Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی دھمکیاں اور ہمارے ایٹمی اثاثے

محسن فارانی

حد سے بڑھ کر یہود نواز امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان (25 اگست 2017ء) کے بعد ان کا ہر سیکریٹری (وزیر) اور اعلیٰ عہدیدار پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے اپنی خباثت ظاہر کررہا ہے۔ نومبر 2017ء میں امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے اسلام آباد آ کر دھمکیاں دیں۔ پھر مشیر قومی سلامتی جنرل میک ماسٹر اور ڈائریکٹر سی آئی اے پومپیو نے خطرناک انجام کی وارننگ دی۔ پھر خود امریکیوں کے بقول ’’پاگل کتا‘‘ (مڈ ڈوگ) جس کا نام جیمز میٹس ہے، دسمبر میں چلا آیا۔ اس کا اسلام آباد میں ایک میجر جنرل کی سطح پر سرد استقبال ہوا تو اس کا لہجہ نرم تھا، اس نے جہاں پاکستان کی خدمات کو سراہا، وہیں پاکستان کو اپنے ہاں سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں ’’دگنا تعاون‘‘ کرنے کی تلقین بھی کی۔ یہ جنگِ افغانستان کا ریٹائرڈ جرنیل ہے اور ٹرمپ نے اسے وزارتِ دفاع دے رکھی ہے۔ امریکیوں کی ملفوف اور غیرملفوف دھمکیوں کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کرے، حالانکہ پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ حقانی گروپ پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کے اندر سرگرمِ عمل ہے مگر امریکی مان کے نہیں دے رہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے اندر امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار طالبان کے استحصال میں ان کی مدد کرے لیکن پاکستان اب امریکی جنگ میں اپنا مزید نقصان کرنے کو تیار نہیں۔
اب تازہ ترین ہرزہ سرائی امریکی نائب صدر مائیک پنس نے افغانستان میں کی ہے۔ اس نے 22 دسمبر 2017ء کو کابل میں کھڑے ہو کر دھمکی دی ہے کہ ’’پاکستان کو دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے پر بہت کچھ کھونا پڑے گا۔‘‘ مائیک پنس نے امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے اور میں اب ان کی بات کو دہراتا ہوں کہ پاکستان سرحد پار موجود طالبان کے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے اور انہیں امریکی فوج اور افغان اتحادیوں کے خلاف لڑنے سے روکے۔ ہم نے امریکی فوج کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا اختیار دے دیا ہے چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں۔‘‘ امریکی نائب صدر نے یہ بڑ بھی ہانکی ہے کہ ’’افغانستان میں ہم فتح سے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔‘‘ یہ امریکی خام خیالی ہے۔ امریکا 16، 17 سال سے افغانستان میں ٹکریں مار رہا ہے اور اسے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکیوں کو یاد کرنا چاہئے ایک افغانی کمانڈر نے برسوں پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے کوہ سفید کے دامن میں ایک امریکی صحافی کی قیمتی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’گھڑیاں تمہارے پاس ہیں مگر وقت ہمارے پاس ہے۔‘‘ حریّت پسند افغانیوں نے امریکیوں کو ایک ایسی طویل جنگ میں الجھایا ہے کہ اس سے پہلے اتنی طویل جنگ امریکا نے کبھی نہیں لڑی تھی۔ کئی امریکی اعلیٰ عہدیدار اور عسکری تجزیہ کار افغانستان میں امریکی شکست کا اعتراف کر چکے ہیں مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ پر ’’واسپ‘‘ صلیبی حاوی ہیں۔ یہ ڈبلیو اے ایس پی یعنی وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹس ڈھٹائی سے بش کی شروع کی ہوئی صلیبی جنگ جاری رکھنے اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو نشانہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مائیک پنس کی دھمکی کے جواب میں وزیرخارجہ خواجہ آصف نے برملا کہا ہے: ’’امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان کو دھمکی سے مرعوب کیا جا سکتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔‘‘ امریکیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ نائن الیون کے بعد ان کے وزیرخارجہ کولن پاول (امریکی فوج کا سابق سیاہ فام سربراہ) نے جب پاکستان کو دھمکی دی تھی، اس وقت ہمارا عسکری حکمران جنرل پرویز مشرف تھا جو غالب کے الفاظ میں ’’دھمکی میں مر گیا‘‘ لیکن اب ہماری سول اور عسکری قیادت ثابت قدم ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملکی مفادات اور دفاعِ پاکستان کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ حالیہ اسپیکرز کانفرنس (اسلام آباد) میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی امریکا کو کرارا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔ امریکا سن لے، ہمیں دوسروں سے نوٹس لینے کی عادت نہیں۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت کا نیا گٹھ جوڑ بن گیا ہے۔ ہمیں بھارتی تھانیداری قبول نہیں۔ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے مگر پاکستان اپنی سالمیت پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گا۔‘‘
وائٹ ہاؤس (واشنگٹن) میں براجمان نئے صدر کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ نے افغانستان میں فضائی برتری سے فائدہ نہیں اٹھایا، لہٰذا اب ٹرمپ کی پالیسی یہ ہے کہ طالبان پر زیادہ سے زیادہ بمباری کی جائے تاکہ افغان جنگ کا بہتر شرائط پر خاتمہ ہوسکے۔ ستمبر میں امریکیوں نے طالبان اور داعش کے جنگجوؤں پر 751 بم اور میزائل گرائے۔ یہ تعداد پچھلے اگست کی نسبت 50 فیصد زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ مزید چند ہزار فوجی افغانستان بھیج رہے ہیں۔ یہ کام سابق صدر اوباما نے بھی سرج (اٹھتی لہر) کے نام پر کیا تھا اور افغانستان میں برسرِ جنگ امریکی فوج کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ گئی تھی مگر طالبان ’’سلطنتوں کے قبرستان‘‘ افغانستان میں بدستور مصروفِ جہاد ہیں۔ امریکیوں کا انحصار اب زیادہ تر کابل حکومت کی فوج پر ہے۔ مائیک پنس نے کابل میں افغان صدر سے حالیہ ملاقات کے بعد کہا: ’’صدر غنی نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے صرف 2017ء میں پچھلے برسوں سے زیادہ سینئر طالبان لیڈروں کو ہلاک کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم جنگ کو دشمن تک لے جائیں گے اور وہ تھک ہار کر (مذاکرات) کے لئے آگے آئے گا۔‘‘
یہ مسٹر پنس کی بھول ہے۔ طالبان کی مذاکرات کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ غیرملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں۔ پچھلے 16 برسوں سے وہ اپنی بات پر قائم ہیں اور اب بھی پیچھے ہٹنے کے نہیں۔ یہی شرط طالبان نے 2010ء میں اس وقت عائد کی تھی جب جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کے بقول ’’امریکا کو افغان جنگ میں شکست ہوئی تو انہوں نے رچرڈ آرمیٹیج کو میرے پاس بھیجا تھا تاکہ افغان طالبان کو بات چیت پر آمادہ کیا جاسکے مگر طالبان 1996ء کی طرح دھوکے میں آنے والے نہیں تھے۔‘‘
اے ایف پی کے اینڈریو بیٹی لکھتے ہیں کہ ’’بڑھ چڑھ کر کیے جانے والے (امریکی) دعوؤں کی تصدیق مشکل ہے۔ طالبان نے اپنے دو سربراہوں کی موت پر بھی اپنی حرکیّت بلند رکھی جن میں ملا اختر منصور بھی شامل ہے جسے بارک اوباما کے حکم پر 2015ء کے ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا۔ ادھر افغانی فوج میں سپاہیوں کا ڈیوٹی سے فرار اور کرپشن عروج پر ہیں اور فوجیوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی شرح تشویشناک طور پر اونچی ہے جبکہ طالبان ملک کے 45 فیصد علاقوں پر قابض ہیں۔ یوں جنگِ افغانستان کے سابق جرنیلوں اور ٹرمپ کی نئی اسٹرٹیجی کے پیش کاروں میک ماسٹر اور جیمز میٹس سمیت بگرام کے فضائی اڈے پر اترنے والوں میں سے کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ طالبان اجتماعی سرینڈر کرنے والے ہیں۔‘‘ یاد رہے بگرام، جلال آباد اور قندھار تین فضائی اڈے امریکا کے کنٹرول میں ہیں جہاں سے چیختے چنگھاڑتے امریکی بمبار روزانہ اڑ کر افغانستان کی کوہستانی وادیوں میں تباہی مچاتے رہتے ہیں۔
امریکی دھمکیوں کا خطرناک پہلو ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ان کے گھناؤنے عزائم ہیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے افغان روس جنگ (1979-89) کی آڑ میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل کرلیا تھا جب امریکا کمیونسٹ روس کی بحیرۂ عرب کی طرف پیش قدمی کو روکنا چاہتا تھا اور پاکستان کی امداد کے لئے اس کے ایٹمی پروگرام کو نظرانداز کرنا امریکیوں کی مجبوری تھی۔ لیکن اس جنگ کے ختم ہونے پر امریکا نے ہماری ایٹمی صلاحیت کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کرلیا۔ سیموئل ہرش نامور صحافی ہے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی فرمائش پر لکھتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکی خفیہ اداروں کے کارندے ہرش نے اپنے ایک مضمون میں یہ منظرنامہ دکھایا کہ کس طرح پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر وار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بقول ایک اسپیشل فورس تشکیل دی جا چکی ہے جس کے آپریشن کے دوران علاقے میں پہلے سے موجود امریکی افواج اس کی مدد کریں گی۔ ایک مرحلے پر اس ٹاسک فورس میں یہ تبدیلی کی گئی کہ جوہری اثاثوں کو اٹھا لینے کے بجائے ان کو ٹرگر کرنے والے آلات ہی قبضے میں لے لئے جائیں۔ ایک بار یہ فورس ایکشن کے لئے دبئی پہنچ گئی تھی مگر پھر پاکستان میں ماحول آپریشن کے لئے سازگار نہ ہونے پر اس نے واپسی کی راہ لی۔ علاوہ ازیں بلوچستان اور سی پیک کے بارے میں امریکی عزائم بھی تشویشناک ہیں۔ ان حالات میں ہمارے سیاستدانوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں جو ’’کرسی کرسی‘‘ کھیلتے ہوئے ملکی مفادات کو لاحق سنگین خطرات سے یکسر غافل ہیں۔ یہ دھرنے اور حکومت گرانے کی سازشیں کسی طور ملکی مفاد میں نہیں۔ ہم سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے یکمشت ہو کر ہی پاکستان کے خلاف امریکا اور بھارت کے ابلیسی عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

مطلقہ خبریں