عابد محمود عزام
اگر عوام چاہیں تو آپس میں ہر بُرائی، منفی سوچ اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہر عمل کا بائیکاٹ کر کے ملک میں بہت جلد مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں جب عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، نہ سرمایہ دار اس شعور کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے ہتھکنڈے اس شعور کا راستہ روک سکتے ہیں، تمام تدابیر و تراکیب بے سود ہوتی ہیں اور بالآخر کامیابی عوام کے اجتماعی شعور کی ہی ہوتی ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نہ سرمایہ دار اس شعور کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے ہتھکنڈے اس شعور کا راستہ روک سکتے ہیں۔ تمام تدابیر و تراکیب بے سود ہوتی ہیں اور بالآخر کامیابی عوام کے اجتماعی شعور کی ہی ہوتی ہے۔ اجتماعی شعور کا مطلب کسی قوم کے افراد کی بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب اور زبان سماج میں اکٹھے آگے بڑھنے کی خواہش کا نام ہے۔ گویا یہ سماج اور اس کے افراد کے درمیان ایک غیرتحریری معاہدہ ہوتا ہے، جس پر سب عمل کرنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ دیکھنے میں آئی، جب عوام نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تین دن مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کے مختلف شہروں میں پھلوں کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ عوام نے آپس میں تین دن تک پھل نہ خریدنے کا غیرتحریری معاہدہ کیا، اکثریت نے اس پر عمل کیا، جس کی بدولت انہیں کافی حد تک کامیابی ملی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عوام چاہیں تو آپس میں ہر بُرائی، منفی سوچ اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہر عمل کا بائیکاٹ کر کے ملک میں بہت جلد مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں، کیونکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کا بنیادی تعلق عوام سے ہی ہے۔ اگر عوام تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری لانے کے متمنی ہوں گے اور اس کے لئے اجتماعی طور پر ایسے اقدامات کریں گے جو ملک کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوں تو ملک یقینا ترقی کی منازل بہت تیز رفتاری کے ساتھ طے کرے گا، مگر اس کے لئے عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہونا ضروری ہے۔ کسی سماج کے افراد کی جتنی زیادہ تعداد ترقی کی سمت اور رفتار کے بارے میں شعوری آگاہی رکھے گی، اتنا ہی سماج میں ترقی یافتہ ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ یہ شعور معاشرے کے تمام افراد سے جڑا ہے۔ جب تمام افراد متحد ہو کر کوئی کام کرتے ہیں تو کامیابی یقینا ان کے قدم چومتی ہے، کیونکہ عوام کی قوت جس سمت بھی چل پڑے، راستے کی کوئی چٹان ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر یہ قوت صحیح مقصد کے لئے استعمال ہوگی تو ملک و قوم اور خود عوام کے لئے مفید ثابت ہوگی اور اگر یہ قوت کسی مفاد پرست ٹولے کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر ملک و قوم بھاری نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں اور سماج کو سوائے بگاڑ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آج سماج میں امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفائے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ اخلاقی بگاڑ سماج کی رگوں میں خون کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ فرقہ واریت، انتہاپسندی، ظلم، ناانصافی، لسانی، صوبائی، قومی اور مسلکی تعصبات، کرپشن، بدعنوانی، بدامنی، دھوکا، جھوٹ، چوری، ڈاکا، رشوت، قانون کی پامالی، میرٹ کی تذلیل، امیروغریب کی تقسیم سمیت بہت سی بُرائیاں ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہم لوگ اجتماعی خیرو شر کی فکر سے خالی اور اپنے مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں اور دیگر بہت سے منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس صورتِ حال پر ہر شخص کف افسوس ملتا نظر آتا ہے، مگر حالات بدل نہیں رہے، کیونکہ اس حوالے سے ہمارا اجتماعی شعور ترقی یافتہ ممالک کی طرح بیدار نہیں ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر شہری اس یقین کے ساتھ خود کو معاشرے کی اکائی سمجھتا ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوگا تو معاشرہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ معاشرہ ٹھیک کرنے کے لئے اس کا ٹھیک ہونا ضروری ہے، لیکن ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ ہم میں سے ہر ایک نے یہ خیال کرلیا ہے کہ جب تک سارا معاشرہ ٹھیک نہیں ہوجاتا، اس وقت تک ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص ملک سے بدعنوانی و رشوت کے خاتمے کا خواہش مند تو ہے، لیکن خود رشوت چھوڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ سب چاہتے ہیں کہ تمام ملکی قوانین کی پابندی سب کو کرنی چاہئے، لیکن خود کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کا پابند ہونا چاہئے مگر جب اپنی باری آتی ہے تو اپنے مفاد کے لئے کوئی بھی حد توڑنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ ملک سے فرقہ واریت، انتہاپسندی اور مسلکی و مذہبی تعصبات کا خاتمہ ہو، لیکن اپنے نظریات اور اپنی سوچ پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لئے تیار بھی نہیں ہوتا۔ ہر نظریے و مسلک کے افراد یہی چاہتے ہیں کہ سب ہمارے ماتحت ہوجائیں، جیسے ہم چاہیں، تمام لوگ اسی طرح کریں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں امیروغریب کے درمیان پائی جانے والی دوریاں ختم ہوجائیں، لیکن اپنے سے نچلے اور غریب افراد کو سینے سے لگاتے ہوئے عار بھی محسوس کرتے ہیں۔ حکمران اور مقتدر طبقے نے جہاں موقع ملا، کرپشن و بدعنوانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور دل کھول کر ملک کی دولت سے مفادات حاصل کیے، لیکن عوام کو بھی جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا ضروری جانا۔ انہیں کہیں انصاف نہ ملا تو انہوں نے دوسروں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کو اپنے لئے جائز قرار دے دیا۔ چھوٹے عہدوں پر موجود افراد نے یہ سوچ کر رشوت کا بازار گرم کیا کہ جب بڑے عہدوں والے رشوت لے رہے ہیں تو ہمیں بھی لے لینی چاہئے۔ ایک دکاندار کم تولتا اور ملاوٹ اس لئے کرتا ہے کہ مجھے بھی ملاوٹ شدہ اشیا ملتی ہیں، اس لئے مجھے بھی جعل سازی کرلینی چاہئے۔ خود کو استثنیٰ دینے کی یہی سوچ اوپر سے نیچے ہر شخص کے ذریعے معاشرے کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ ایک غریب کو دوسرے غریب کا حق مارنے کی اجازت دیتی ہے اور ہر فرد کو ہر غلط کام کرنے پر ابھارتی ہے۔ ہم لوگ غیرمسلم ممالک کے ظلم کا رونا تو روتے ہیں، لیکن خود ہمارا بس جہاں چلتا ہے، اپنے سے کمزور پر ظلم بھی کرتے جاتے ہیں۔ ہم ہر بُرائی پر انگلی اٹھاتے ہیں، مگر خود سے وہ بُرائی دور کرنے کی سعی نہیں کرتے اور اگر ہمارا ضمیر کبھی ہمیں ملامت کرتا بھی ہے تو ہم اس منفی سوچ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی ڈگر پر چلتے جاتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ہی ننگے ہوچکے ہیں، مجھے بھی اخلاقیات کا لباس اتار دینا چاہئے۔ اس منفی سوچ سے یہ ہوا کہ اشرافیہ اور مقتدر طبقے کی جن بُرائیوں پر ہم سارا دن تنقید کرتے ہیں، ان میں تو کمی نہیں آئی، لیکن عام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی ضرور اجیرن ہوگئی ہے۔ یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے، حالانکہ ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب تمام افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر ملک و قوم کے مفاد کی خاطر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔ جب معاشرے کے تمام افراد یہ عہد کرلیں کہ کوئی دوسرا عمل کرے یا نہ کرے، لیکن اسے خود اس پر عمل کرنا ہے، جب یہ اجتماعی شعور بیدار ہوجائے اور معاشرے کے تمام افراد اس سوچ کو قبول کریں اور اس پر عمل کریں اور ہر بُرائی کا بائیکاٹ کریں تو اس وقت ملک و قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آیئے ہم بھی بُرائی کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تاکہ ملک بہت جلد ترقی کی منازل طے کرسکے۔
امریکا نے افغان فوج کی وردیاں بدلنے پر کروڑوں ڈالر پھونک ڈالے
امریکا نے افغان فوج کی نئی وردیوں پر 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ضائع کردیئے جبکہ آئندہ 10 سال میں یہ خسارہ 7 کروڑ 22 لاکھ ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ افغان جنگ کے امریکی نگراں ادارے نے بتایا کہ محکمہ دفاع پنٹاگون نے محض افغان وزیر دفاع کی پسند کی نئی وردی کیلئے قومی خزانے سے بھاری رقم خرچ کردی۔ نگراں امریکی ادارے نے پنٹاگون کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے قومی خزانے کیلئے بھاری نقصان قرار دیا جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس اقدام کی وجہ کرپشن بھی ہوسکتی ہے۔ ’’اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیرنو‘‘ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ پنٹاگون نے افغان نیشنل آرمی کیلئے ’’جنگل کیموفلاج‘‘ والی 14 لاکھ وردیاں اور 88 ہزار اضافی پینٹس خریدیں، یہ سوچے بغیر کہ افغانستان میں جنگل والی وردی کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی کیونکہ اس ملک کا 98 فیصد علاقہ تو صحرا پر مشتمل ہے۔ انسپکٹر جنرل جان سپکو نے اپنی رپورٹ میں اس فیصلہ کو افغانستان کے ماحول اور جغرافیے سے عین متضاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے وردی کے جس ڈیزائن کا انتخاب کیا، اس کے حقوق نجی ملکیت تھے، جن کی خریداری کیلئے خطیر رقم خرچ کی گئی، حالانکہ فوج کے پاس دیگر ڈیزائنز کی بے شمار وردیاں پہلے سے موجود تھیں جنہیں بالکل مفت استعمال کرکے خزانے کے 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر بچائے جاسکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جنگل کیموفلاج والی وردی افغان فوج کیلئے خطرناک بھی ہے کیونکہ صحرا میں یہ دشمن کو واضح دکھائی دے گی۔ جان سپکو نے کہا کہ مجھے افغان فوجیوں پر ترس آتا ہے اور یہ تو خود انہیں اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنی والی بات ہے۔ 2007 میں جنگل کیموفلاج والی وردی کی خریداری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ افغان وزیر دفاع عبدالرحیم وردک کو یہ وردی انٹرنیٹ پر اچھی اور ’’فیشن‘‘ والی لگی تھی۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جان سپکو نے کہا کہ ’’اگر وزیرِ دفاع کو جامنی یا گلابی رنگ پسند ہوتا تو کیا ہم گلابی وردیاں لے لیتے۔ یہ تو انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔ ہم نے ایک وزیر کو اچھا نظر آنے کیلئے اپنے عوام کے کروڑوں ڈالر برباد کردیئے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق کسی دوسری وردی کا انتخاب کرکے آئندہ 10 سال کیلئے امریکی خزانے میں 7 کروڑ 22 لاکھ ڈالر تک بچائے جاسکتے تھے۔ جان سپکو نے کہا کہ یہ اس طرح کا پہلا فیصلہ نہیں، افغانستان میں ہم نے اس طرح کے بہت سارے احمقانہ فیصلے کرکے متعدد ٹھیکے دیئے ہوئے ہیں، جبکہ ذمہ داران کا احتساب نہیں کیا جاتا، بس عام امریکی کی جیب سے پیسہ نکلتا رہتا ہے۔ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ثابت ہوئی ہے جو کسی طور ختم میں نہیں آرہی، جبکہ حالیہ اطلاعات کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں میں اضافے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز میں شدید کرپشن ہے جو مبینہ طور پر اپنے ہتھیار تک بیچ دیتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغان فوج کی تعمیر و تربیت پر اب تک کروڑوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں جس میں وردی کی خریداری تو محض ایک مصرف ہے۔ رواں سال کے اوائل میں جان سپکو نے ہی بتایا تھا کہ طالبان جنگجو اپنے ہتھیار اور ایندھن افغان فوجیوں سے خریدتے ہیں، کیونکہ وہ انہیں سستی قیمت میں ملتے ہیں۔