محمد جاوید صدیق
شروع اللہ کے پاک نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ اور نبی آخرالزمان محمد مصطفیؐ کے لئے۔
پینل ممبران خاص طور پر چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل جناب نصرت مرزا صاحب اور تمام حاضرین کو السلام علیکم اور شکریے کے ساتھ میں اپنی تقریر کرنا چاہوں گا!
جیسا کہ میرا عنوان ہی واضح طور پر اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ پاکستان کی آزادی سے لے کر اب تک ان 71 سالوں میں پاکستان کو بطور ریاست اور ہمیں باحیثیت قوم کن کن مشکلات و مصائب سے سابقہ پڑا اور کس قدر جانفشانی، محنت و لگن اور قربانیاں دے کر اُن مشکلات کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور باحیثیت قوم آج پوری اقوام عالم میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔
اس بات سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکاری نہیں کہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کے لئے بننے والا یہ ملک اپنی ابتدا یا قیام کے ساتھ ہی بہت سے مسائل و مشکلات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ مشکلات خواہ وہ معاشی ہوں، سماجی ہوں، ہنرمند افراد قوت کی کمی کا مسئلہ ہو، اندرونی و بیرونی جارحیت ہوں، قرضوں کا ایک ہوشربا سمندر ہو، بین الاقوامی سازشیں ہوں، پروپیگنڈے یا کہ پابندیاں غرض ہر چیلنجز کو پچھاڑے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور آزادی کی ہزاروں اُن بے نام ہیروز کے خوابوں کی تعبیر مملکت خداداد ہماری شان ہماری آن ہم سب کا پیارا پاکستان (اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی 72 سالگرہ کے قریب آ پہنچا ہے۔)
اس بات سے انحراف نہیں کرسکتا کہ کسی بھی ملک کو اگر معاشی ابتری و استحصال، غلط پالیسیوں کے تسلسل، اندرونی و بیرونی جارحیت اور سیاسی عدم استحکام و لیڈر شپ کے فقدان کا سامنا کرنا پڑے تو اُس ملک کے لئے تعمیر و ترقی اور خوش حالی کا حصول محض ایک ایسے خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے جس کی کوئی تعبیر ہی نہ ہو۔
اگر ہم گزشتہ ادوار کی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اس ملک کو کئی چیلنجز سے نبردآزما ہونا پڑا، مگر ہم نے پھر بھی اُن مشکلات و مصائب کے سامنے اپنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ انتھک محنت، مستقل مزاجی اور قومی اتحاد و جدوجہد سے اُن مشکلات میں سے اپنے لئے راہیں تلاش کیں اور ایک اہم و مستحکم ریاست کی حیثیت سے دُنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرتے ہوئے آگے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر اپنی سفر جاری رکھی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکہ نے ہر دور میں اپنی مفادات کے حصول کے لئے ہمیں استعمال کرتا رہا چاہے وہ سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف اُن کی جنگ ہو یا پھر 11 ستمبر 2001ء کے بعد رونما ہونے والا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، امریکہ نے ہمیشہ اپنی قومی مفادات کی تسکین و حصول کی خاطر پاکستان کی کمزور معاشی حیثیت، سیکورٹی خدشات اور کمزور خارجہ پالیسی یا خارجہ امور میں کمزور حیثیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی سعی کی۔
دوسری طرف ہندوستان کی جارحیت و منافقت شروع دن سے ہی پاکستان کے لئے بہت بڑی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1947ء میں ہندوستان کی جانب سے مسلم اکثریتی ریاستوں، ریاست جونا گڑھ، حیدرآباد دکن اور جموں کشمیر پر جبری قبضہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہندوستان کو ہر میدان میں مشکلات میں الجھانے اور اپنی دشمنی کی آگ کو بڑھاوا دینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
افغانستان کے حالات اور ڈیورنڈ لائن پر افغانی موقف بھی ہماری خارجہ امور اور پالیسی پر بہت سے مشکلات کا سبب بنتا ہوا آیا ہے اور ان 71 سالوں میں افغانستان کی سول وار، دہشت گردی اور وہاں سے آنے والے مہاجرین کا پاکستان میں پناہ لینا ہم پر اور ہماری معیشت پر بہت گراں گزرا ہے۔
مگر دوسری طرف یہ بات خوش آئند ہے کہ ان مشکلات و مصائب کے باوجود چین جیسے بہترین دوست اور عالمی سطح پر ایک طاقتور ملک کے ساتھ ہمارے انتہائی دوستانہ مراسم بھی ہیں، جو ہمیں اُن مشکلات سے نبردآزما ہونے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت فراہم کرنے میں ایک کلیدی مدد فراہم کرتی ہے۔
موجودہ دور میں چین کے ساتھ سی پیک پراجیکٹ اور دوسری جانب شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) جیسے ایک انتہائی اہم آرگنائزیشن میں پاکستان کو مستقل ممبر کی حیثیت ملنا چین کی مرہون منت ہے اور چین کی تعاون سے سی پیک اور ایس سی او کے پلیٹ فارم اسٹرٹیجک، جیواکنامک اور جیوپولیٹیکل معاملات کو علاقائی و عالمی سطح پر بھی ابھار کے سامنے لاتے ہیں۔ ان پروجیکٹس اور ایس سی او کے پلیٹ فارم کو اگر ہم صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان ایک مضبوط، معاشی طور پر مستحکم، ترقی یافتہ اور خوش حال ملکوں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔
اگر اس کے بعد ہم پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حصول و حیثیت کی طرف اپنی گفتگو کو لیتے آئیں تو یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے کس طرح ہماری ایٹمی طاقت بننے کی کوششوں کو روکنے کے لئے اپنی بھرپور صلاحیتیں بروئے کار لائیں مگر اُن کی سازشوں سے گھبرانے کے بجائے ہم نے اپنا مقصد حاصل کیا اور دنیا کے ساتویں اور پہلے مسلم ایٹمی طاقت بن کر دکھا دیا۔ تمام مشکلات کے باوجود ہم نے (ایٹم فور پیس) کے منشور کے تحت اس صلاحیت کو جارحیت کے بجائے سویلین ضروریات کی فروغ آوری کے لئے استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے ہم نے میزائل ٹیکنالوجی، ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی تیاری، ٹینک سازی، ایئرکرافٹ کی تیاری و اپ گریڈیشن کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
آخری میں اس بات پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہوئے میں اپنی گفتگو کو سمیٹنا چاہوں گا کہ کسی بھی ملک میں بسنے والے افراد، سماجی و سیاسی رہنما، پالیسی ساز و دیگر ادارے، وہاں کی مسلح افواج، معاشی استحکام، بہتر و جدید تعلیمی و تربیتی ادارے آزادانہ داخلہ و خارجہ پالیسی اُس ملک کی بقا و سلامتی، تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لئے انتہائی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں مگر صدافسوس کے آزادی کے فوراً بعد ہی قائداعظم کی وفات نے ہمیں ایک عظیم قومی رہنما سے محروم کردیا اور پھر یہ ملک سیاسی افراتفری سے دوچار ہوگیا۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا چند سیاسی و آمر قوتوں نے وقتاً فوقتاً اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر چند ایسی پالیسیاں وضع کرکے اُن پر عمل درآمد کیا جن کا خمیازہ یہ ملک و قوم شاید اب تک بھگت رہی ہیں۔ اندرونی و بیرونی محاذوں پر ہر وقت دشمن قوتیں ہمیں پسپا کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں باوجود اس کے ہماری سیاسی قیادت ملک و قوم کی مفادات کو بالائے تاک رکھ کر اس کشمکش میں گرفتار ہیں کہ کس طرح اپنی اور اپنی پارٹی کی حکومت کو قائم کریں اور پھر اقتدار کی کرسی سے چمٹیں رہیں۔
مگر میں مایوس نہیں، مجھے یہ یقین محکم ہے کہ اگر میرے رب نے گزشتہ 71 سالوں میں ان مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت سے اس قوم کو نوازا تو وہ دن بھی بہت دور نہیں کہ ہم ایک بہترین ترقی یافتہ و طاقتور قوم کی حیثیت سے علاقائی و بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہوں گے۔ ذاتی مفادات کو پس پشت رکھ کر ایک متحد قوم بن کر لسانی و صوبائی تعصب سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کو ترجیح دے کر اپنی موجودہ وسائل و صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کریں۔ پھر دنیا دیکھے گی کہ ترقی و خوش حالی کی افق پر ہمارا یہ سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہوگا اور ہم بہ حیثیت پاکستانی قوم فخر سے سر اٹھائے ایک ترقی یافتہ و امن پسند قوم کی حیثیت سے دنیا کی ترقی و خوش حالی میں اپنا کردار ادا کررہے ہوں گے۔ (انشاء اللہ) آخر میں اقبال کا یہ شعر و رابطہ فورم انٹرنیشنل کا یہ (موٹیف) سنا کے اجازت لوں گا
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے!
کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک؟
کس طرح ہوا کُند ترا نشترِ تحقیق؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک؟