Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی و اسرائیلی درندگی اور فلسطینیوں کے حقوق

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بہتر مستقبل کی تیاری میں مدد دینے کے حوالے سے امریکا بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے
نئی اپروچ یہ ہونی چاہئے کہ جس طرح اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ اور سکون کی حالت میں رہنے کا حق حاصل ہے بالکل اسی طرح فلسطینیوں کو بھی محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے
سمیع اللہ ملک
جب بھی اسرائیل اپنی بھرپور سفاکی اور طاقت کے نشے میں چور ہو کر راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ کو انتہائی بہیمیت کے ساتھ نشانہ بناتا ہے تو امریکا میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دونوں جماعتوں کا ایک ہی بیانیہ سننے میں آتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی یہ دلیل نہیں دے رہا کہ ناجائز ریاست اسرائیل یا کسی بھی اور ملک کو اپنے لوگوں کے دفاع کا حق حاصل نہیں، پھر یہ الفاظ سال بہ سال، جنگ بہ جنگ کیوں دہرائے جا رہے ہیں؟ اور یہ سوال کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا کہ جائز حق دار فلسطینیوں کے حقوق کیا ہیں؟ اور ہم اسرائیل اور فلسطین میں تشدد کا نوٹس صرف اس وقت کیوں لیتے ہیں جب فلسطینیوں کے داغے ہوئے راکٹ اسرائیل میں گر رہے ہوتے ہیں؟ اس بحرانی کیفیت میں امریکا کو دیرپا جنگ بندی یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اگر اسرائیل کی طرف داغے جانے والے حماس کے راکٹ ناقابل قبول ہیں تو پھر آج کا یہ سنگین تنازع ان راکٹس سے پیدا نہیں ہوا۔ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینی خاندان ایک مدت سے جبری نکالے جانے کے خطرے سے دوچار حالت میں جی رہے ہیں۔ ایک ایسا نظام وضع کرکے نافذ کردیا گیا ہے جس میں انہیں جبراً بے گھر کرنا ممکن ہے۔ چند ہفتوں کے دوران انتہاپسند یہودی آبادکاروں نے ان فلسطینیوں کو بے گھر کرنے سے متعلق اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں یا علاقوں سے بے دخل کرنے کا یہ عمل سیاسی اور معاشی دباؤ کے ایک بڑے نظام کا محض ایک حصہ ہے۔ ہم ایک مدت سے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی آبادکاروں کے قبضے اور غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی دیکھتے آئے ہیں، جس نے فلسطینیوں کے لئے حالات کو ناقابلِ برداشت بنایا ہے۔ غزہ کی آبادی کم و بیش بیس لاکھ ہے اور وہاں 70 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، ان میں مستقبل کے حوالے سے قطعاً کوئی واضح اُمید بھی باقی نہیں رہی۔ ساتھ ہی ساتھ ہم نے نیتن یاہو کی حکومت کو اسرائیل میں آباد فلسطینیوں کے لئے بہتر مستقبل کے امکانات کو کم سے کم کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے، نیتن یاہو کی حکومت نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں دو ریاستوں والا حل اب کم و بیش ناممکن ہو کر رہ گیا ہے، ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن کے تحت اسرائیل کے یہودی اور غیریہودی شہریوں کے درمیان بہت واضح خطِ امتیاز کھنچ گیا ہے۔ کیا ان تمام حقائق سے حماس کے حملوں کو جواز نہیں ملتا؟ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں سرزمینوں میں اسرائیلی حکومت واحد خودمختار اتھارٹی ہے مگر اس نے امن اور انصاف کے لئے فعال ہونے کے بجائے غیرمساوی اور غیرجمہوری تصرف اور غیرقانونی جبری پالیسیوں کو یقینی بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اسرائیل میں ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے انتہائی دائیں بازو کی حکومت رہی، جس نے نیتن یاہو کی قیادت میں عدم رواداری اور مطلق العنانیت پر مبنی نسل پرست قوم پرستی کو فروغ دینے کے لئے مجرمانہ کام کیا ہے۔ اقتدار کو طول دینے اور کرپشن پر محاسبے سے بچنے کے لئے نیتن یاہو نے اتماربین گوِر اور اس کی انتہاپسند جیوئش پاور پارٹی کو جائز حیثیت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، انہیں حکومت کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن نسل پرستوں نے مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوں پر ٹولوں کی شکل میں فلسطینیوں کو قتل کیا وہ آج اسرائیل کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔ یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طور منفرد یا حیرت انگیز نہیں۔ یورپ، ایشیا، جنوبی امریکا اور امریکا میں مطلق العنان قومی تحریکوں کو تیزی سے ابھرنے اور مقبولیت پانے کی تاریخ سے کسی نہیں کچھ نہیں سیکھا۔ یہ تحریکیں بہت سوں کے لئے خوشحالی، انصاف اور امن یقینی بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے نسلی اور لسانی بنیاد پر پائی جانے والی نفرت کو بروئے کار لا کر چند ایک کے لئے اقتدار اور کرپشن کی راہ ہموار کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان دنوں سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی نسل بھی ابھرتی دیکھ رہے ہیں جو انسانی ضرورتوں اور سیاسی مساوات کی بنیاد پر معاشروں کی تعمیر چاہتی ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما میں امریکا کی سڑکوں پر جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ایسے بہت سے کارکنوں کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھا گیا، اب یہ کارکن ہمیں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا میں ٹرمپ کے بعد اقوام عالم کو یہ توقع ہے کہ دنیا کے حوالے سے انصاف اور جمہوریت پر مبنی طرزِفکروعمل اپنائی جائے۔ معاملہ غریب ممالک کو ویکسین کی فراہمی کا ہو یا ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے لڑنے کا یا پھر سیاسی معاملات کی درستی کا، امریکا کو ہر محاذ پر کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ امریکا کو تنازعات کے خاتمے کی راہ ہموار کرتے ہوئے اشتراکِ عمل اور معاونت کی راہ ہموار کرنی ہے لیکن حالیہ فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں ان کے بیانات نے بڑا مایوس کیا ہے۔
امریکا اسرائیل کو ہر سال چار ارب ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ ایسے میں نیتن یاہو کی دائیں بازو کی انتہاپسند حکومت اور اس کی غیرجمہوری اور نسل پرستانہ اقدامات کے حوالے سے جوبائیڈن کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب برتنا چاہئے تھا۔ انہیں اب اپنا راستہ تبدیل کرکے برابری کے اصول پر مبنی طرزِفکروعمل اپنانی چاہئے، جو شہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون کو بالادست اور مضبوط کرتی ہو اور ساتھ ہی ساتھ امریکی قانون کو بھی بالادستی عطا کرتی ہو جس کے تحت امریکی فوجی امداد کسی بھی حالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب معاشروں کو نہیں ملنی چاہئے۔ نئی اپروچ یہ ہونی چاہئے کہ جس طرح اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ اور سکون کی حالت میں رہنے کا حق حاصل ہے بالکل اسی طرح فلسطینیوں کو بھی محفوظ اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بہتر مستقبل کی تیاری میں مدد دینے کے حوالے سے امریکا بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر امریکا عالمی سطح پر بنیادی حقوق کے حوالے سے توانا آواز بننا چاہتا ہے تو ہمیں انسانی حقوق پر بین الاقوامی معیارات کی بالادستی ہر حال میں یقینی بنانی چاہئے، چاہے ایسا کرنا سیاسی اعتبار سے کتنا ہی مشکل ہو۔ ہمیں محسوس کرنا ہوگا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی زندگیوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اسرائیلیوں کے حقوق اور زندگی کی۔

مطلقہ خبریں