اجلاس میں وزیراعظم لیاقت علی خان موجود نہ تھے یا شاید ان کی آمد میں تاخیر کا الزام لگا کر یہ کہا جائے کہ ڈائس پر ان کی نشست موجود نہ تھی یا ہٹوا دی گئی تھی جبکہ اس بیانیے کا بھی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ قائداعظم کے پہلے غیرملکی سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو رقم طراز ہیں کہ لیاقت علی خان، قائداعظم کے ہمراہ نہ صرف ڈائس پر موجود تھے بلکہ ایک موقع پر جب قائداعظم کو تقریر کرتے وقت اپنی کمزوری کے باعث ایسا محسوس ہوا کہ شاید وہ لڑکھڑا جائیں، اس موقع پر لیاقت علی خان نے بڑھ کر ان کو سہارا دیا تھا۔ ان حقائق کو بعض سرکاری افسران نے جن میں مجید ملک پیش پیش تھے، دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے بعدازاں افواہوں نے جنم لیا۔
ڈھاکا میں اُردو زبان کی حیثیت سے متعلق قائداعظم کے بیان کو زیربحث لایا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس بیان کو مشرقی پاکستان کی بنگلا آبادی میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا تھا۔ حالانکہ موجودہ بنگلادیش کے صدر کی سرکاری ویب سائٹ ”بنگلا بھابن“ میں پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان فاصلوں کا سبب اسکندر مرزا کو قرار دیا گیا ہے، جبکہ قائداعظم کے مذکورہ بیان کے تناظر میں ایسے کوئی ریمارکس موجود نہیں۔ قائداعظم کو برصغیر کی ثقافت، تہذیب اور تاریخ کا مکمل ادراک تھا اور وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں اُردو ہی وہ ترقی یافتہ زبان ہے جو قومی اور سرکاری زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بانی پاکستان سمیت پوری مسلم لیگی لیڈر شپ پاکستان میں صوبائی و علاقائی تشخص کے بجائے سب کو ایک قوم تصور کرتی تھی۔ قائداعظم اُردو زبان ہی کو ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں ہر سطح پر رابطے کی زبان سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں اُردو زبان کا تحفظ اور فروغ تحریک پاکستان کے محرکات میں شامل تھا۔ بدقسمتی سے آج سندھ میں تاریخ سے نابلد کچھ افراد کراچی کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے ٹھٹھہ میں واقع مقام جھرک کو قائداعظم کی جائے پیدائش کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ 1843ء سے 1947ء تک ٹھٹھہ کا پورا علاقہ جس میں جھرک بھی شامل ہے انتظامی طور پر کراچی ضلع کا حصہ تھا۔ مزید براں قائداعظم نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے استقبالیے میں کراچی کو اپنی جائے پیدائش بتایا تھا، جو اس حوالے سے حرف آخر ہے۔
پاکستان میں آئین سازی کے تناظر میں بھی قائداعظم کے کردار کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ملک میں دستورسازی کو قومی اسمبلی کا اختیار سمجھتے تھے اور اس حوالے سے وہ اپنی آرا کو مسلط کرنے کے قائل نہ تھے۔ البتہ 11 اگست 1947ء کو ہی بابائے قوم نے بعض نکات واضح کردیئے تھے جن میں ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کی مذہبی آزادی اور ریاستی حقوق کو مذہب سے ماورا قرار دیا تھا اور قائد کی اسی بصیرت کو 1949ء کے اوائل میں آئین ساز اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد مقاصد میں پوری طرح سمو دیا گیا تھا اور ملک میں حکمرانی کا حق کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کے بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کو تفویض کیا گیا تھا، جبکہ اقلیتوں کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کی آزادی فراہم کی گئی تھی جو قائد کے “ویژن” کا ہے۔
یہ بھی شومی قسمت سے کم نہیں کہ آج بعض حلقوں میں قائداعظم کے مذہبی عقائد پر غیرضروری گفتگو کی جاتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ قبل برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کی اُردو سروس میں ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں قائداعظم کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو ایک خاص مسلک کے مطابق غسل دینے اور گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں اسی مسلک کے مطابق نماز جنازہ ادا کرنے کا احوال پیش کرکے انہیں مسلمانوں کے کسی خاص مسلک سے وابستہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ حالانکہ قائد کے جسد خاکی کا غسل اور گورنر جنرل ہاؤس میں ادا کی جانی والی نماز جنازہ کا فیصلہ خود قائد نے نہیں بلکہ اس موقع پر موجود ان کے احباب نے کیا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ایک سچے مسلمان تھے جو مذہبی فرقوں اور مسالک سے بالاتر تھے۔ پاکستان کے اولین دور کے حوالے سے ممتاز محقق خواجہ ضیا الدین جہانگیر سید کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کو سوویت یونین (روس) کی جانب سے ہندوستان کے وزیراعظم سے چھ سال قبل دورے کی دعوت دی گئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کے سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستان نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے برطانوی تسلط کو قبول نہیں کیا تھا جبکہ ہندوستان نے آزادی کے بعد بھی اس نوآبادیاتی تسلسل کو قائم رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ روس کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان برطانوی نوآبادیاتی تسلسل سے آزاد ہوگیا ہے اور پاکستان کے گورنر جنرل کوئی انگریز نہیں بلکہ خود تحریک پاکستان کے قائد محمد علی جناح بنے تھے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا یہ عظیم رہبر ریاست کے قیام کے محض ایک سال بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ قیام پاکستان سے تقریباً ایک سال قبل بابائے قوم کے ذاتی معالج ڈاکٹر پٹیل نے بتا دیا تھا کہ ان کے پاس دو سال کی مہلت ہے۔ پاکستان کے گورنرجنرل کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی دوران ان کی بیماری اور کمزوری عیاں تھی۔ پاکستان کے امریکی سفارت خانے میں جون 1948ء تک خدمات انجام دینے والے اتاشی رینزے جازکاٹ نے اپنے قیام کے دوران اپنی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کیا تھا اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کابینہ کا ایک وزیر ملک غلام محمد اپنے آپ کو قائداعظم کا جانشین تصور کرتا ہے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد اور لیاقت علی خان کی زندگی میں تو اس کی جانشینی کا یہ خواب پورا نہ ہوا لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، مشتاق احمد گورمانی وغیرہ کی وساطت سے وہ خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کے منصب سے دستبردار کرا کے خود اس عہدے پر براجمان ہوگیا۔