Friday, January 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی دانشوربرزنسکی کی سیاست

نصرت مرزا

سینتالیس برسوں تک امریکی سیاست کو متاثر کرنے والے شخص زیبگنیوف برزنسکی جو امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں مشیر سلامتی امور رہے اور کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں The Grand Chess Baord  انتہائی اہم کتاب ہے  وہ اب انتقال کر گئے ہیں جس سے امریکی و عالمی سیاست کا ایک عہد ختم ہوا۔ بہت شہرت حاصل کی۔ اُن کی سوچ و فکر امریکی سیاست پر حاوی رہی اور یہ کتاب جدید امریکہ اور قدامت پسندوں کیلئے ڈونالڈ ٹمپ سے پہلے انجیل کا مرتبہ رکھتی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے امریکی پالیسی کے خدوخال واضح کئے، جس میں دُنیا پر امریکی بالادستی کو قائم کرنے کا عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ دُنیا کی طاقت کا محور صدیوں سے یوریشیا میں رہا ہے، اُس کو امریکہ نے ایک سو سال کی مدت میں جنگیں کرا کر سازشیں ، حکومتوں کی تبدیلی اور زور و جبر کی راہ اختیار کرکے امریکہ منتقل کردیا ہے اور اب وہ طاقت کے محور کو اس وقت تک اپنے پاس رکھیں گے جب تک ممکن ہو اس کے لئے امریکہ کو چاہے جنگ کرنا پڑے یا حکومتیں تبدیل کرنا ہو یا سازشیں کرنا پڑے یا خون خرابہ کرانا ہو یا کوئی اور صورت اختیار کرنا پڑے طاقت کے اس عالمی مرکز کو براعظم امریکہ سے یوریشیا منتقل نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے دیکھا کہ امریکہ ساری دُنیا میں خون خرابہ کرنے کا ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔ وہ مستقل طور پر دُنیا میں خون بہاتے رہتے ہیں، ساری دُنیا کو ہیجان میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اس کے لئے وہ دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اس وقت  مسلمان انکے ظلم و ستم کے نشانہ پر ہیں اور اسلامی جہاد کے نام سے چار عشرے پہلے سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر امریکہ نے سعودی عرب، کویت اور قطر کے ساتھ مل کر جو پالیسی وضع کی تھی وہ سوویت یونین کی شکست کے بعد اور اُس کے کامیاب نتائج اس طرح سے ملے کہ وہ دُنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا اور پاکستان کو ایک نظرانداز کردیا تاہم پاکستان نے اِس وقت کا سائڈ لائن سے فائدہ اٹھا کر خود ایٹمی طاقت بن گیا، اس وقت امریکہ روک نہیں سکتا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ وہ کسی اور وقت میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرا دے گا، مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تاہم وہ اب بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تعاقب میں ہے۔ امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد اسلامی جہاد کو دُنیا پر اپنی عالمی بالادستی قائم رکھنے کے لئے استعمال کرنے کے لئے اس میں مزید رنگ بھرے، القاعدہ بنائی، ان کے ذریعے 9/11 کا واقعہ کرایا اور افغانستان پر قابض ہوگیا، وہاں اس نے 9 زمین دوز اڈے بنا لئے جو پاکستان، ایران، چین، روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک پر نظر رکھ سکتے تھے۔ وہاں اس نے دفاعی نظام بنا ڈالا ہے اور اُس کی معدنی دولت پر قبضہ کرلیا اور انتہائی اہم معدنیات نکال کر لے جارہا ہے اور کچھ دوسرے ملکوں کو بھی لے جانے دے رہا ہے مگر وہ ہلیم جیسی معدنیات افغانستان سے حاصل کررہا ہے جو دفاع کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کے لئے کام میں لائی جاتی ہے، افغانستان سے وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے اور بھارت کو افغانستان میں جما رہا ہے تاکہ پاکستان کو مشرق و مغرب سے سینڈوچ کرسکے۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ نے جس طرح وحشیانہ بمباری کی، جس طرح مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے وہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور جس قدر خون عراق، شام و لیبیا میں بہایا اُس کی مثال مشکل ہی سے ملے۔ 9/11 کے دس سال بعد القاعدہ کی طاقت اور اُس کے سربراہ کو ایک مصنوعی مقابلہ میں مارنے کے بعد امریکہ  داعش نامی تنظیم کو معرض وجود میں لایا، اس دفعہ شیعہ و سنی مسلک کے لوگوں کو لڑانا مقصود تھا۔ اس تنظیم نے بربریت کی انتہا کردی، اب یہ ڈھکی چھپی بات نہ رہی کہ داعش امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ مسلمان ملکوں کو باہم لڑانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس دفعہ اس کا پروگرام شیعہ اور سنی ممالک کو لڑانے کا ہے تاکہ زیادہ خون بہے اور سرحدوں کو خون کی لکیروں سے تبدیل کردے، وہ مصر سے لے کر پاکستان تک سرحدیں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ مصر میں عیسائیوں کو جمع کررہا ہے۔  عیسائی مصر اور مسلمان مصر کا قیام میں لانا چاہتا ہے تاکہ عیسائی مصر اسرائیل اور مسلمان مصر کے درمیان رکاوٹ بنے۔ اسی طرح وہ سعودی عرب، ایران، ترکی، شام، عراق کئی نئی سرحد بندی کرنے میں لگا ہوا ہے، عراق ایران سے بڑا شیعہ ملک اس طرح بنے کہ سعودی عرب کا مشرقی صوبہ جات عراق کو مل جائیں۔ قطر سعودی عرب کے دسترس میں آجائے، نیا ملک کردستان بنے تو شام، عراق، ترکی، ایران اور آذربائیجان سے کچھ علاقے کاٹ لئے جائیں، افغانستا کو ایک وسیع ملک بنانے کا ارادہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور ایران پر زد پڑے گی۔ امریکہ نے جب ماحول کو تبدیل کرنے کا آلہ 1970ء میں بنا لیا جس کے ذریعے وہ موسم کو تبدیل کرسکتا تھا، مصنوعی بارش، سیلاب، زلزلہ اور سونامی لاسکتا تھا تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ جس سائنس کے اعلیٰ مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اس کو تقلید اور اس کی اطاعت کرنا لوگوں کے فائدہ میں ہوگا، اُن کا اگرچہ یہ کہنا تھا کہ جو سائنس میدان جن لوگوں نے برتری حاصل کرلی ہے کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ وہ اُن کی رہنمائی میں چلیں جو اسی میں اُن کی بہتری برزنسکی کے یہ الفاظ Angles dont play this haarp نامی کتاب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ امریکی سلامتی امور کے مشیر زبیوگوف برزنسکی اور امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنگر اتنے سفاک خیالات کے حامل رہے ہیں کہ وہ انسانیت اور اُس کی فلاح کے خیالات کو امریکی برتری کے معاملے میں کسی مقام پر نہیں دیکھتے۔ اس وقت اُن کی نظر میں انسان صرف ایک نمبر اور کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ پورے دور حکومت میں امریکہ اس پالیسی پر گامزن رہا اور اس نے انسانی خون کا کھیل جس طرح سے کھیلا اُس کی تاریخ گواہ ہے اور انسان بھی، انسانیت کو جس طرح سے مجروح کیا وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کہ خدا کی خدائی کے سامنے کھڑا ہونا، اللہ نے انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا، ان کے نزدیک انسان کی فلاح و بہبود کوئی معنی نہیں رکھتی، جب امریکی بالادستی و برتری کا سوال اٹھ کھڑا ہو۔ 2005ء کا پاکستان کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب دونوں مصنوعی تھے اور 2011ء کا جاپان کا سونامی بھی مصنوعی قرار دیا گیا۔ اس پر ہم نے تو آواز اٹھائی۔ پاکستان پر وہ کئی مرتبہ حملہ آور ہوچکا ہے مگر پاکستان نے نقصان اٹھائے مگر محفوظ رہا، جاپان سے ناراضگی اس وجہ سے تھی کہ وہ دُنیا کی کرنسی ڈالرز کی بجائے کسی اور کرنسی چین کے ساتھ مل کر بنانا چاہتے تھے۔ اسی طرح جب روس نے ایسا کیا تو اُس کا یورپ سے تعلق توڑ دیا گیا اور تیل کی قیمت گرا دی جو روس کی معیشت کا 80 فیصد ہے اور اب یہ کھیل کھیلنے کو خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں آگیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کتنا خون خرابہ اپنے  دامن میں لئے ہوئے آئے گا۔

مطلقہ خبریں