Sunday, December 22, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایران پر حملہ یا امریکا میں خانہ جنگی۔۔؟؟

نصرت مرزا

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا اسرائیل کے چنگل میں ہے اور اس میں بھی کو شبہ نہیں کہ اسرائیل امریکا کے سارے اداروں کی جاسوسی کرتا ہے، امریکا کا کوئی راز اسرائیل سے چھپا نہیں۔ اسرائیل امریکا کی جتنی جاسوسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں ہے، چھ سو سے زیادہ اسرائیلی سرمایہ کار کمپنی اس کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ اسرائیل کی امریکی سیاست میں مداخلت کھلے عام اور اس میں کوئی دو رائے نہیں جو کوئی بھی اسرائیل کے خلاف جاتا ہے یا اس کی ہدایت کی تعمیل سے گریز کرتا ہے اس کی رسوائی مقدر بن جاتی ہے، کیونکہ ان کے پیچھے پیسوں کی ریل پیل ہے، وہ پیسے سے قاتلوں، صحافیوں اور سینیٹروں تک کو خرید لیتے ہیں اور جو کوئی بھی اُن کی مخالفت کرتا ہے اُسے وہ عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے مائیکل فلین (مائیکل فلینن) جو ٹرمپ کے سلامتی امور کے مشیر تھے، ان کو رسوا کیا۔ امریکی سیاست اور امریکی سیاست دانوں کو یہودی امریکہ میں قابو کرکے رکھتے ہیں، اتنا تو وہ اپنے ملک اسرائیل میں بھی اسرائیلی سیاست دانوں کو قابو میں نہیں رکھ پاتے ہیں، امریکی عیسائیوں کو تگنی کا ناچ نچاتے رہتے ہیں، اسرائیلی مفادات اُن کی سیاست کا جزولاینفک ہے۔ جو یہودیوں کا کہنا نہیں مانتا یا ان کے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے یا ان کا کام نہیں کر پاتا، یہودی اس کو نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں، جیساکہ انہوں نے مائیکل فلین جو امریکہ مشیر سلامتی امور رہے ہیں، کو اسرائیل نے نشانِ عبرت بنایا۔ رشین گیٹ دراصل اسرائیلی گیٹ تھا، 2016ء کے الیکشن کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے روس کے ساتھ رابطہ کرنا چاہا تھا تاکہ روس اسرائیل کے خلاف ووٹ نہ دے۔ نیتن یاہو نے ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جیراڈکشنر سے رابطہ کیا۔ نیتن یاہو کے ان سے پہلے سے ہی فیملی تعلقات تھے اور ایک رات نیتن یاہو، جیراڈکشنر کے گھر رہا ئش پذیر بھی ہوئے تھے۔ نیتن یاہو نے کشنر سے کہا کہ روس کو اِس بات پر راضی کرے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ نہ دے، اس کیلئے کشنر نے نامزد امریکی امور سلامتی مائیکل فلین کو راضی کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف ووٹ کی مخالفت نہ کرنے کیلئے وہ اقوام متحدہ میں متعین روسی سفیر سرجی کیسلاک سے ذاتی طور پر رابطہ کرے، دونوں فون کال کی گئی مگر روسی سفیر کیسلاک نے تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ جب یہ فون کال کی جارہی تھی اس وقت بارک اوباما صدر تھے اور ابھی ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارت کا چارج نہیں لیا تھا اور اومابا اسرائیل کے خلاف ووٹنگ سے دور رہنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے اوباما نے بھی اِس معاملہ کو اٹھایا تو اسے رشین گیٹ کا نام دیا گیا۔ یہ بل اسرائیل کا فلسطین میں نئی بستیاں بسانے سے متعلق تھا۔ یہ منصوبہ ناکام ہوا تو مائیکل فلین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور اس کو رسوا کرکے فروری 2017ء کو نکلوا دیا گیا۔ مائیکل فلین پر الزام لگا دیا گیا کہ روس کے ساتھ رابطے میں تھے اور بے چارے کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسرائیل اور امریکا کے درمیان تعلقات بہت خوفناک قرار دیئے جاسکتے ہیں، اسرائیل امریکا میں اس قدر چھایا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں پر کوئی سیاسی کلاس یا سیاسی جماعت، سیاسی ادارہ یا امریکی آزاد سیاسی پارٹی ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ سب اسرائیل کے شکنجے میں ہیں، سب اسرائیلی پارٹی کے ممبر ہیں، ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس ہر کوئی یہودیوں کا بندہ بے نام ہے۔ اسرائیلی طاقت اتنی زہرناک ہے کہ وہ ہر کسی کو تباہ کردیتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو اسرائیل نے کئی طریقوں سے قابو میں کیا، اُن کے اپنے داماد کی وجہ سے اُن سے یہ کہا کہ اگر وہ اسرائیل کے اشارے پر چلے گا تو ایک عرصہ تک امریکا پر حکمرانی کرسکے گا۔ اسی وجہ سے وہ اسرائیل کو تسلیم کرانے میں حد سے بڑھ گیا تھا اور ہر بات میں اسرائیل سے حکم لیتا تھا اور عربوں کو اس قدر دبایا کہ وہ اُسے قبول کرنے پر راضی ہوگئے۔ لیبیا، شام اور عراق میں مسلمانوں کو مارنے کیلئے پیسہ خرچ کررہے ہیں یا بھارت کو نواز رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جوبائیڈن کتنا اسرائیل کے احکامات کی تعمیل کریں گے، کیا وہ ایران کے خلاف حملہ کردیں گے۔ اسرائیل ایران کے کیوں اتنا خلاف ہے تو اس کا جواب تو یہ ہے کہ وہ خطے میں کسی کو بھی ایک طاقتور ملک کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ پہلے اس نے مصر کو ڈھایا اور پھر عراق کو تباہ کیا اور اب ایران کے درپے ہے اور پھر وہ پاکستان کے پیچھے لگے گا۔ ایران کو وہ غیرمسلح کرنا چاہتا ہے جو ایران کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ وہ ایران کو خطہ میں تنہا کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی دوست نہ رہے۔ اس طرح خطہ میں اس کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے۔ اس کیلئے وہ کوئی خود سے اپنے اوپر حملہ کرا کر ایران پر حملہ کا بہانہ ڈھونڈ سکتا ہے۔ اس کا تیسرا مطالبہ ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی بند کرے اور دہشت گردوں کی مدد کرنا بند کرنا ہے اور آئی اے ای اے کو اس کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی مکمل آزادی دے اور اس کے ساتھ وہ بیلسٹک میزائل کے تجربات بند کرے۔ یعنی وہ ایران کا حقہ پانی کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ایران عراق نہیں ہے اور نہ ہی مصر ہے، ایران ایک قوم ہے۔ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن اسرائیل کا کتنا ساتھ دیتے ہیں، ایسی صورت میں جبکہ اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کے کئی پلان ہیں اور اُن منصوبہ جات کو لے کر اسرائیلی دفاعی فوج کے چیف ایویو کوچاوی اور موساد کے چیف یوسی کوہن جوبائیڈن کو پیش کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جوبائیڈن اُن پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، اگر امریکا اسرائیل کا کہا نہیں مانے گا تو وہ پھر امریکا میں خانہ جنگی کرا دے گا۔

مطلقہ خبریں