Wednesday, July 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی پسپائی؟

نصرت مرزا
 اگر اس سے الگ ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہ بات کہی جارہی ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بے مقصد یا اسرائیل کیلئے لڑ رہا ہے اور اس نے عراق، شام، لیبیااور افغانستان میں لاکھوں افراد کو بے گناہ مار دیا ہے تو قدرت کا نظام حرکت میں آ گیا ہے اور انسانیت کی محدودیت کو واضح کررہا ہے۔۔۔

عام طور پر دُنیا میں یہ بحث چل پڑی ہے کیا امریکہ دُنیا بھر سے بتدریج پسپائی کے راستے پر گامزن ہے، اگر ایسا ہے تو کیا وہ عالمی بالادستی کے تصور سے دستبردار ہورہا ہے یا پھر وہ کوئی نئی حکمت عملی اپنا رہا ہے کیونکہ جہاں اُس نے شام سے اپنی افواج کو واپس بلانے کا اعلان کیا اور افغانستان سے اپنی افواج کو واپس بلانے کے درپے ہے، اس نے 10 سے 16 ہزار افواج میں سے آدھی فوج نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ چین، روس اور پاکستان اُس کے مفادات کا تحفظ کریں گے، جیسے ٹی اے پی آئی گیس پائپ لائن، سونے اور تانبے کی کانوں سے خام سونا اور تانبا نکالنے کے معاہدات ہیں، اسکے اپنی افواج کے دنیا بھر سے واپس امریکہ لانے کی کچھ امریکی وجوہات ہیں۔جیسے کہ شام، افغانستان اور اس سے پہلے ویتنام کی جنگوں کے علاوہ ان کے فوجیوں کی مختلف بحری بیڑوں میں تعیناتی سے امریکہ میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو اب تقریباً سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جو پاگل پن کے قریب تر پہنچ گئے ہیں، یہ لوگ ظلم و ستم کرکے یا عالم خوف میں یا اپنی سرزمین سے باہر غیرفطری زندگی گزارنے کی وجہ سے کئی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اُن کے علاج کے لئے امریکہ کو تقریباً سالانہ 56 ارب ڈالرز خرچ کرنے پڑ رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ 22 کے قریب ہر ماہ خودکشی کرتے ہیں، وجہ یہی بتائی کہ وہ کسی نہ کسی خوف یا ہم اُسے بہت شائستہ زبان میں کہیں تو وہ لگتا ہے کہ ضمیر کے کچوکوں اور اس کے ردعمل کا شکار ہورہے ہیں کہ وہ انسانیت کی خدمت کی بجائے غریب، لاچار، مجبور، نہتے یا کم تر درجے مسلح لوگوں کو بیدردی سے مارنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُن کو مقصد کا بھی علم نہیں ہے کہ جو وجوہات بتائی جاتی ہیں ان کا ضمیر قبول نہیں کرتا، اس لئے ان لوگوں کی طرف سے امریکی معاشرے میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے واقعات بھی سننے کو ملے ہیں کہ کسی نہ کسی شراب خانے یا کسی مذہبی جگہ میں گھس کر فائرنگ کر ڈالی۔ اس نے امریکی معاشرے میں ہیجان پیدا کر رکھا ہے، اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی یہ ڈاکٹرائن وضع کیا تھا کہ وہ اپنی مسلح افواج کو ہر جگہ سے واپس بلا لیں گے اور اگر اُن کو کارروائی کرنے کی ضرورت پڑی تو سرجیکل اسٹرائیک کا راستہ اختیار کریں گے اور سرجیکل اسٹرائیک بھی ایسی ہوگی جس کی اطلاع اس وقت میڈیا کو دی جائے جب امریکی افواج کی کوئی ٹیم مشن مکمل کرکے واپس آجائے گی۔ اگرچہ اُن کی یہ پالیسی اس وقت بے سروپا نظر آئی تھی سو تنقید کا نشانہ بنی مگر آہستہ آہستہ حقائق سامنے آئے تو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ پالیسی ٹرمپ کی نہیں بلکہ اداروں نے بہت سوچ سمجھ کر بنائی تھی کہ اُن کے فوجیوں کے اپنے خاندان اور اپنے ماحول سے دور رہنے کی وجہ سے معاشرے میں جو بے راہ روی اور ذہنی ہیجان پیدا ہورہا ہے اُس کو روک سکیں، اُن کے سامنے وہ حقائق تھے جو ہم نے اوپر بیان کئے یا وہ حقائق جو ہم بیان کرنے جارہے ہیں، میں 1983ء میں امریکہ میں باسکنگ رج کے ایک اجلاس میں گیا ، میرے ساتھ میرے اطالوی ساتھی بھی تھے وہاں ہمیں ایک بڑی تجارتی کمپنی کے عہدیداروں سے ملاقات کرنا تھی، رات کو ہمارے میزبان ہمیں ایک نائٹ کلب لے گئے اور وہاں عورتوں کی ایک بڑی تعداد موجود اور مردوں کی تعداد کم تھی، ہمارے میزبان نے یہ بتایا کہ یہ خوبصورت اور بھرپور جوان عورتوں کے شوہر امریکہ سے باہر امریکی افواج کی خدمات انجام دے رہے ہیں، یہ عورتیں اپنا وقت گزارنے اور اپنے آپ کو تھکانے کے لئے رات گئے تک ڈانس کرتی ہیں تاکہ تھک کر سو جائیں اور یہاں عام لوگوں کے آنے پر بھی پابندی ہے، وہ ہم کو مہمان کی حیثیت سے لے کر آئے تھے، اس سے اندازہ لگایا کہ معاملہ کافی خراب ہے، اس پر مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ یاد آیا کہ وہ معمول کے مطابق رات کو گشت پر تھے تو انہیں ایک گھر سے گانے کی آواز آئی جو اپنے شوہر کو یاد کررہی تھی، خلیفہ وقت فوراً اپنے بیٹی کے گھر گئے اُن سے پوچھا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے بغیر کتنے دن رہ سکتی ہے تو انہوں نے چار انگلیاں سامنے کرکے یہ بتایا کہ چار ماہ تک، اس کے بعد انہوں نے یہ حکم جاری کیا، فوجیوں کو ایک مدت کے بعد گھر لایا جائے، امریکی بھی ایسا ہی کرتے ہیں شاید تین یا دو ماہ بعد اُن کو ایک ماہ گھر میں گزارنے کا موقع دیا جاتا ہے مگر اس میں بہت اخراجات آتے ہیں، یہی بات میں نے آرامکو سعودی عرب میں دیکھی کہ جو امریکی آرامکو میں کام کررہے تھے اُن میں سے بہت سے اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے اور جو لوگ تیل نکالنے پر معمور تھے یا کم درجے پر کام کرتے تھے تو اُن کو ایک خاص مدت کے لئے امریکہ بھیج دیا جاتا تھا، تیل نکالنے کے کام پر بہت مضبوط امریکی یا یورپی ممالک کے کارکن لگے ہوتے تھے، اُن کے جذبات کی شدت بھی بے پناہ تھی، ذرا ذرا سی بات پر لڑ پڑتے تھے، اگرچہ اُن کے آرام آرائش کا خاص خیال تھا، مثال کے طور پر میں نے العدلیہ کا علاقہ جو انتہائی وسیع عریض صحرا تھا اور وہاں ہر طرف تیل کے کنوئیں تھے اور بہت بڑے تیل نکالنے کی مشین جنہیں (آر آئی جی) کہا جاتا تھا تیل نکالنے میں مصروف رہتے تھے، وہ لوگ کافی شائستہ ہوتے تھے یا جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا وہ کم از کم شائستہ تھے مگر اگر کسی بات پر بدک جائیں تو کافی تلخ ہوجاتے تھے اور چھٹی کے دن گنتے رہتے ہیں، ایک دو جگہوں پر ہمیں پاکستانی بھی ملے مگر وہ شاید زیادہ قوتِ برداشت کے اس لئے حامل تھے کہ وہ اس کام کو زیادہ دنوں سے نہیں کررہے تھے یا اُن میں قوتِ برداشت زیادہ تھی یا پھر ضرورت اُن کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی تھی، اگر اس سے الگ ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہ بات کہی جارہی ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بے مقصد یا اسرائیل کے لئے لڑ رہا ہے اور اس نے عراق، شام، لیبیااور افغانستان میں لاکھوں افراد کو بے گناہ مار دیا ہے تو قدرت کا نظام حرکت میں آ گیا ہے اور انسانیت کی محدودیت کو واضح کررہا ہے، انسانی جسم کا خودکار قدرتی نظام جو اچھائی اور بھلائی اور انسانیت کے فروغ کے لئے ترتیب دیا گیا ہے وہ روبہ عمل آرہا ہے، اس کے علاوہ امریکہ میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ افغانستان کی جنگ کیا وہ چینی تاجروں کے تحفظ کے لئے لڑ رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں چینی تاجر اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ چین کے پاس افغانستان کے ٹھیکہ جات میں 70 فیصد حصہ ہے، اس لئے بھی امریکہ یہاں سے نکلنے اور یہاں کا بوجھ چین اور روس پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اس پر تنقید نگار یہ کہتے ہیں کہ طالبان کے حکمران بننے کے بعد داعش کو طالبان سے لڑا دیں گے اور یوں طالبان، چین، روس، پاکستان اور ایران کو خطرہ میں ڈال دیں گے، اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش اس قدر طاقتور ہے کہ کیا ایک ساتھ طالبان اور پانچ ملکوں سے لڑ کر جیت جائے جبکہ وہ غیرملکی ہیں اور اُن کے لڑنے کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے جو بڑا کام کیا ہے کہ طالبان کو بکھرنے نہیں دیا اور طالبان کو امریکہ اور اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے لئے راضی کرکے اپنا کام کردیا۔ اس پر امریکہ کے کئی دانشوروں نے یہ لکھا کہ کیا امریکہ، افغانستان کو پاکستان کے حوالے کرنے جارہا ہے، یہ سوالات ہیں اور جو ابھی طے نہیں کئے جاسکتے ہیں البتہ یہ امریکہ کے نئے گریٹ گیم کا حصہ ہے جس میں بظاہر پاکستان کامیاب اور سرخرو ہو کر نکلتا نظر آتا ہے۔

مطلقہ خبریں