رپورٹ: سید زین العابدین
سندھ کے سلگتے ہوئے مسائل پر انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کا اہم اجلاس
پاکستان انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں دشمنانِ پاکستان نے مخلوط جنگ شروع کر رکھی ہے۔ جس میں لسانی، مسلکی دہشت گردی، مذہبی حوالے سے تخریب کاری کو ہوا دی جارہی ہے جبکہ ہماری فوج، پولیس، رینجرز و دیگر ایجنسیز مل کر ان دشمنانِ پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنانے اور دہشت گردی پر قابو پانے کی بھرپور جدوجہد کررہی ہیں۔ جس میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہیں۔ جس پر ہم ان کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں معاشی اور سماجی ناہمواریاں موجود ہیں جس کے سبب ہمارا نوجوان مایوسی کا شکار ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ نیز رشوت، کرپشن اور بدعنوانی ناصرف اداروں کو بلکہ ملک کو بھی دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں موجود تمام قوانین کو بروئے کار لا کر ملک کو راشی افسران، انتظامیہ سے پاک کیا جائے۔ اس سلسلے میں بری فوج کے سربراہ کے کرپشن پر دیئے ہوئے خطاب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
پاکستان کے گھمبیر مسائل کے حل کے لئے ایک ایسے غیرسیاسی فورم کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو مسائل کا ہر پہلو سے بغور جائزہ لے کر اس کا قابل عمل حل پیش کرسکے۔ لہٰذا اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس میں ملک بھر کے دانشور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے قابل عمل تجاویز پیش کریں گے۔
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کثیر تعداد میں دانشور، اہل قلم، تاجر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور شہر کے مسائل اور سیاسی صورتِ حال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔معروف کالم نگار و تجزیہ نگار نصرت مرزا کنونشن کے مہمان خصوصی اور صدارت بھی انہوں نے کی جبکہ سلیم احمد نے کنونشن میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ جن شرکا نے اس کنونشن سے خطاب کیا اُن کے خطاب کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
(نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل
اُردو بولنے والوں کی سیاسی نمائندگی کرنے کے نام پر جو تنظیم کراچی میں آئی اس نے شہر کو برباد کردیا، اُس گروپ کے لیڈر نے 1988ء میں پاکستان توڑنے کی بات کی، جس کی ہم نے شدید مخالفت کی، اُس تنظیم کا خوف اتنا تھا کہ کوئی اس کے خلاف بات نہیں کرتا تھا مگر ہم پاکستان بنانے والے ہیں ہم اسے توڑنے کی باتیں کیسے برداشت کرسکتے ہیں، اب جو سیاسی خلا پیدا ہوہے اسے اُردو بولنے والوں کے پڑھے لکھے افراد پورا کریں گے، سندھ میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اہم عہدوں پر تعیناتی کے وقت لسانی، تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، شہر کے باسیوں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ تعلیمی نظام پہلے ہی برباد ہوچکا ہے، ہم یہ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے، سندھ حکومت کی متعصبانہ پالیسی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، سندھی، پنجابی، پٹھان، سرائیکی، بلوچی اور مہاجر اس شہر کی ترقی میں مساوی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
حاجی شفیق الرحمان
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے کراچی کے مسائل کو اجاگر کریں گے، اس شہر کا بہت نقصان ہوچکا، ہماری تنظیم ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ سمیت کسی جماعت کی مخالف نہیں ہے، ہمارا مقصد لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے اور عام لوگوں کی تجاویز کے مطابق اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، میں کراچی کے طلبا، مزدوروں، دانشوروں، صنعتکاروں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کراچی کے مسائل اور یہاں کے لوگوں کی نمائندگی کو سامنے لانے کے لئے تجاویز دیں، ہمارا نوجوان تعلیم کے میدان میں پیچھے چلا گیا ہے، نوجوانوں کو دانستہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں لگا دیا گیا تھا، اب دوبارہ اپنی نئی نسل کو تعلیم کی طرف لانا ہے، کراچی کے عوام اپنی سیاسی نمائندگی اُسے دیں گے جو ان کے مسائل کا ادراک رکھتا ہوگا، میں نے صدر مملکت سے گزارش کی تھی کہ کراچی کا آپ پر بڑا حق ہے، اس کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں، لوگوں سے ملیں تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میرا کراچی کے رہنے والوں سے رابطہ ہے، ہم نے گزشتہ 35 سال علما، اساتذہ اور دانشوروں کی قدر نہیں کی، ایک ٹولے کو اپنے اوپر مسلط کرلیا تھا، آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ اس تنظیم کے مقاصد کو پھیلائیں تاکہ کراچی کے مسائل حل ہوسکیں۔
کون ہیں اپنے اور کون ہیں بیگانے لوگ
(ایس ایم اسلم (سابق ممبر قومی اسمبلی
تحریک پاکستان کے دوران اور تقسیم ہند کے وقت اُردو بولنے والوں نے قربانی دی، قیام پاکستان کے بعد ہمارے اربابِ اختیار کی نااہلی کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، اس موقع پر اُردو بولنے والوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا پرچم بلند کیا اور جان و مال کی قربانی دی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے دوران 7 لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا پھر بھی قربانی دینے والوں کو پاکستانی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ظلم سے بچ کر آنے والوں سے کہا گیا کہ وہ 1970ء سے قبل کے پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت دیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ نظریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے،اُردو بولنے والوں کے ساتھ یہ ناانصافی کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔
طارق شاداب
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، اس نظریہ کو پہلا دھچکا 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پہنچا تھا، بنگالی کی سرزمین پر دو قومی نظریہ پس پشت چلا گیا تھا، اس کے بعد بانیان پاکستان کی اولادوں کو کراچی میں منفی طریقے سے استعمال کیا گیا، اس شہر میں ایک آمر کے دور میں لسانی تعصب کی بنا پر ایک دن میں سینکڑوں لاشیں گرائی گئیں اور آمر نے مکا لہرا کر اپنی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کیا جبکہ اس واقعے کے بعد ایک وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں آپریشن نہیں ہونے دوں گا، اس طرح ایک خونی ٹولے کو شہر پر مسلط کیا گیا لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہوچکی ہے، اب سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے جسے پُر کرنے کے لئے ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو قومی اور بین الاقوامی سیاست کا ادراک رکھتی ہو، ہمیں نظریاتی قیادت لانا ہوگی جیسا کہ 1988ء میں لائی گئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ اپنے ہدف اور مقصد سے ہٹ گئی تھی لیکن اب ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنا ہوگا، پاک فوج کے سپہ سالار نے معاشی مسائل کی بات درست کی ہے، بدعنوان ٹولے سے نمٹنے کے لئے بانیان پاکستان کی اولادوں کے ہاتھوں کو تھامنا ہوگا۔
محمد اقبال خان
کراچی کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ سندھ حکومت معاشی، معاشرتی اور انتظامی ناانصافی کررہی ہے، ہمیں اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔ اسی سوچ کے تحت ہم اپنی کوششوں کا آغاز کررہے ہیں، کراچی میں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو عوام کی صحیح ترجمانی کرسکے۔ تعصب کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے، تعصب کا یہ سلسلہ تقسیم سے قبل برصغیر میں رائج تھا۔ انگریز ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا استحصال کررہے تھے لیکن پھر قائداعظم کی سربراہی میں علیحدہ وطن کے حصول کی کوشش شروع ہوئی اور پاکستان کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یوپی میں 14 سے 15 فیصد مسلمان تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ان کا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس کے باوجود وہاں کے مسلمانوں نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قربانیاں دیں اور جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو اس کے بعد ہندوؤں کی جنونیت کا شکار ہوئے۔ یہ قربانیاں اس لئے نہیں دی گئی تھیں کہ مملکت خداداد میں ظلم کا نظام قائم ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تعصب پر مبنی فیصلے سے اجتناب کرے۔ کراچی کے شہریوں کے تحفظات دور کرے۔
(محمد حسین بخشی (وائس چیئرمین آباد
کراچی میں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اس شہر کے مسائل کو اون نہیں کرتے۔ کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے مگر بنیادی ضروریات کا فقدان ہے، شہر کے 55 فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، 1980-85ء میں یہ شرح 16 فیصد تھی، نئی بلڈنگز بنانے، زمین کی الاٹمنٹ کرانے پر پابندی عائد ہے لیکن غیرقانونی قبضہ کرنے کی مکمل آزادی ہے، رشوت دے کر تمام پابندیوں کو ختم کرا لیا جاتا ہے، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں تعصب نظر آرہا ہے، ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور شہر کے مسائل حل کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرے۔
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کا اجلاس اور قراردادیں
کراچی اور سندھ کے دانشوروں کا 15 اکتوبر 2017ء کو ہوٹل بیچ لگژری میں نصرت مرزا کی صدارت میں سندھ کے سلگتے ہوئے مسائل پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ صوبہ سندھ کثیر السانی صوبہ ہے لیکن اس کی حکومت اور تمام انتظامی یونٹ جیسے پولیس، سرکاری مشینری، بیورو کریسی، ان سب پر ایک گروپ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کا توازن بگڑ گیا اور مختلف لسانی گروپ ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کنونشن میں متفقہ طور پر درج ذیل قراردادیں پیش کی گئیں۔ قرارداد مسعود عالم نے پیش کیں اور شرکا نے ہاتھ اٹھا کر اعتماد کا اظہار کیا۔ لہٰذا انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ:
ایک: سندھ حکومت کی وزارتوں میں دیگر زبان بولنے والوں کو حسب تناسب حصہ دیا جائے جبکہ اُردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت، جماعتوں کو وزارتوں میں 50 فیصد حصہ دیا جائے جبکہ وفاقی حکومت میں 20 فیصد وزارتیں دی جائیں۔
دو: سندھ میں رہنے والے تمام لسانی گروپوں جس میں خاص طور پر اُردو، پختون، بلوچی اور پنجابی بولنے والوں کو سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی دی جائے۔
تین : سندھ کے دیہی و شہری علاقوں کے حکومتی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے آئین میں ترمیم کرکے ڈپٹی وزیراعلیٰ کا عہدہ بھی قائم کیا جائے جس کی نمائندگی سندھی بولنے والے وزیراعلیٰ ہونے کی صورت میں اُردو بولنے والے کو دی جائے۔
چار : آج جبکہ پورے ملک میں بلدیاتی نظام عوام کے منتخب نمائندے چلا رہے ہیں وہیں ڈسٹرکٹ ویسٹ کراچی میں ایڈمنسٹریٹر اس نظام کو چلا رہا ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے اس ایڈمنسٹریٹر کی شہرت انتہائی خراب ہے۔ اس لئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس ایڈمنسٹریٹر کو نہ صرف فوری طور پر برطرف کیا جائے بلکہ اس کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔
پانچ: 2017ء کے مردم شماری کے عبوری نتائج پر کراچی کے عوام کو تحفظات ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سندھ کی شہری آبادی خاص طور پر کراچی کی آبادی کی مردم شماری صحیح کی جائے اور اسی تناسب سے ہر ادارے میں نمائندگی کا تعین کیا جائے۔
چھ : دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے میئرز مکمل اختیارات کے مالک ہوتے ہیں اسی طرح کراچی سمیت صوبے کے تمام شہروں کے میئرز کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔ نیز سندھ کے تمام ڈی ایم سیز کو فعال کرنے کے لئے خصوصی طور پر اختیارات دیئے جائیں۔
سات : اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پولیس اور انتظامیہ میں اُردو بولنے والوں کی اصل نمائندگی واضح طور پر نظر آئے۔
آٹھ : اس بات کو یقینی بنایا جائے شہر کراچی میں ناجائز کچی آبادیاں وجود میں نہ آنے پائیں نیز ناجائز تعمیرات کی تعمیر کے وقت حوصلہ شکنی کی جائے اور اس میں شامل اور مددگار ایس بی سی اے اور دیگر اداروں کے افران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے جبکہ پہلے سے ناجائز تعمیر شدہ عمارتوں کو ریگولرائز کیا جائے تاکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی محفوظ ہوجائے۔
نو : آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بجٹ کی نسبت مالی طور پر بے انتہا مضبوط ہوگئے ہیں اور مالی وسائل سے مالا ہوگئے ہیں لیکن اس کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ صوبے مالی اختیارات کو نچلی سطح تک لائیں تاکہ بلدیاتی مسائل، پانی اور گندے پانی کے نکاسی جیسے مسائل سے باآسانی نمٹا جاسکے۔ اس لئے یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی بلدیات کو فوری طور پر فنڈز فراہم کئے جائیں تاکہ یہ ادارے اپنی ذمہ داریاں بحسن بخوبی ادا کرسکیں۔ نیز وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فی الفور بلدیہ کراچی کو خصوصی طور پر فنڈز فراہم کئے جائیں۔
دس : پاکستان کی موجودہ آبادی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے مسائل کو بہتر اور احسن طریقے سے حل کرنے کے لئے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح مزید صوبے بنائے جائیں۔ عارضی طور پر گلگت بلتستان انتظامی یونٹ کی طرح موجودہ صوبوں میں بھی انتظامی یونٹ بنائے جائیں۔
گیارہ : دہشت گردی سے متاثرہ افراد، خاندان، املاک کی بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فوری طور پر امدادی پروگرام کا اعلان کریں۔
بارہ : کھیل کے میدان پارک اور دیگر عوامی فلاحی مقامات کو لینڈ مافیا سے آزاد کرایا جائے اور لینڈ مافیا اور ان کے مددگاروں کو قانونی گرفت میں لایا جائے۔
تیرہ : کسی بھی قسم کی گرفتاری کے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بے گناہ افراد اس کی زد میں نہ آئیں۔
چودہ : بے گناہ گرفتار افراد اور تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں، وکلا، پولیس کے اہل خانہ کی مالی مدد کی جائے۔
پندرہ : اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہری بلدیاتی اداروں میں اُردو بولنے والے اور دیگر زبانیں بولنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔
سولہ : شفاف سروے کرتے ہوئے اسکول، کالجز اور دیگر عوامی مقامات پر قائم تجاوزارت کا خاتمہ کیا جائے۔
سترہ : سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان سے آنے والے پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کے اجرا میں بے انتہا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح انہیں بھی شناختی کارڈ بغیر کسی رکاوٹ کے حاصل ہوجائے۔
اٹھارہ : لینڈ مافیا سے نجات کے لئے تمام شہری اور دیہی زمینوں کے پیمائشی ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نظام سے منسلک کیا جائے۔
انیس : کراچی شہر پینے کے پانی کی شدید کمی کا شکار ہے، اس سلسلے میں ایک طویل عرصے کے بعد کے-4 کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس سے پانی کی کمی کی مشکلات کو کم کیا جاسکے گا، مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کے -4 کا منصوبہ لازمی طور پر اپنے مقررہ مدت میں پورا کیا جائے۔
بیس : کراچی میں پینے کے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کی منصوبہ بندی کی جائے، کچرے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کئے جائیں۔
اکیس : امن وامان کی بہتر صورتِ حال کے لئے تمام مصروف شاہراہوں، علاقوں، آبادیوں اور بازاروں میں کارآمد سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں اور ان کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام کیا جائے۔
بائیس : کراچی پاکستان کا سب سے بڑا آبادی والا شہر ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، عوام کی بہتر سہولت اور کارکردگی میں اضافے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ لاہور اور ملتان کی طرح کراچی میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا بہتر اور مناسب انتظام کیا جائے۔
تئیس : وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ کراچی اور اس کے قرب و نواح میں تعمیر ہونے والے ونڈ پراجیکٹ، کول پراجیکٹ، سولر پراجیکٹ اور ایٹمی ری ایکٹر سے پیدا ہوانے والی بجلی کی کم سے کم نصف مقدار کراچی کے شہریوں کو فراہم کی جائے نیز اس کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کراچی الیکٹرک اور واپڈا کے بجلی صارفین کو یکساں ریٹ کی بنیاد پر بل فراہم کئے جائیں۔ اگر اس سلسلے میں کوئی سبسڈی دینی پڑتی ہے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی آبادی کو اس سے مستفید کیا جائے۔
چوبیس : صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم انتہائی بدعنوانی اور کرپشن کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف معیاری اساتذہ موجود نہیں ہیں جبکہ اسکول اور کالجز فرنیچر کی کمی اور عمارتوں کی نہ موجودگی کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں معیار تعلیم معیار کے نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ موجودہ تمام اساتذہ بی ایڈ کوالیفائیڈ ہیں اور میرٹ پر بھرتی شدہ ہیں جبکہ آئندہ اساتذہ کی بھرتی میرٹ اور کوالیفیکیشن کو مدنظر رکھا جائے۔ نیز جہاں پر بلڈنگ موجود نہیں ہے ان کو فوری طور پر تعمیر کیا جائے تاکہ معیار تعلیم کو بہتر کیا جاسکے۔
پاکستان انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں دشمنانِ پاکستان نے مخلوط جنگ شروع کر رکھی ہے۔ جس میں لسانی، مسلکی دہشت گردی، مذہبی حوالے سے تخریب کاری کو ہوا دی جارہی ہے جبکہ ہماری فوج، پولیس، رینجرز و دیگر ایجنسیز مل کر ان دشمنانِ پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنانے اور دہشت گردی پر قابو پانے کی بھرپور جدوجہد کررہی ہیں۔ جس میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہیں۔ جس پر ہم ان کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں معاشی اور سماجی ناہمواریاں موجود ہیں جس کے سبب ہمارا نوجوان مایوسی کا شکار ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ نیز رشوت، کرپشن اور بدعنوانی ناصرف اداروں کو بلکہ ملک کو بھی دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں موجود تمام قوانین کو بروئے کار لا کر ملک کو راشی افسران، انتظامیہ سے پاک کیا جائے۔ اس سلسلے میں بری فوج کے سربراہ کے کرپشن پر دیئے ہوئے خطاب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
پاکستان کے گھمبیر مسائل کے حل کے لئے ایک ایسے غیرسیاسی فورم کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو مسائل کا ہر پہلو سے بغور جائزہ لے کر اس کا قابل عمل حل پیش کرسکے۔ لہٰذا اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس میں ملک بھر کے دانشور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے قابل عمل تجاویز پیش کریں گے۔
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کثیر تعداد میں دانشور، اہل قلم، تاجر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور شہر کے مسائل اور سیاسی صورتِ حال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔معروف کالم نگار و تجزیہ نگار نصرت مرزا کنونشن کے مہمان خصوصی اور صدارت بھی انہوں نے کی جبکہ سلیم احمد نے کنونشن میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ جن شرکا نے اس کنونشن سے خطاب کیا اُن کے خطاب کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
(نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل
اُردو بولنے والوں کی سیاسی نمائندگی کرنے کے نام پر جو تنظیم کراچی میں آئی اس نے شہر کو برباد کردیا، اُس گروپ کے لیڈر نے 1988ء میں پاکستان توڑنے کی بات کی، جس کی ہم نے شدید مخالفت کی، اُس تنظیم کا خوف اتنا تھا کہ کوئی اس کے خلاف بات نہیں کرتا تھا مگر ہم پاکستان بنانے والے ہیں ہم اسے توڑنے کی باتیں کیسے برداشت کرسکتے ہیں، اب جو سیاسی خلا پیدا ہوہے اسے اُردو بولنے والوں کے پڑھے لکھے افراد پورا کریں گے، سندھ میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اہم عہدوں پر تعیناتی کے وقت لسانی، تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، شہر کے باسیوں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ تعلیمی نظام پہلے ہی برباد ہوچکا ہے، ہم یہ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے، سندھ حکومت کی متعصبانہ پالیسی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، سندھی، پنجابی، پٹھان، سرائیکی، بلوچی اور مہاجر اس شہر کی ترقی میں مساوی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
حاجی شفیق الرحمان
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے کراچی کے مسائل کو اجاگر کریں گے، اس شہر کا بہت نقصان ہوچکا، ہماری تنظیم ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ سمیت کسی جماعت کی مخالف نہیں ہے، ہمارا مقصد لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے اور عام لوگوں کی تجاویز کے مطابق اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، میں کراچی کے طلبا، مزدوروں، دانشوروں، صنعتکاروں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کراچی کے مسائل اور یہاں کے لوگوں کی نمائندگی کو سامنے لانے کے لئے تجاویز دیں، ہمارا نوجوان تعلیم کے میدان میں پیچھے چلا گیا ہے، نوجوانوں کو دانستہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں لگا دیا گیا تھا، اب دوبارہ اپنی نئی نسل کو تعلیم کی طرف لانا ہے، کراچی کے عوام اپنی سیاسی نمائندگی اُسے دیں گے جو ان کے مسائل کا ادراک رکھتا ہوگا، میں نے صدر مملکت سے گزارش کی تھی کہ کراچی کا آپ پر بڑا حق ہے، اس کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں، لوگوں سے ملیں تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میرا کراچی کے رہنے والوں سے رابطہ ہے، ہم نے گزشتہ 35 سال علما، اساتذہ اور دانشوروں کی قدر نہیں کی، ایک ٹولے کو اپنے اوپر مسلط کرلیا تھا، آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ اس تنظیم کے مقاصد کو پھیلائیں تاکہ کراچی کے مسائل حل ہوسکیں۔
کون ہیں اپنے اور کون ہیں بیگانے لوگ
(ایس ایم اسلم (سابق ممبر قومی اسمبلی
تحریک پاکستان کے دوران اور تقسیم ہند کے وقت اُردو بولنے والوں نے قربانی دی، قیام پاکستان کے بعد ہمارے اربابِ اختیار کی نااہلی کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، اس موقع پر اُردو بولنے والوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا پرچم بلند کیا اور جان و مال کی قربانی دی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے دوران 7 لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا پھر بھی قربانی دینے والوں کو پاکستانی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ظلم سے بچ کر آنے والوں سے کہا گیا کہ وہ 1970ء سے قبل کے پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت دیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ نظریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے،اُردو بولنے والوں کے ساتھ یہ ناانصافی کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔
طارق شاداب
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، اس نظریہ کو پہلا دھچکا 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پہنچا تھا، بنگالی کی سرزمین پر دو قومی نظریہ پس پشت چلا گیا تھا، اس کے بعد بانیان پاکستان کی اولادوں کو کراچی میں منفی طریقے سے استعمال کیا گیا، اس شہر میں ایک آمر کے دور میں لسانی تعصب کی بنا پر ایک دن میں سینکڑوں لاشیں گرائی گئیں اور آمر نے مکا لہرا کر اپنی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کیا جبکہ اس واقعے کے بعد ایک وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں آپریشن نہیں ہونے دوں گا، اس طرح ایک خونی ٹولے کو شہر پر مسلط کیا گیا لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہوچکی ہے، اب سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے جسے پُر کرنے کے لئے ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو قومی اور بین الاقوامی سیاست کا ادراک رکھتی ہو، ہمیں نظریاتی قیادت لانا ہوگی جیسا کہ 1988ء میں لائی گئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ اپنے ہدف اور مقصد سے ہٹ گئی تھی لیکن اب ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنا ہوگا، پاک فوج کے سپہ سالار نے معاشی مسائل کی بات درست کی ہے، بدعنوان ٹولے سے نمٹنے کے لئے بانیان پاکستان کی اولادوں کے ہاتھوں کو تھامنا ہوگا۔
محمد اقبال خان
کراچی کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ سندھ حکومت معاشی، معاشرتی اور انتظامی ناانصافی کررہی ہے، ہمیں اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔ اسی سوچ کے تحت ہم اپنی کوششوں کا آغاز کررہے ہیں، کراچی میں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو عوام کی صحیح ترجمانی کرسکے۔ تعصب کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے، تعصب کا یہ سلسلہ تقسیم سے قبل برصغیر میں رائج تھا۔ انگریز ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا استحصال کررہے تھے لیکن پھر قائداعظم کی سربراہی میں علیحدہ وطن کے حصول کی کوشش شروع ہوئی اور پاکستان کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یوپی میں 14 سے 15 فیصد مسلمان تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ان کا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس کے باوجود وہاں کے مسلمانوں نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قربانیاں دیں اور جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو اس کے بعد ہندوؤں کی جنونیت کا شکار ہوئے۔ یہ قربانیاں اس لئے نہیں دی گئی تھیں کہ مملکت خداداد میں ظلم کا نظام قائم ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تعصب پر مبنی فیصلے سے اجتناب کرے۔ کراچی کے شہریوں کے تحفظات دور کرے۔
(محمد حسین بخشی (وائس چیئرمین آباد
کراچی میں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اس شہر کے مسائل کو اون نہیں کرتے۔ کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے مگر بنیادی ضروریات کا فقدان ہے، شہر کے 55 فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، 1980-85ء میں یہ شرح 16 فیصد تھی، نئی بلڈنگز بنانے، زمین کی الاٹمنٹ کرانے پر پابندی عائد ہے لیکن غیرقانونی قبضہ کرنے کی مکمل آزادی ہے، رشوت دے کر تمام پابندیوں کو ختم کرا لیا جاتا ہے، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں تعصب نظر آرہا ہے، ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور شہر کے مسائل حل کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرے۔
انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان کا اجلاس اور قراردادیں
کراچی اور سندھ کے دانشوروں کا 15 اکتوبر 2017ء کو ہوٹل بیچ لگژری میں نصرت مرزا کی صدارت میں سندھ کے سلگتے ہوئے مسائل پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ صوبہ سندھ کثیر السانی صوبہ ہے لیکن اس کی حکومت اور تمام انتظامی یونٹ جیسے پولیس، سرکاری مشینری، بیورو کریسی، ان سب پر ایک گروپ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کا توازن بگڑ گیا اور مختلف لسانی گروپ ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کنونشن میں متفقہ طور پر درج ذیل قراردادیں پیش کی گئیں۔ قرارداد مسعود عالم نے پیش کیں اور شرکا نے ہاتھ اٹھا کر اعتماد کا اظہار کیا۔ لہٰذا انٹیلکچوئل فورم آف پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ:
ایک: سندھ حکومت کی وزارتوں میں دیگر زبان بولنے والوں کو حسب تناسب حصہ دیا جائے جبکہ اُردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت، جماعتوں کو وزارتوں میں 50 فیصد حصہ دیا جائے جبکہ وفاقی حکومت میں 20 فیصد وزارتیں دی جائیں۔
دو: سندھ میں رہنے والے تمام لسانی گروپوں جس میں خاص طور پر اُردو، پختون، بلوچی اور پنجابی بولنے والوں کو سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی دی جائے۔
تین : سندھ کے دیہی و شہری علاقوں کے حکومتی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے آئین میں ترمیم کرکے ڈپٹی وزیراعلیٰ کا عہدہ بھی قائم کیا جائے جس کی نمائندگی سندھی بولنے والے وزیراعلیٰ ہونے کی صورت میں اُردو بولنے والے کو دی جائے۔
چار : آج جبکہ پورے ملک میں بلدیاتی نظام عوام کے منتخب نمائندے چلا رہے ہیں وہیں ڈسٹرکٹ ویسٹ کراچی میں ایڈمنسٹریٹر اس نظام کو چلا رہا ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے اس ایڈمنسٹریٹر کی شہرت انتہائی خراب ہے۔ اس لئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس ایڈمنسٹریٹر کو نہ صرف فوری طور پر برطرف کیا جائے بلکہ اس کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔
پانچ: 2017ء کے مردم شماری کے عبوری نتائج پر کراچی کے عوام کو تحفظات ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سندھ کی شہری آبادی خاص طور پر کراچی کی آبادی کی مردم شماری صحیح کی جائے اور اسی تناسب سے ہر ادارے میں نمائندگی کا تعین کیا جائے۔
چھ : دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے میئرز مکمل اختیارات کے مالک ہوتے ہیں اسی طرح کراچی سمیت صوبے کے تمام شہروں کے میئرز کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔ نیز سندھ کے تمام ڈی ایم سیز کو فعال کرنے کے لئے خصوصی طور پر اختیارات دیئے جائیں۔
سات : اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پولیس اور انتظامیہ میں اُردو بولنے والوں کی اصل نمائندگی واضح طور پر نظر آئے۔
آٹھ : اس بات کو یقینی بنایا جائے شہر کراچی میں ناجائز کچی آبادیاں وجود میں نہ آنے پائیں نیز ناجائز تعمیرات کی تعمیر کے وقت حوصلہ شکنی کی جائے اور اس میں شامل اور مددگار ایس بی سی اے اور دیگر اداروں کے افران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے جبکہ پہلے سے ناجائز تعمیر شدہ عمارتوں کو ریگولرائز کیا جائے تاکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی محفوظ ہوجائے۔
نو : آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بجٹ کی نسبت مالی طور پر بے انتہا مضبوط ہوگئے ہیں اور مالی وسائل سے مالا ہوگئے ہیں لیکن اس کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ صوبے مالی اختیارات کو نچلی سطح تک لائیں تاکہ بلدیاتی مسائل، پانی اور گندے پانی کے نکاسی جیسے مسائل سے باآسانی نمٹا جاسکے۔ اس لئے یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی بلدیات کو فوری طور پر فنڈز فراہم کئے جائیں تاکہ یہ ادارے اپنی ذمہ داریاں بحسن بخوبی ادا کرسکیں۔ نیز وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فی الفور بلدیہ کراچی کو خصوصی طور پر فنڈز فراہم کئے جائیں۔
دس : پاکستان کی موجودہ آبادی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے مسائل کو بہتر اور احسن طریقے سے حل کرنے کے لئے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح مزید صوبے بنائے جائیں۔ عارضی طور پر گلگت بلتستان انتظامی یونٹ کی طرح موجودہ صوبوں میں بھی انتظامی یونٹ بنائے جائیں۔
گیارہ : دہشت گردی سے متاثرہ افراد، خاندان، املاک کی بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فوری طور پر امدادی پروگرام کا اعلان کریں۔
بارہ : کھیل کے میدان پارک اور دیگر عوامی فلاحی مقامات کو لینڈ مافیا سے آزاد کرایا جائے اور لینڈ مافیا اور ان کے مددگاروں کو قانونی گرفت میں لایا جائے۔
تیرہ : کسی بھی قسم کی گرفتاری کے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بے گناہ افراد اس کی زد میں نہ آئیں۔
چودہ : بے گناہ گرفتار افراد اور تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں، وکلا، پولیس کے اہل خانہ کی مالی مدد کی جائے۔
پندرہ : اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہری بلدیاتی اداروں میں اُردو بولنے والے اور دیگر زبانیں بولنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔
سولہ : شفاف سروے کرتے ہوئے اسکول، کالجز اور دیگر عوامی مقامات پر قائم تجاوزارت کا خاتمہ کیا جائے۔
سترہ : سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان سے آنے والے پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کے اجرا میں بے انتہا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح انہیں بھی شناختی کارڈ بغیر کسی رکاوٹ کے حاصل ہوجائے۔
اٹھارہ : لینڈ مافیا سے نجات کے لئے تمام شہری اور دیہی زمینوں کے پیمائشی ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نظام سے منسلک کیا جائے۔
انیس : کراچی شہر پینے کے پانی کی شدید کمی کا شکار ہے، اس سلسلے میں ایک طویل عرصے کے بعد کے-4 کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس سے پانی کی کمی کی مشکلات کو کم کیا جاسکے گا، مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کے -4 کا منصوبہ لازمی طور پر اپنے مقررہ مدت میں پورا کیا جائے۔
بیس : کراچی میں پینے کے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کی منصوبہ بندی کی جائے، کچرے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کئے جائیں۔
اکیس : امن وامان کی بہتر صورتِ حال کے لئے تمام مصروف شاہراہوں، علاقوں، آبادیوں اور بازاروں میں کارآمد سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں اور ان کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام کیا جائے۔
بائیس : کراچی پاکستان کا سب سے بڑا آبادی والا شہر ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، عوام کی بہتر سہولت اور کارکردگی میں اضافے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ لاہور اور ملتان کی طرح کراچی میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا بہتر اور مناسب انتظام کیا جائے۔
تئیس : وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ کراچی اور اس کے قرب و نواح میں تعمیر ہونے والے ونڈ پراجیکٹ، کول پراجیکٹ، سولر پراجیکٹ اور ایٹمی ری ایکٹر سے پیدا ہوانے والی بجلی کی کم سے کم نصف مقدار کراچی کے شہریوں کو فراہم کی جائے نیز اس کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کراچی الیکٹرک اور واپڈا کے بجلی صارفین کو یکساں ریٹ کی بنیاد پر بل فراہم کئے جائیں۔ اگر اس سلسلے میں کوئی سبسڈی دینی پڑتی ہے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی آبادی کو اس سے مستفید کیا جائے۔
چوبیس : صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم انتہائی بدعنوانی اور کرپشن کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف معیاری اساتذہ موجود نہیں ہیں جبکہ اسکول اور کالجز فرنیچر کی کمی اور عمارتوں کی نہ موجودگی کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں معیار تعلیم معیار کے نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ موجودہ تمام اساتذہ بی ایڈ کوالیفائیڈ ہیں اور میرٹ پر بھرتی شدہ ہیں جبکہ آئندہ اساتذہ کی بھرتی میرٹ اور کوالیفیکیشن کو مدنظر رکھا جائے۔ نیز جہاں پر بلڈنگ موجود نہیں ہے ان کو فوری طور پر تعمیر کیا جائے تاکہ معیار تعلیم کو بہتر کیا جاسکے۔