Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایٹمی پروگرام۔۔ خطے میں امن کی ضمانت۔۔

امتیاز عاصی
پاکستان اور بھارت کے لئے مغربی ملکوں کا معیار علیحدہ علیحدہ ہے۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان کو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ایٹمی دھماکے کرنا پڑے۔ دراصل امریکا بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے ضرورت سے زیادہ تعاون کا طلب گار رہتا ہے۔ کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب پاکستان نے امریکا کی ہاں میں ہاں نہ ملائی ہو۔ حال ہی میں یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد کی ووٹنگ میں پاکستان نے حصہ نہ لے کر غیرجانبداری کا ثبوت دیا تو امریکا اس پر بھی ہم سے ناخوش ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایٹمی امور کے انٹرنیشنل ادارے کے ماہرین نے پاکستان کا دورہ کرکے ہمارے ایٹمی اثاثوں بارے حوصلہ فزاء رپورٹ دی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کو خطرناک ملک اور اس کے ایٹمی اثاثوں کو غیرمحفوظ قرار دے کر غیرضروری بحث چھیڑ دی ہے۔ یہود و ہنوز ایٹمی اثاثے رکھیں تو محفوظ، مسلمان رکھیں رکھے تو ان کا ایٹمی پروگرام غیرمحفوظ۔ مسلمان قرآن پاک میں حق تعالیٰ کے اس فرمان کو بھلائے ہوئے ہیں یہود اور ہنوز مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔ ہمیں مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہوسکتا ہے مگر وہ ”ایٹمی قوت ہمارا دفاعی حق ہے، امریکا کون ہوتا ہے اسے چھیننے والا“ بیان دے کر تمام سیاست دانوں پر سبقت لے گئے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان کا قوم کو امریکا کی غلامی سے نکالنے کا مقصد کسی سے لڑائی نہیں بلکہ خودداری اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا پیغام ہے۔ جمہوریت کا درس دینے والے امریکی صدر بھول گئے کسی بھی ملک کو اپنی حفاظت کا حق ہے کہ جیسا کہ اسلام کا مسلمانوں کو جہاد کی تیاری پر زور دینے کا مقصد اپنی حفاظت کی تیاری کرنا مقصود ہے۔ امریکی صدر سے کوئی پوچھے امریکا دُنیا کے ملکوں کو اسلحہ فروخت کرے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا؟ مسلمان اپنی حفاظت کے لئے پیشگی اقدامات کریں تو انہیں خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے امریکا نے کبھی ہم سے وفا نہیں کی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمیں امریکی بحری بیڑے کا انتظار رہا۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران پاکستان نے روس کے خلاف امریکی جنگ لڑ کر لاکھوں لوگ شہید کرائے۔ افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان پناہ گزینوں نے پاکستان ہجرت کی، جن کا بوجھ پاکستان آج تک اٹھائے ہوئے ہے۔ افغان جنگ کے دوران ہمیں کلاشنکوف کلچر اور بم دھماکوں کا سامنا کرنا پڑا ورنہ اس سے پہلے کلاشنکوف کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ روس کے خلاف امریکا کے لئے قربانیوں کے صلے میں پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ مشرف دور میں امریکا کی خواہش پر دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا جس کے صلے میں ہمیں کیری لوگر بل کے تحت ایک بار پھر اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2018ء سے ہمارے ملک کو فیٹف (ایف اے ٹی ایف) کی پابندیوں کا سامنا تھا جن کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کو نہ جانے کیا کچھ کرنا پڑا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا درست ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد دُنیا کو پاکستان کے خلاف متنفر کرنا ہے۔ درحقیقت امریکا مسلم امہ کا مخالف ہے۔ پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے بیان پر کسی مسلمان ملک کا ردعمل کا نہ آنا افسوسناک ہے۔ کیوبا جو غریب اور چھوٹا ملک ہے اسلام آباد میں اس کے سفیر کا امریکی صدر کے اس بیان کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا 1798ء سے اب تک 469 مرتبہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے۔ پاکستان کے بعد امریکا سعودی عرب کے درپے ہے۔ سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی کا جو اعلان کیا ہے اس کے بعد امریکا نے سعودی عرب کو دھمکانا شروع کردیا ہے۔ حیرت ہے امریکا ایک طرف بہت سے ملکوں پر غیرانسانی پابندیاں لگائے ہوئے ہے اور دوسری طرف وہ دُنیا کا محافظ بنا ہوا ہے۔ پاکستان روس سے تیل درآمد کرے تو اس پر پابندی ہے، بھارت روس سے تیل درآمد کرے تو اسے اجازت ہے جو امریکا کے دوہرے معیار کا عکاس ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے ہم متفق ہیں کہ ہمیں امریکا کے اثرورسوخ سے نکلنا ہوگا۔ جوبائیڈن کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بیان کی روشنی میں عمران خان کا سائفر مسیج کے بارے میں واویلا ٹھیک ہی ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد امریکی دفتر خارجہ کی اس وضاحت کے باوجود امریکی صدر پاکستان کو محفوظ اور خوشحال مفادات کے لئے اہم سمجھتے ہیں، امریکا کا پاکستان کے بارے میں دوغلے پن کا عکاس ہے۔ امریکا کے دوہرے معیار کی ایک واضح مثال ایران پر ایٹمی پابندیاں، اسرائیل ایٹمی پروگرام رکھے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو امریکا کو اعتراض نہیں تھا، پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں دھماکے کئے تو پاکستان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی گئیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں۔ ایران نے اس مقصد کے لئے اپنے حصے کی پائپ لائن بلوچستان کے بارڈر تک بچھا دی، ہم ہیں امریکا کے خوف سے ایران سے گیس درآمد کرنے میں ناکام ہیں۔ دُنیا جانتی ہے امریکا شروع دن سے پاکستان کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اس کی نظریں پاکستان پر کیوں ہیں؟ کیا بھارت ایٹمی پروگرام جاری نہیں رکھے ہوئے ہے۔ بھارت روس سے تیل اور گیس درآمد کرے تو ٹھیک، پاکستان درآمد کرے تو پابندی۔ درحقیقت اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں سے خائف ہیں، ہمیں یاد ہے ایک موقع پر اسلام آباد میں امریکی سفیر نے صدر مملکت غلام اسحاق خان کو ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرنے کی پاداش میں سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔ الحمداللہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے جس کی تصدیق کئی غیرملکی ادارے بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مضبوط اور فعال ہے۔ افواج پاکستان مملکت خداداد کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں، لہٰذا پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ہے۔ ہمیں عمران خان کے پیغام کی روشنی میں امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے خوداعتمادی اور خودداری کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔

مطلقہ خبریں